نومبر 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان ایوب دور سے محنت کے استحصال کا شکار ہے ملک ہے۔۔۔ عامر حسینی

کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کے چئیرمین زبیر موتی والا کا کہنا ہے : یہ ہماری رقم ہے، اسے ہم اپنی ترجیح کے مطابق خرچ کریں گے-

انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق وزیراعظم پیکج کے تحت حکومت نے سرمایہ داروں کو اپریل تک ٹیکس ری فنڈ کی مد میں 100 ارب روپے واپس کرنے کا کام تیز کردیا ہے جبکہ اس پہلے مالیاتی سال 2020 میں جولائی سے فروری تک 1 کھرب 45 ارب 12 کروڑ روپے ٹیکس ری فنڈ کی مد میں واپس کیے گئے تھے-

حکومت کا کہنا ہے یہ پیکج سرمایہ داروں کو اپنے یونٹ بند نہ کرنے اور اپنے ملازمین کو تنخواہیں اور ڈیلی ویجرز کو اجرت دینے کے لیے جاری کیے جارہے ہیں…..

لیکن کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشنز کے چئیرمین زبیر موتی والا کا کہنا ہے : یہ ہماری رقم ہے، اسے ہم اپنی ترجیح کے مطابق خرچ کریں گے-

اس سے قبل 5124 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ کرنے والے ٹاپ پچاس ایکسپورٹر گروپوں کے اہم ترین گروپوں کے مالکان جن میں نشاط گروپ، گل احمد گروپ، یونس ملز گروپ، الکرم گروپ،مسعود ملز گروپ، آرٹسکٹ ملنرز ملز گروپ شامل ہیں نے اپنے کئی فیکٹری یونٹ بند کرڈالے اور ورکرز کو بنا تنخواہ کے جبری چھٹیوں پر بھیج دیا، مالکان ٹیکس ری فنڈ کی مد میں حکومت سے جولائی سے لیکر اب اپریل تک 245 ارب سے زائد موصول کرکے اور 1200 ارب کی مجموعی حکومتی سبسڈیز لیکر بھی اپنے ورکرز کو کچھ بھی رعایت دینے کو تیار نہیں ہیں-

یاد رہے کہ نشاط گروپ پاکستان کے انرجی سیکٹر میں بھی تھرمل پاور پلانٹس کے زریعے حکومت پاکستان کو سب سے زیادہ بجلی فروخت کرنے والا گروپ ہے اور نشاط چونیاں پاور لمیٹڈ کمپنی نے مالی سال 2019 میں جو خالص نفع کمایا وہ 20 ملین ڈالر تھا-
اگر آپ انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز کو 2015 سے 2018 تک کے مالیاتی سالوں میں بجلی کی پیداوار کی مد میں دیے گئے پیسے ملاحظہ کریں تو یہ قریب قریب 1072 ارب روپے بنتے ہیں(ادائیگی ڈالرز میں ہوتی ہے اور 2018-2019 کے مالی سال میں اس ادائیگی میں 232٪ اضافہ ہوگا….. یہ بھی مدنظر رہے کہ یہ پاور گروپ جتنی بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اُن کی قمیت ڈالرز میں حکومت ادا کرنے کی پابند ہے چاہے وہ بجلی آپ کا ٹرانسمشن سسٹم سہار سکے یا نہ سہار سکے….

پاکستان کا بڑے ایکسپورٹر گروپ اور نجی بجلی پیدا کرنے والے گروپ ان کا پاکستان کو کرونا وائرس سے بچانے اور اس حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں کتنے کا فنڈ ڈالا ہے؟ یہ تو آپ کے علم میں کبھی نہیں آئے گا، کیونکہ یہ سارے سرمایہ دار ‘ دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہو’ والے سخت مذھبی ضابطے پر عمل پیرا ہیں لیکن یہ حکومت سے کیا کچھ لے چکے اور کیا لینے والے ہیں، کرنے منافع یہ سمیٹ رہے ہیں ان کا اندازہ دستیاب اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا جبکہ انھوں نے کارٹل بناکر، سبسڈائزڈ ایکسپورٹ اور امپورٹ کے نام پر گھپلے کرکے کتنا مال بنایا، اُس کا ایک اندازہ تو صرف گندم اور چینی کی پہلے ایکسپورٹ اور پھر امپورٹ دونوں میں کمائے گئے مال سے لگایا جاسکتا ہے جبکہ سمینٹ، آئرن اور دوسرے مینوفیکچرر مافیا کی لوٹ مار الگ ہے-

پاکستان کی عوام جس میں اکثریت ورکنگ کلاس ہے جو ان سرمایہ داروں کے سرمائے کی پیدائش اپنی محنت کی قوت بیچ کر کرتی ہے، اُس کو ماہانہ تنخواہ، ڈیلی ویج، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ اور نجانے کس کس مشکل کا سامنا ہے…. حکومتیں سرمایہ داروں کی لابیوں کے آگے سرنڈر ہیں کیونکہ محنت کش طبقے کی اپنی کوئی لابی نہیں ہے، اُن کی سیاست اُن کے نام پر جاگیردار، سرمایہ دار اور بالائی متوسط طبقے کے پروفیشنل کرتے ہیں…. کرونا وائرس کی وبا نے سرمایہ داروں کی لوٹ کھسوٹ اور استحصال کے عمل کو اور ننگا کرڈالا ہے، اُن کی بے رحمی اور منافع کی ہوس کا اور پردہ فاش کیا ہے- وہ اپنے منافع سے تو ورکنگ کلاس کو کیا دیں گے، وہ حکومت سے ملی سبسڈیز اور مراعاتی پیکج سے بھی نکال کر ایک روپیا ورکنگ کلاس کو دینا نہیں چاہتے…. چند غریبوں میں راشن کے تھیلے اور نقد رقوم بانٹ کر یہ پاکستان کے محنت کشوں کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں-

پاکستان ایوب خان کے زمانے سے زیادہ بدترین ارتکاز دولت کے دور سے گزر رہا ہے، اُس زمانے میں 100 کے قریب خاندانوں نے پاکستان کے زرایع پیداوار کے مالک تھے اور وہ پیداوار کے طریقے پر قابض تھے اور اس قبضے میں ان کی حکومت معاون تھی، وہ پاکستان کی کل دولت کے 90 فیصد کے مالک تھے آج اس ملک ہر 1000 کے قریب خاندانوں کا قبضہ ہے اور وہ اس ملک کی 98 فیصد دولت پر قابض ہیں…… پاکستان کا کوئی بھی معاشی سیکٹر ہو وہ ان خاندانوں کے قبضے میں ہے اور اس ملک کو اشد ضرورت ہے کہ صعنتی اور سروسز سیکٹر کے بڑے بڑے گروپس کو نیشنلائز/قومیا لیا جائے اور ورکرز کی اجتماعی منیجمنٹ کے زریعے ان گروپس کے یونٹوں کو چلایا جائے- تبھی محنت کش طبقے کی نجات ممکن ہوسکے گی

About The Author