نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک اور بلا ٹڈی دل کی نئی فوج تیار۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

روجھان ضلع راجن پور سے رحیم یار خان آنے میں کتنا ٹائم لے گی.پر نکلنے کی دیر ہے پھر ہر طرف ٹڈی دل کی آزادانہ پروازیں ہوں گی

وطن عزیز میں حکمران انتظامیہ اور عوام عالمی وباء کرونا وائرس کے ساتھ نبرد آزما ہیں.ہنوز گراف کم ہونے کی بجائے اوپر کی طرف گامزن ہے. جزوی لاک ڈاون کے معیشت اور عوام پر بد اثرات بھی بڑھتے ہوئے دکھائی دے رہی ہیں.

بارشوں اور ژالہ باری سے مختلف اضلاع میں بہت ساری جگہوں پر گندم اور دیگر فصلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے. جہاں جہاں فصلات تباہ ہوئی ہیں وہاں ابھی تک کسانوں کو ریلیف دینے بارے کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی شاید کرونا ہنگامی حالات کی وجہ سے حکومت کچھ نہ کر سکے یا ٹال دے.

محترم قارئین کرام،، حالات و واقعات بتا رہے کہ سال 2020ء آزمائشوں اور سخت امتحانوں کا سال بننے جا رہا ہے.اس سال ہونے والے برفباری اور دریائے چناب میں ابھی سے پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح سے اس سال سیلاب کے خطرے کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. ہماری فصلات کے لیے سیلاب سے ایک اور بڑا خطرہ مکڑی یعنی ٹڈی دل ہے.

جس نے سال2019میں بھی خاصا پریشان کیے رکھا ہے. گو کہ اس کے تدارک کے لیے حکومتی سطح پر کوششیں کی گئیں تھیں.تمام ترحکومتی کوششوں کے باوجود ٹڈی دل بلوچستان کے کچھ اضلاع کے علاوہ ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان اور ضلع رحیم یار خان کے چولستانی علاقے میں انڈے دے چکی تھی.ٹڈی دل کے خاتمے کی مہم کے دوران رحیم یار خان میں سپرے کرنے والا جیٹ جہاز نہ صرف گرا کر تباہ ہوا بلکہ ہمارے دو پائلٹ بھی اس حادثے میں شہید ہو گئے تھے. اس کے بعد مہم ٹھنڈی پڑ گئی تھی.

اب تازہ ترین اطلاعات اور صورت حال یہ ہے کہ بلوچستان کے علاوہ ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان سمیت بہت سارے علاقوں میں ٹڈی دل کی نئی فوج کروڑوں کی تعداد میں تیار ہو چکی ہے. جس نے اب دوسرے علاقوں کی طرف مارچ شروع کر دیا ہے. فصل خریف کی کاشت کا وقت بھی شروع ہوا چاہتا ہے. سب سے اہم ترین فصل کپاس ہے جو لاکھوں ایکڑ کاشت ہوتی ہے.ملک بھر میں کپاس کی کاشت کے فگر کروڑ سے اوپر چلے جاتے ہیں. صرف ضلع رحیم یار خان میں پانچ لاکھ ایکڑ کے قریب کپاس کی کاشت متوقع ہے.

مکڑی ٹڈی دل کی کروڑوں کی تعداد میں نئی فوج جے تیار ہو جانے کی خبر سے بلوچستان سندھ سرائیکستان پنجاب کے کسان پریشان ہو گئے ہیں. کیونکہ کسان ٹڈی دل کی تباہ کاریوں سے اچھی طرح واقف ہیں. ٹڈی دل کو تلف کرنے کے لیے اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے باہم مل کر ایک ساتھ کوئی مہم شروع نہ کی تو اس بات کا صرف خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ نئی کاشت ہونے والی خریف کی فصلیں ٹڈی دل کھا جائے گی.گذشہ سے پیوستہ روز ضلع رحیم یار خان کے سرحدی علاقے موضع شاہ والی انڈس یائی وے کراس کر کے ٹڈی دل کو ضلع رحیم یار، خان میں داخل ہوتے دیکھا گیا ہے.محکمہ زراعت پلانٹ پروٹیکشن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل کی افزائش نسل فروری سے جون تک ہوتی ہے اور اس کا علاقہ بلوچسران میں ہے.

جبکہ دوسرا جون سے ستمبر تک ہے اس کا علاقہ بدین سے لیکر راجن پور اور بہاول پور ڈویژن کے تینوں اضلاع پر پھیلا ہوا 66لاکھ ایکڑ پر پھیلا ہوا چولستان روہی ہے.صرف یہی نہیں بلکہ صوبہ سندھ کا صحرائی علاقہ تھر بھی اس کی افزائش گاہ کا حصہ ہے. کمشنر بہاول پور ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان سمیت دوسرے اضلاع کی ضلعی انتظامیہ کو چاہئیے کہ وہ چولستان میں ٹڈی دل کی افزائش کے حوالے سے ہنگامی سروے اور چینکنگ کروائیں. لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں فضا میں اڑتی ہوئی ٹڈی دل کا انتظار نہ کریں. کسان پریشان ہیں.

محترم قارئین کرام،، مذکورہ بالا حالات ایک بڑے خطرے کی گھنٹی ہے. اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور متعلقہ ذمہ دار ادارے اس بارے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں. فوری طور پر ٹڈی دل کے بچوں اور آنے والے دنوں انڈوں سے مزید پیدا ہونے والی ٹڈی دل کی فوج کے خلاف کیا ایکشن لیتے ہیں. اگر بروقت اور فوری ایکشن نہ لیا گیا تو ملک بھر میں غذائی قلت اور قحط کے خطرات کو رد نہیں کیا جا سکتا.

نہ صرف انسانوں کی خوراک کے مسائل پیش آئیں گے بلکہ مویشیوں کا چارہ بھی نایاب ہو جائے گا.وفاقی اور صوبائی حکومتیں مربوط و منظم سسٹم اپنا کر ٹڈی دل کی تلفی کو اس سٹیج پر ہی یقینی بنائیں. اگر یہ بڑی ہو کر لمبی پرواز کے قابل ہو گئی تو ناقابل کنٹرول ہو جائے گی.

ٹڈی دل کی افزائش نسل کا مرکز صوبہ سندھ، سرائیکستان پنجاب اور سندھ کے ملحقہ اضلاع ہیں. اس لیے سب کو ایک ساتھ مل کر ہی ایکشن لینا چاہئیے. وفاق اس بارے میں مشترکہ ٹڈی دل ٹاسک فورس تشکیل دے تاکہ اس کی تلفی اور خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے.پاکستان میں کسانوں کی نمائندہ اور سب سے بڑی تنظیم پاکستان کسان اتحاد کے ضلعی صدر ملک اللہ نواز مانک، ضلعی جنرل سیکرٹری جام فضل احمد گانگا اور طالبان کسان رہنما سید محمود الحق بخاری کا کہنا ہے کہ انتظامیہ ضلعوں کے چکروں سے اور حکمران صوبوں کے چکروں سے باہر نکل کر اس خطرناک بلا اور وبا کی روک تھاک اور تلفی کے لیے ہنگامی ایکشن لیں.

کہیں یہ وبا بھی اِس ضلع میں اُس ضلع یا دوسرے صوبے میں ہے کے چکر میں کرونا کی طرح پھیل نہ جائے.روجھان ضلع راجن پور سے رحیم یار خان آنے میں کتنا ٹائم لے گی.پر نکلنے کی دیر ہے پھر ہر طرف ٹڈی دل کی آزادانہ پروازیں ہوں گی.ہم نیچے سے بے بسی سے اسے دیکھنے پر مجبور ہوں گے. وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار. کہیں دیر نہ ہو جائےآر پار کی ضلعی انتظامیہ کو فوری طور پر وسائل اور فنڈز مہیا کریں.میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ تحصیل روجھان کے علاقے شاہ والی سے اخلاق احمد نے بتایا ہے کہ گذشتہ روز گندم کی ہارویسٹنگ کے دوران گندم کے دانوں میں بھی ٹڈی دل کے بچے شامل دیکھے گئے ہیں.حالات کی سنگینی کا اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے.

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اپنی گندم کو پاک صاف اور صحت مند کھانے کے قابل رکھنے کے لیے بھی گندم کی صفائی یا گریڈنگ کا خصوصی انتظام کرنا پڑے گا.اللہ معاف کرے بصورت دیگر قوم کو ٹڈی دل مکس گندم کھانی پڑے گی. اطلاعات یہی ہیں کہ بلوچستان کے علاقے دیرہ بگٹی سے لے کر ضلع راجن پور تحصیل روجھان کے علاقے شاہ والی تک کے وسیع ایریا میں مختلف جگہوں پر ٹڈی دل کی بڑی تعداد میں افزائش ہو چکی ہے .پاکستان کسان اتحاد کے ڈسٹرکٹ آرگنائزر اور ایک ذمہ دار لکھاری کی حیثیت سے میں نے معلوم حالات و حقائق سے سب کو آگاہ کر دیا ہے. آگے انتظامیہ اور حکمران جانیں اور ان کی مرضی
دریاوں میں پانی کی کمی پیشی کی صورت حال اور سیلاب کی کیفیت بارے اپڈیٹ کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے تاکہ مقامی آبادی اس کے مطابق اپنے آپ کو بروقت ایڈجسٹ کر سکے.

دریائی بیلٹ کے کسانوں کو چاہیئے کہ موسمی حالات اور پانی کی پوزیشن کے پیش نظر اپنی گندم کی فصل کو عام روایتی کٹائی کی بجائےمشینوں اور ہارویسٹرز کے ذریعے برداشت کرکے جتنا جلدی ہو سکے محفوظ کرنے کی کوشش کریں.

About The Author