عجیب سی پراسرار خاموشی ہے، لاک ڈاون یقیناً بہت ضروری تھا ، مذاہب و عقیدے بستیوں میں ہی ہوتے ہیں اور اگر بستیاں اپنے باسیوں کی لاپرواہی یا کج بحثوں کی ہٹ دھرمی سے اُجڑنے لگیں تو نقصان اجتماعی ہوتا ہے ۔
بطور خاص ہمیں دوباتیں سمجھنے کی ضرورت ہے
اولاً یہ کہ انسانی تاریخ کے ہردور میں سوال اور تحقیق دونوں قابلِ گردن زدنی رہے
ثانیاً یہ کہ قدیم و جدید آراء کے حامیوں کے درمیان مکالمے کا عمل جاری رہے تو آگے بڑھتے رہنے اور ترقی کرنے میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی
لیکن اگر بات بات پر ملا کھڑا شروع ہو اور نوبت گریبان شکنی تک جاپہنچے تو بھی ترقی تو ہوتی ہے مگر سست رفتاری سے کیونکہ زیادہ بلکہ اہم وقت ہم بے مقصد محاذ آرائیوں میں ضائع کرچکے ہوتے ہیں
بیڈ روم سے لائبریری اور یہاں سے بیڈ روم تک یہ معمول پچھلے سال بھر سے جاری ہے مگر اب چند دنوں سے یہی معمول کِھلنے لگا ہے
آدمی اپنی مرضی سے تنہائی اوڑھ لے تو اتنا محسوس نہیں ہوتا جتنا محسوس وہ اعلان کردہ پابندی میں کرتا حالانکہ یہ خود اس کے اور پیاروں کی حفاظت کا سامان ہوتا ہے
خیر چھوڑیں ان سب باتوں میں کیا رکھا ہے ، گلیوں محلوں اور بازاروں کی رونقیں ماند پڑ چکیں اِکا دُکا دکان کھلی ہے دوست آنہیں سکتے اور دوستوں کے پاس جایا نہیں جاسکتا
یوں لکھنے پڑھنے میں وقت بیت رہا ہے
کبھی کبھی سوال دستک دینے لگتے ہیں دوستوں سے محفل آباد ہوتی تھی تو سوال ان کے سامنے رکھ دیتا تھا تب ایک یا چند دوست کہہ اٹھتے تھے
” مذہب بیزار ہوتے جارہے ہو ”
حالانکہ میں تو فقط اتنا ہی عرض کرتا ہوں کہ مذاہب نے قصوں کہانیوں اور سابقین کے انکار کے ساتھ اپنے ہونے کو الہٰی فیصلہ بناکر پیش کرنے اور منوانے کے لیے جو کیا وہ تاریخ میں لکھا ہے ۔
جو لکھا ہے اس پر مکالمہ بند نہیں کیا جا سکتا نا اس سوال سے جان چھڑائی جاسکتی ہے کہ مذاہب کے نام پر اٹھائے گئے نظام کے جو گھٹالے ہماری تاریخ میں موجود ہیں ان پر غلاف کعبہ کی طرح کا غلاف کیوں چڑھا رکھا ہے یہ بھی کہ ان گھٹالوں کو عصری ضروریات کا بیانیہ کیسے بنایا جاسکتا ہے ؟
ہمارا سواداعظم خلافت راشدہ کو مثالی دور قرار دیتا ہے مگر دستیاب تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس مثالی دور کے پانچ میں چار خلفائے راشد قتل (شہید ) ہوئے (ویسے ایک روایت کے مطابق پانچویں خلیفہء راشد کے شہید ہونے کی بھی موجود ہے ) یہ کیسا مثالی نظام ہے جس نے اپنے ہی نگہبانوں (سربراہوں )کے خون کا لباس پہنا ہوا ہے ؟
جو نظام اپنے سربراہوں کی حفاظت نہ کرسکا ہو اسے پھر سے لائے جانے کو مسائل کا حل اور سہنری دور کی نشاط ثانیہ کیوں بتایا جارہا ہے ?
آخر تاریخ کے پورے سچ سے منہ موڑ کر جینے کی ضد کیسی
چلیں یہ موضوع یہیں چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں
طالبعلم کو عربی کے بے مثل شعراء میں سے ایک حضرت لبیدؓ یاد آئے فرماتے ہیں
” وہ لوگ رخصت ہوئے ۔ جن کے قرب میں ۔جینے کا لطف تھا ۔ میں اس گئی گزری کھیپ میں بچ رہا ہوں ۔ جو خارش شدہ اونٹ کی جلد کی مانند ہی ہے ۔ کہ جو پاس آئے مبتلائے اذیت ہو ”
سچ یہی ہے کہ جنونیت اور اندھی تقلید خارش زدہ اونٹ کی طرح ہیں ۔ اس سے لگی بیماریوں کا شکار لوگوں نے ہر سُو اٙت اٹھا رکھی ہے ۔
مکرر حضرت لبیدؓ سے رجوع کرتے ہیں
” ہم بوسیدہ ہو گئے ۔
مگر آسمان پر ابھرتے ستارے ۔ کبھی بوسیدہ نہیں ہوتے
اور ہمارے بعد گھر اور عمارتیں۔ جوں کی توں کھڑی رہ جاتی ہیں ۔
زمانہ اک نہ اک دن ہر انسان کا داغ دیکھا کر رہے گا ۔
اور انسان ہے ہی کیا ۔ بس جیسے ایک چمکتا ہوا شعلہ اور اس کی روشنی ۔
تب و تاب دیکھانے کے بعد بالآخر اسے راکھ میں ہی ڈھل جانا ہے ”
پتہ نہیں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں ۔ کچھ اور لکھنا چاہتا تھا کہ (استاد مکرم فضل ادیب مرحوم یاد آئے کہا تھا لوگوں کے ہاضمے کا امتحان واجب نہیں ہوتا)
مثلاً چار اٙور کے حالات اور ان میں ٹوٹتے بنتے فہموں بارے اور کچھ دوسرے سوالوں بارے جو زبان زد عام ہیں ۔
اس ضد بارے جو مصنوعی تقدس کی حفاظت میں کھانے کو دوڑتی ہے ۔
ہم سبھی آخر یہ بات سمجھنے پر کیوں تیار نہیں کہ ہم یا ہم سے پچھلی نسلیں کوئی بھی وقت پر کاٹھی ڈال کر سوار ہوا نا اسے روک پایا وقت جستجو تحقیق اور علم آگے بڑھتے ہیں یہی ابدی سچائی ہے ۔
زندہ رہنا بس اپنے سفر حیات کو ہی نہیں کہتے ۔
زندگی تو اُن کے حصے میں آتی ہے جو زندہ رہیں باقی تو سب راکھ ہوئے اور اس دھول کا حصہ جو بعد میں آنے والوں کے قدموں سے اُڑتی ہے
دنیا جن حالات سے گزررہی ہے ان سے گزر کر سنبھلے گی تو نئے جہاں آباد ہوں گے بوسیدہ عمارتیں ہی نہیں دوسروں کی تکفیر کے رزق سے پلتے نظریات کی جگہ نئے خیالات لیں گے
فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ اگر ان حالات سے بچ کر نئے دور میں داخل ہوئے تو کیا ضد اور انکار سے بھری خبط عظمت کے بت پوجتے رہیں گے
یا تازہ ہواوں اور خیالات کے لیے (کھڑکیا کھول کر) سماجی ارتقا میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے ؟
جو نظام اپنے سربراہوں کی حفاظت نہ کرسکا ہو اسے پھر سے لائے جانے کو مسائل کا حل اور سہنری دور کی نشاط ثانیہ کیوں بتایا جارہا ہے ?
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ