ایک عرصہ ہوا میں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے منسوب ایک قول پڑھا تھا جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ اگر انسان دن کے آغاز میں اللہ کے نام پر صدقہ کر دے تو اس دن اللہ پاک اسے ہر قسم کی بلاوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ میں غور کرتا رہا کہ دن کے آغاز میں کیا صدقہ کیا جاے ؟ پھر خیال آیا کہ صبح کی نماز کے بعد اپنے صحن میں پرندوں کے لیے دانہ ڈال دیا جاے تو بہت سویرے یہ کام ہو سکتا ہے۔
خیر میری بیوی نماز فجر کے فورا” بعد صحن کی ایک مقررہ جگہ پر باجرہ ڈال دیتی ہے اور پانی کا برتن بھر کے رکھ دیتی ہے۔ اس طرح ہمارے گھر میں چڑیاں۔بلبلیں۔لالیاں ۔خمریاں جمع ہونے لگیں کچھ نے ہمارے درختوں پر بسیرا بنا لیا ۔آجکل چونکہ لاک ڈاون ہے اس لیے مجھے ان چڑیوں کی عادتیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع مل گیا۔ برصغیر میں ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار سے زیادہ اقسام کے پرندے آباد تھے مگر ہمارے ظالم شکاریوں نے ان کو بے دریغ مارنا شروع کیا اور پیٹ کا ایندھن بنایا تو یہ ناپید ہونے لگے اور اب بہت کم رہ گیے ہیں۔
دوسرا شھروں کے اندر اور ارد گرد بہت تعداد میں درخت تھے جو پرندوں کی رہائیش اور افزائیش کے لیے ضروری ہیں مگر ہم نے یہ درخت کاٹ ڈالے اور ان پر سنگ و خشت کی کالونیاں بنا ڈالیں تو مجبورا” پرندے ہجرت کر گیے اور ہم کو یہ احساس تک نہیں ہوا کہ انسان کے ساتھ ھزاروں سال سے رہنے والی یہ مخلوق ہم سے جدا ہو گئی۔
ان چڑیوں کی سٹڈی کرنے سے مجھے حیرت انگیز معلومات حاصل ہوئیں۔ سب سے اہم بات جو سامنے آئی وہ پرندوں کی اللہ پر توکل ہے۔ یہ اپنا رزق ذخیرہ کر کے نہیں رکھتے انہیں پکا یقین ہے کہ کل کا رزق انہیں اللہ پاک ضرور دے گا۔ ان کے مقابلے میں ہم اپنے رزق کا بڑا ذخیرہ کر کے رکھتے ہیں پھر بھی خوفزدہ رہتے ہیں۔
ان وبا کے دنوں میں بھی ہمارا یہ حال ہے کہ اگر کوئی صاحب حیثیت آدمی محلے یا گاٶں کے نادار اور مفلس لوگوں کے لیے راشن تقسیم کرتا ہے تو میرے پاس وافر مقدار میں راشن ہونے کے باوجود اپنی جھولی پھیلا دیتا ہوں ۔ ایک اور چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ چڑیوں کا صبح تڑکے کے وقت جاگ جانا اور اللہ کی تسبیح بیان کرنا ہے۔
اللہ کی حمد و ثنا یہ چڑیاں کبھی نہیں بھولیں حتی کہ طوفانی بارش اور بجلیاں ان کے آشیان پر گر جائیں ۔درخت جڑ سے اکھڑ جائیں یہ صبح سویرے ٹوٹی شاخوں پر اللہ کی حمد میں مصروف ہو جاتیں ہیں۔ اس کے مقابلے میں بعض اوقات میں خود جب بیدار ہوتا ہوں تو سورج نکل چکا ہوتا ہے اور اس وقت فجر کی نماز ادا کرتا ہوں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان پرندوں کے دل میں حسد۔کینہ۔لالچ۔دشمنی جیسی کوئی علامت نہیں دیکھی مل جل کر رہتے ہیں اور اپنے کام میں مگن رہتے ہیں۔ انسان کے مقابلے میں یہ پرندے بڑی فطری زندگی گزارتے ہیں ۔
ایک خاص مقدار سے زیادہ خوراک نہیں کھاتے نہ ہی خوراک کو ہضم کرنے کے لیے انسانوں کی طرح چورن کھانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرندوں کے جسم بہت متوازن اور خوبصورت ہوتے ہیں جبکہ انسان زیادہ خوراک کھا کے موٹا اور بیمار پڑ جاتا ہے مگر باز نہیں آتا۔پرندوں کے لیے کوئی ہسپتال نہیں ہوتا صرف فطرت کے مقاصد کی تکمیل کر کے صحت مند اور خوشحال رہتے ہیں ۔
پرندے فطرت کے ایک نظام کے تحت وہی خوراک کھاتے ہیں جو ان کے لیے مقرر کر دی گئی ہے اور انسان کی طرح حرام حلال کو مکس نہیں کرتے۔ افزائیش نسل کے لیے بھی پرندے ایک ضابطے کے پابند ہیں جبکہ انسان نے اس میں کئی تبدیلیاں کر دی ہیں۔ ان چڑیوں کے رہنے کے لیے ہرے بھرے خوبصورت درخت اپنے بازو پھیلاے کھڑے رہتے ہیں اور پرندے جس شاخ پر چاہیں آشیانہ بنا کر رہنے لگتے ہیں نہ چڑیوں کو پلاٹ لینا پڑتا ہے نہ درخت کو کرایہ دینا پڑتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے ایک درخت کا دوسرے درخت سے کوئی ٹکراو نہیں جبکہ ایک انسان دوسرے انسان سے لڑتا ہے۔جس درخت سے جس پھل کی امید کی جاتی ہے وہ ہمیشہ اپنی شاخ پر وہی پھل دیتا ہے جبکہ انسان کا حال یہ ہے کہ اس سے جو امید کی جاے وہ اس پر پورا نہیں اترتا۔درخت اپنے دشمن کو بھی سایہ دیتا ہے اور اپنے دوست کو بھی۔
جبکہ انسان اپنے دوست کے لیے کچھ ثابت ہوتا ہے اور غیر دوست کے لیے کچھ۔ سمجھ نہیں آتی کہ انسان اس زمین پر اعلی ترین مخلوق ہےاور دوسری مخلوق سے برتر اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے مگر دوسری انواع سے پیچھے کیوں ہے؟
یہ کس قدر عجیب بات ہے۔ اس کی وجہ شاید انسان کو اللہ کی طرف سے دیا گیا اختیار ہے جس کو وہ ٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کرتا اگر اپنے اختیار کو اللہ کے حکم کے تابع استعمال کر ے تو ؎۔فرشتوں سے بڑھ کر ہے انسان بننا ۔مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر