محترم قارئین کرام،، حالات اور خبریں کوئی اچھی نہیں ہیں. خدشات و خطرات پر دھیان نہ دینا، احتیاط نہ کرنا جہالت اور حماقت کی علامت ہے. اکڑنا، حقائق کو تسلیم نہ کرنا، الٹا طرح طرح کی فضول باتیں کرنا سراسر گمراہی اور تباہی ہے. جس کے نتائج کسی طرح بھی اچھے نہیں نکل سکتے.
میں نہ تو ڈرا رہا ہوں اور نہ ہی حوصلے پست کر رہا ہوں. میں بے احتیاطی کرکے اپنے آپ کو اپنے خاندان کو اپنے وسیب واسیوں کو اپنے شہر ضلع اور وطن عزیز کے عوام کو مصیبت میں مبتلا کرنے والے اندھے اور بہرے لوگوں کو خبردار کر رہا ہوں. احساس دلانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ خدا کا نام مانیں کچھ خیال کریں کچھ احساس کریں.حکومتی لاک ڈاون اور کرونا کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اور ہدایات پر سختی سے عمل کریں. حالات ہاتھ سے نکل کر کنٹرول سے باہر ہونے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں.
میں قبل ازیں اپنے دو کالموں میں ان خطرات و خدشات کا ذکر کر چکا ہوں جو اب ظاہر ہونے شروع ہو چکے ہیں. نہ جانے لوگ پڑھنے، سننے اور جاننےکے بعد احتیاط اور عمل کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھتے. کرونا کے حوالے سےمیں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ضلع رحیم یار خان سمیت پورا سرائیکی وسیب زیادہ خطرے میں ہے. رحیم یار خان میں کرونا مریضوں کی تصدیق شدہ تعداد25 سے زیادہ ہو چکی ہے.
میں سمجھتا ہوں کہ انتظامیہ اور حکمرانوں سے کئی گنا زیادہ خود عوام کو ازخود اپنے اوپر سختی کرکے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے. وطن عزیز کے ہر گھر کے ہر فرد کو احتیاط احتیاط احتیاط کرنی ہو گی. اللہ تعالی اپنی رحمت کے صدقے معاف کرے بصورت دیگر حکومت تابوت بھی پورے نہیں کر سکے گی. رحیم یار خان میں کرونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافے بارے سننے کے بعدگذشتہ دنوں شائع ہونے والی ایک خبر باربار میرے ذہن میں گھوم رہی ہے.وہ یہ تھی حکومت نے ہر ضلع میں1500تابوت تیار رکھنے کے احکامات جاری کیے ہوئے ہیں. لوگوں کی اکثریت مذاق سمجھے پھرتی ہے. بیرون ممالک سے زائرین سمیت دوسرے آنے والے حضرات کے بعد ضلع رحیم یار خان میں کراچی سے رکشوں سمیت آنے والے ہزاروں خاندان ایک بڑا خطرہ ہیں. خدارا جتنا جلدی ہو سکے موبائل ٹیم بنا کر لوگوں کی چیکنگ اور سکریننک کروائی جائے.
ورنہ یاد رکھیں ایک ہفتہ بعد ضلع کی کوئی یونین کونسل بھی کرونا فری نہیں رہے گی. میرا یہ خدشہ یقین کی حد تک ہے.ضلعی انتظامیہ ٹیسٹ کیس کے طور پر یونین کونسل محمد پور قریشیاں، یونین میانوالی قریشیاں، یونین گلور مسئو خان کو چیک کروا لے.ملتان قرنطینہ سنٹر سے نیگیٹو قرار دے کر بہاول پور آنے والے18 افراد میں سے3 کیس پازیٹو نکل آئے ہیں. جنھیں اسلامیہ یونیورسٹی سے سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے. ہمارے بہاول پور کے صحافی دوست اطہر لاشاری کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور سٹاف نےملتان سے آنے والوں کو کرونا نیگیٹو سمجھ کر حفاظتی کیٹس کے بغیر رسیو کیا ہے. آگےاللہ خیر کرے . یہی حال سرائیکی وسیب کے دیگر اضلاع اور علاقوں کا ہے.
محترم قارئین کرام،، اپنی اپنی یونین کونسل اپنے اپنے موضع اور اپنی اپنی بستی میں کرونا سے متعلق احتیاط کروائیں. میرے کالم کا دوسرا حصہ گندم اور ٹڈی دل کی صورت حال سے متعلق ہے. میں اپنی بات کرنے سے قبل اپنے ضلع رحیم یار خان کے کپتان اور کرونا احتیاط و گندم خریداری کے صوبائی نگران کی جانب سے ایک اہم میٹنگ کے بعد جاری ہونے والی مکمل خبر آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں.
ُ ُ ُ صوبائی وزیر آبپاشی محمد محسن لغاری نے ڈپٹی کمشنر علی شہزاد کے ہمراہ ضلع میں گندم خریداری مہم کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ گندم خریداری کا ہدف سو فیصد مکمل کرنے کے لئے محکمہ خوراک پوری ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کرے اور خریداری مراکز پر کورونا سے تحفظ کے لئے تمام تر حفاظتی اقدامات مکمل رکھے جائیں جس کے لئے داخلی راستوں پر ہاتھ دھونے کا مناسب بندوبست اور کسانوں کے بیٹھنے کے لئے علیحدہ علیحدہ انتظامات ہونے چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت پنجاب نے گندم کی امدادی قیمت1400روپے فی من مقرر کی ہے جبکہ گندم کی بین اضلاعی نقل و حمل پر پابندی عائد ہو گی اور گندم خریداری مہم کے دوران فلور ملز 72گھنٹے تک کا ذخیرہ اپنے ملز میں رکھ سکتے ہیں اور صرف محکمہ خوراک سے اجازت کی حامل سیڈ کمپنیاں مخصوص علاقوں سے مقررہ حد تک گندم خریداری کر سکیں گی۔صوبائی وزیر نے کہا کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی اور مقررہ حد سے زائد گندم ذخیرہ کرنے والی فلور ملز اور سیڈ کمپنیوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
انہوں نے گندم خریداری مراکز پر سیکورٹی کے فول پروف انتظامات یقینی بنانے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ڈپٹی کمشنر علی شہزاد نے کہا کہ گندم کی بین الاضلاعی نقل و حمل پر عائد پابندی پر مکمل عملدرآمد یقینی بنایا جائے اور اور ضلع کے داخلی وخارجی راستوں پر چیکنگ کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ گندم خریداری کے تمام تر انتظامات کو حتمی شکل د ے دی گئی ہے اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر(ریونیو)ڈاکٹر جہانزیب حسین لابر ضلعی سطح پر فوکل پرسن مقرر کئے گئے ہیں جبکہ تحصیلوں میں اسسٹنٹ کمشنرز براہ راست گندم خریداری عمل کی نگرانی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ضلع کی تین تحصیلوں میں 20گندم خریداری مراکز بنائے گئے ہیں اور ہر سنٹرز پر مقامی کمیٹیاں بھی تشکیل دی گئی ہیں۔ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر عبدالماجد خان نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ضلع میں گندم خریداری کا ہدف1لاکھ47ہزار56میٹرک ٹن ہے جس میں حکومتی ہدایات پر 33ہزار میٹرک ٹن اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے بعد ضلعی ہدف1لاکھ80ہزار میٹرک ٹن ہو جائے گا جس کے باعث تمام سنٹرز کے اہداف بھی ازسر نو مقرر کئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ضلع میں96فیصد باردانہ دستیاب ہے جس میں1لاکھ58ہزار105جیوٹ بیگ اور12لاکھ55ہزار955پی پی بیگ شامل ہیں۔ضلع میں14مستقل اور6فلیگ سنٹرز فنکشنل کر دیئے گئے ہیں ۔سنٹرز انچارج 500جبکہ ڈی ایف سی 1000بوری باردانہ چلت کرنے کا مجاز ہے۔انہوں نے بتایا کہ محکمہ خوراک کی جانب سے56سیڈ کمپنیوں کو مخصوص علاقوں میں مقررہ حد تک گندم خریدنے کی اجازت ہے مقررہ حدسے زائد گندم خریداری نہیں کرنے دی جائے گی اور اسی طرح فلور ملز بھی72گھنٹے کا سٹاک اپنی ملز میں رکھ سکتی ہیں جبکہ زائد ذخیرہ کرنے پر فوڈ سیفٹی کنٹرول ایکٹ1958اور فوڈ گرین لائسنسنگ کنٹرول آڈر1957کے تحت ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اجلاس میں اسسٹنٹ کمشنر رحیم یار خان چوہدری اعتزاز انجم اور مارکیٹ کمیٹی ،محکمہ زراعت کے نمائدنگان موجو دتھے جبکہ اسسٹنٹ کمشنر صادق آباد عامر افتخار اور اسسٹنٹ کمشنر لیاقت پور ارشد وٹو نے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں شرکت کی۔ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، صوبہ پنجاب میں محکمہ فوڈ کا گندم خریداری ٹارگٹ 4.5ملین میٹرک ٹن ہے. صوبے کے کچھ اضلاع اور کچھ تحصیلوں میں وفاقی محکمہ پاسکو کی خریداری اس کے علاوہ ہے. اس سال حکومت پاکستان نے ملک بھر میں 8.2ملین میٹرک ٹن گندم خریداری کا ہدف مقرر کیا ہے.
ضلع رحیم یار خان کی انتظامیہ نے گندم خریداری کے بروقت اور اچھے انتظامات کر رکھے.گندم کی صورت حال کچھ اس طرح ہے کہ گندم کے دوسرے اضلاع بہاول پور لودھراں راجن پور ڈیرہ غازی خان ملتان مظفر گڑھ وغیرہ کی طرح ضلع رحیم یار خان کے بہت سارے علاقوں میں بارشوں اور ژالہ باری کی وجہ سے گندم کی فصل تباہ ہو چکی ہے. متاثرہ کسانوں کی حالت قابل رحم ہے. انہیں ریلیف دینے کی ضرورت ہے.
دوسرا دریاؤں میں پانی کی زیادہ آمد کی وجہ سے بھونگ نواز آباد سے لیکر احسان پور رکن پور خابیلہ ترنڈہ محمد پناہ کچے کی دریائی پٹی میں گندم کا کافی نقصان ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے. کچھ گندم پانی میں ڈوب گئی ہے. کچھ گندم کو کسانوں نے کچا کچا کاٹ لیا ہے.گویا کچی کاٹی گئی گندم بھی نصف سے کم رہ جائے گی اور وہ بھی انسانوں کی بجائے جانوروں کو کھلانے کے قابل بچے گی. ان انفرادی اور علاقائی حالات کا گندم کی مجموعی پیداوار پر بھی بڑا اثر پڑے گا.
حکومت کی سختی کے باوجود اوپن مارکیٹ میں گندم 1600روپے من تک بک رہی ہے.گندم کی خریداری کے ہدف کو گذشتہ سال کی طرح پورا کرنا خاصا محنت طلب ہوگا. مذکورہ بالا حالات و حقائق کی روشنی میں حکومت کو چاہئیے کہ وہ کسانوں کو ایمرجنسی ریلیف ریٹ دینے کا اعلان کرتے ہوئے گندم کا ریٹ 1500روپے من کرنے کا اعلان کرے. حالات کے پیش نظر گندم خریداری ہدف میں مزید اضافہ کرے. حکومت صرف کسانوں کو رگڑا نہ لگائے.اضافی گندم اور آٹا حکومت خود برآمد کیا کرے.
ٹڈی دل کی تلفی اور خاتمے کے لیے ضلع راجن پور کی انتظامیہ کوشش میں لگی ہوئی ہے جبکہ ٹڈی دل کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبہ ہائے پنجاب، سندھ اور بلوچستان ایک ساتھ مل کر ٹڈی دل تلفی مہم چلائیں. تینوں صوبوں کے بارڈرز ایریا، اضلاع میں ٹڈی دل کے انڈے لاروے بچے موجود ہیں. جو چند دنوں بعد پر نکلنے پر اڑانیں بھر کر ملک بھر میں پھیل سکتے ہیں. وفاقی حکومت مکڑی کی تلفی کے لیے مربوط نیٹ ورک اور مشترکہ طریقہ کار اختیار کروائے.
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ