جب وزیراعظم عمران خان بے بسی کا اظہار کررہے تھے کہ اگر لاک ڈائون کر دیا تو ملک کے غریبوں کا کیا بنے گا اور ان کے پاس انہیں گھر بیٹھے مزدوروں کو دینے کے لیے پیسے نہیں تو میرے ذہن میں آرہا تھا کہ ابھی کچھ دن پہلے ہی خبریں آرہی تھیں کہ اپنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کروڑوں روپے ترقیاتی فنڈز دیے جارہے ہیں‘یہ بجٹ بھی اربوں میں بنتا ہے۔ بیس ارب روپے کا فنڈ تو نواز شریف نے اپنے دور میں اپنے داماد کیپٹن صفدر کو دیا تھا کہ اپنے علاقے میں پیسہ لگائو اور ہر ایم این اے کو قطار میں کھڑا کر کے پوچھو کہ اسے کتنے پیسے چاہئیں؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عوام کی بات ہوتی ہے تو اس وقت اچانک حکومتوں اور حکمرانوں کی جیبیں خالی کیوں نظر آنے لگتی ہیں؟ کیا پندرہ دن کے لیے بھی حکومت یہ انتظام نہیں کرسکتی کہ ہر مزدور کے گھر راشن پہنچا سکے یا انہیں پانچ دس ہزار دے سکے‘ کیونکہ لاک ڈائون پندرہ دن کے اندر اچھے نتائج دے سکتا ہے اور وائرس کی رفتار کم ہوجاتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ ایک طرف دکانیں بند ہیں‘ بازار بند ہیں‘ سکول‘ دفاتر بند ہیں تو پھر یہ دیہاڑی دار مزدور کہاں مزدوری کریں گے اور کون ان دنوں میں ان بے چاروں کو اپنے گھر کام کرانے لے جائے گا کیونکہ یہ بھی خطرات ہیں کہ کہیں وہ اپنے ساتھ وائرس نہ لے جائیں۔ مزدور تو زیادہ خطرے کا شکار ہیں کیونکہ کھاتے پیتے لوگوں نے تو خود کو گھروںکے اندر لاک کر لیا ہے‘ یہ بے چارے تو لاک ہونا بھی افورڈ نہیں کرسکتے۔ اگر باہر جاتے ہیں تو وائرس کا خطرہ ہے ‘ اگر گھر بیٹھتے ہیں تو بھوک کا خطرہ ہے۔ اس لیے وزیراعظم صاحب کاخیال ہے کہ اگر وہ باہر پھرتے رہیں تو چلیں بھوکے مرنے سے بچ جائیں گے‘ لیکن وہ ایک طرف لوگوں کو گھر بیٹھنے کی تلقین کررہے ہیں تو دوسری طرف لوگوں کو انہیں مزدوری دینے کی بات کررہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب کا غریبوں کیلئے احساس اچھی بات ہے لیکن ان کے پاس کوئی پلان کیوں نہیں؟ پیسہ نہ ہونا جواز نہیں بنایا جاسکتا‘ حکومت کے پاس تنخواہیں بڑھانے کیلئے بجٹ ہے‘ مراعات لینی ہوں تو پیسہ موجود ہے۔ پٹرول کی مد میں بھی خاصا پیسہ حکومتی خزانے میں بہت آرہا ہے ۔ ان اربوں روپوں میں سے بھی کچھ ارب روپے ان غریبوں کو دیے جاسکتے ہیں تاکہ وہ کم از کم پندرہ دن گھر بیٹھ کر کھا سکیں۔
احساس پروگرام کے پاس دو سو ارب روپے پڑے ہیں‘ وہاں سے بھی نکالے جاسکتے ہیں۔ یہ ریاست اور حکومت کا فرض ہے کہ ان حالات میں مزدوروں اور غریبوں تک پہنچے اور انہیں گھر بیٹھے راشن فراہمی کرے‘لیکن یہ واضح ہے کہ حکومت کے پاس اس وبا کو ہینڈل کرنے کی کوئی پالیسی نہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ ایک شکست خوردہ ذہن کے ساتھ اس وبا کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور حکومتی مشینری کو پوری قوت سے ایکٹو کرنے کی بجائے یہ سوچ لیا گیا کہ وزیراعظم کی دو تین تقریروں سے کام چل جائے گا‘ لوگ یقین کر لیں گے‘ وزیراعظم جو جواز اور دلیلیں دے رہے ہیں وہ مان لی جائیں گی۔وزیراعظم صاحب کو یہ یقین دلا دیا گیا ہے کہ ان کی باتوں پرلوگ اعتبار کرتے ہیں اور وہ لوگوں کو اپنی شخصیت‘ باتوں اور تقریروں سے charm کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس دفعہ معاملہ کرپشن‘ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے یا میڈیا پر پابندیوں کا نہیں ہے کہ ان کے حامی تالیاں بجائیں گے۔ اس باراپنے حامیوں کی زندگیاں بھی ان کے اپنے فیصلوں کی وجہ سے خطرے میں پڑ سکتی ہیں‘ لہٰذا وہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جو جواز پیش کیے جا رہے ہیں‘ بے جان ہیں۔ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے جوحکومت محض اپنی بے بسی اور غریبوں کا نام استعمال کر کے حل نہیں کرسکتی۔ یہ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی ایکشن کی ضرورت تھی‘ لیکن وہ ایکشن نہیں لیے گئے جو ان حالات میں ضروری تھے۔
ایک طرف وزیراعظم نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ان کے پاس پیسے نہیں ‘ دوسری طرف آپ ایک اور رویہ دیکھیں کہ جن سیٹھوں نے اربوں قوم کی جیب سے کمائے‘ وہ آج اسکے مزدوروں اور غریبوں کیلئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب تک میں نے کسی ایک شوگر مل مالک‘ آٹا ملز مالک‘ ٹیکسٹائل ملز مالک‘ بڑی بڑی ڈیزائن فیکٹریوں اور برانڈڈ سوٹ دکانوں کے مالکان‘ جن کا ایک سوٹ پندرہ ہزار میں بکتا ہے اور ہزاروں سوٹ ایک گھنٹے میں بک جاتے ہیں‘ کی طرف سے نہیں پڑھا کہ انہوں نے اعلان کیا ہو کہ وہ حکومت کو اس مشکل وقت میں چندہ دینے کو تیار ہیں کہ وہ ان غریب مزدوروں کیلئے فوراً بندوبست کرے۔
آپ ان بڑے کاروباریوں کو دیکھ لیں جنہوں نے اس قوم سے سرکلر ڈیبٹ کے نام پر اربوں روپے لیے اور اب بھی لے رہے ہیں۔ وہ کمپنی جوآج بھی روزانہ دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر ایل این جی ٹرمینل کے نام پر لے رہی ہے‘ جسے تیرہ ارب سرمایہ کاری پر دو سو ارب روپے کا منافع دیا جارہا ہے‘ وہ جنہیں گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا کر پیسے دیے جاتے ہیں ‘ وہ بھی آج آپ کو کہیں نظر نہیں آتے۔ جنہوں نے ابھی پچھلے دنوں چینی کی قیمتیں بڑھا کراربوں کمائے وہ بھی غائب ہیں۔ جنہوں نے آٹے کی قلت پیداکر کے مال بنایا وہ بھی غائب ہیں۔ الٹا یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ انسانی ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں ڈبل ٹرپل ہوگئی ہیں۔ دکانداروں کو پتہ چلا کہ ماسک کی ضرورت پڑ گئی ہے تو انہوں نے قیمتیں آسمان پر پہنچا دیں۔ امیر طبقات کہاں ہیں جو پورا سال اس قوم سے منافع کماتے ہیں؟ جب مزدوروں کو ضرورت ہے تو وہ غائب ہیں۔ عوام کی ضرورت ہمیں اس وقت ہوتی ہے جب ہم پروڈکٹ بیچ رہے ہوتے ہیں۔ جب بڑے بڑے برانڈز اپنی سیلز لگاتے ہیں‘ جہاں پر ایلیٹ کلاس کی خواتین ٹوٹ پڑتی ہیں‘ وہ بھی عوام سے لاتعلق ہیں۔ کیاان طبقات کا فرض نہیں بنتا کہ جو لوگ ان سے کم تر ہیں‘ ان کی طرح ذہین نہیں‘ لائف میں اس طرح پیسہ کمانے کے مواقع انہیں نہیں ملے‘ وہ پڑھ لکھ کر ان کی طرح طریقے نہیں سیکھ سکے کہ پیسہ کیسے کمانا اور مشکل وقت میں کیسے گھر بیٹھ کر اپنی جان بچانی ہے؟ کیا ان کی مدد انہیں اس وقت نہیں کرنی چاہیے؟ اگر خدانخواستہ یہ وبا پھیل گئی اور پورے معاشرے پر اثرات ہوئے تو یہ اربوں ان کے کس کام آئیں گے؟ یہ اربوں اس وقت ان کے کام آئیں گے جب یہ عوام زندہ رہیں گے۔ عوام بچ گئے تو ان کا منافع بھی بچ جائے گی۔
مشہور گلوکارہ میڈونا نے اپنا ویڈیو پیغام نشر کیا ہے کہ چلیں کورونا وائرس نے ایک کام کیا ہے کہ اب سب کو سبھی سے خطرہ ہے۔ وائرس امیر غریب کا فرق نہیں دیکھ رہا ۔ وائرس نے مساوات قائم کر دی ہے۔ اس بیماری سے جتنے غریب متاثر ہورہے ہیں اتنے ہی امیر لوگ بھی۔ایسی بیماری آگئی ہے جس سے غریب اور امیر دونوں کو خطرہ ہے۔ اگر امیر طبقات میڈونا کا یہ پیغام سمجھ سکیں تو اس میں بہت کچھ ہے۔ ان غریبوں اور مزدوروں کا خیال اگر حکومت گھر بٹھا کر رکھنے کو تیار نہیں تو آپ لوگ ہی آگے بڑھیں‘ کچھ اس معاشرے کو لوٹائیں جس سے آپ نے بہت کچھ کمایا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ امریکہ میں ایک ارب پتی نے اپنے اربوں روپے یہ کہہ کر چیرٹی میں دے دیے کہ اس نے یہ سارا پیسہ انہی عوام سے بنایا تھا۔ وہ اب عوام سے کمائے گئے اربوں روپے عوام کو لوٹا رہے ہیں۔ انہوں نے پیسہ اس لیے کمایا تھا کہ وہ دیکھنا چاہتے تھے‘ وہ کتنا پیسہ اپنی ذہانت سے کما سکتے ہیں۔ اب جبکہ اس نے خود پر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اتنے ارب کما سکتا ہے تو اب وقت آگیا ہے کہ وہ سب اربوں روپے واپس انہی عوام کو لوٹا دے۔ ہمارے اندر کوئی ایسا ارب پتی‘ کروڑ پتی جو اربوں نہیں‘ کروڑوں نہیں چلیں لاکھوں روپے ہی اس عوام کو اس مشکل گھڑی میں لوٹا دے جو اس نے انہی عوام سے کمائے تھے جو اس وقت مشکل میں ہیں اور اس مزدور کو اپنے بچوں کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال کر باہر نکلنا ہے؟ وہ مزدور جسے وائرس اور بھوک میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہے۔آپ لوگوں کی مدد اس وقت ان مزدوروں کو انتخاب کرنے میں آسانی پیدا کرسکتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ