زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں
یہ چکبست نرائن کا شعر ہے۔کورونا نے زندگی کی ترتیب پریشاں کر دی ہے۔موت کی دہشت ہے اور کوئی صورت نظر نہیں آتی! فیض نے کہا:
کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا
بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی
فیشن کے درالخلافہ ، میلان میں لاشے بکھرے تھے، لاشیں اٹھانے والے نہ تھے ۔مین ہیٹن پر موت منڈلاتی ہے، دنیا کے معاشی درالخلافہ ، نیویارک کا میئر، ڈی بلاسیو کہتا ہے کہ دس دن بعد دواوں اور وینٹی لیٹرز کا بحران ہو سکتا ہے۔پوپ، انسانوں کے پاپ دھونے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔مزاروں اور معبدوں کو بلانے والے یاتریوں کو بلاتے نہیں، ڈراتے ہیں۔دنیا خوف اور حزن کی لپیٹ میں ہے۔ رام کے پجاری، گئو متر کو آبِ حیات کرتے ہیں۔چِین، کورونا پر قابو پانے کے باوجودچَین سے نہیں ہے۔ایٹمی اسلحے سے مسلح قہرمان ممالک کرونا کے minusculeوائرس کی دہشت کے سامنے تھر تھر کانپتے ہیں۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد ٹی ایس ایلیٹ نے ” The Wasteland”1921 لکھی تھی۔جو اس طرح شروع ہوتی ہے:
"April is the cruellest month, breeding Lilacs out of the dead land,……..”
بہار میں سارے حساب کھلتے ہیں۔ یادوں کے پھول کھلتے ہیں۔غالب نے ایلیٹ سے بہت پہلے کہا تھا :
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی پنہاں ہو گئیں
میرے گذشتہ کالم” کرونا کا قہر اور شہریوں کی آواز” پر ایک عالم دوست خالد خاں نے کمنٹ کیا جس پر نظر ڈالنا آج کی صورتِ حال کے ادراک کو ضروری ہے :”
کرونا کی بیماری اور اسکا پوری دنیا میں پھیلنا اور انسانوں کو بے بس کرتا ہے اور ایک اہم نقطے پر غور کی ضرورت ہے۔ غالب کا ایک شعر ہے:
نظر میں ہے ہماری جادئہ راہِ فنا غالِب
کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا
فناکے راستہ ِکو لے جا نے والی پگڈنڈی ہروقت ہماری نظر میںہے۔ کیوں کہ یہ رستہ وہ دھاگہ ہے جو فنا ہونے والی ہربکھری ہوئی چیز کو باندھ کر دوبارہ ایک کرتا ہے۔ یعنی موت کا عمل ہر چیز کو دوبارہ کائنات کے کل کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔ہم انسان موت سے بچ نہیں سکتے۔انسان کی موت کے عمل کو خوبصورت اور قابل برداشت کرنے سعی کرتا رہا ہے۔ دنیا بھر کے مذاہب موت کو زندگی کی ایک کڑی مانتے ہیں۔ یعنی آگے چلیں گے دم لے کر۔ مگر کرونا کی بیماری نے موت کے عمل کو بھیانک اور بدصورت بنا دیا ھے۔ سوچیے کیا ہم میں سے کوئی کرونا سے مرنے والے شخص کی نماز جنازہ میں شرکت کرے گا؟ کرونا سے اگر اجتماعی اموات شروع ہو جاتی ہیں تو انسانوں کو کتوں کی طرح اجتماعی طور پر گڑھوں میں اتار دیا جائے گا۔ میلان میں ایسا ہوا ہے۔ کرونا کے بعد شاید دنیاکی منتقم مزاح قومیں اپنے وسائل انسانوں کوقتل کرنے کے ہتھیار بنانے اور خریدنے کے بجائے زندگی کا خاتمہ کرنے والی قاتل بیماریوں کے خاتمے کے لئے استعمال کرنے لگیں؟
چند سال پہلے آپ کے ایک کالم کے جواب میں میں نے لکھا تھا۔ وہ تحریر آج کی صورت حال سے متعلق ہے۔شیئر کرتا ہوں!!
اس زمین پر انسانی زندگی کی بقا کوپہلے ہی قدرتی آفات سے خطرات لاحق ہیں بیماریاں، زلزلے، سیلاب، سمندر میں پانی کی سطح کا بلند ہونا، کسی شہاب ثاقت کا زمیں سے ٹکرانا، پودوں اور جانوروں کے قاتل جرثومے، زمین کا بے پناہ گرم اور سرد ہونا زمین پر موجود زندگی کو مستقل موت میں تبدیل کر سکتا ہے!زمین ساری قوموں اور انسانوں کی مشترکہ میراث ہے۔ ہوائوں، سورج کی روشنی اور موسموں کو زمین کے ایک کونے تک مقید نہیں کیا جا سکتا ہے قدرتی آفات کے اثرات بھی پوری دنیا اور تمام اقوام عالم کا متاثر کرتے ہیں۔تنوع کائنات کا حسن ہی نہیں بلکہ اس کائنات کے قدرتی توازن کو برقرار رکھنے کی ضمانت ہے۔ کالے گورے ، بھورے اور پیلے انسان ایک دوسرے کو بچا کر ہی اپنے وجود اور اپنی نوع کو قائم رکھ سکتے ہیں کسی ایک نسل کو ختم کرنا زندگی کی مستقل موت کے امکان میں اضافہ کرنا ہے۔ ترقی یافتہ سماج کو انکا یہ خاض علم بتاتا ہے کہ زندگی ایک خلیے سے ارتقائی مدارج طے کرتی ہوئی مختلف ا نواع کی شکل میں اس زمین پر موجود ہے۔ انسان اس زندگی کی ذہین اور اعلی ترین مخلوق ہے۔ زندگی کی ہر شکل کی حفاظت اسی ذہین مخلوق کی اولین ذمہ داری ہے اور اس کے لئے اسے تمام انسانی نسلوں، انکی زبانوں اور انکے خاض جینیٹک میک اپ کو بچانے کی کوشش کرنی ہے۔تاکہ زندگی کو ناپید ہونے سے بچایا جاسکے!انسانوں کو جوڑنے اور انکے تضادات کو مثبت سمت دینے والا یہ علم زندگی کی پیچیدگی کو سمجھنے اسے آگے بڑھانے میں مصروف ہے۔قصے کہانیاں اور گمانوں پر مبنی روایات انسانوں کو تقسیم کرکے ان کی حیوانی جبلتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہیں قتل وغارت گری پر اکساتے ہیں انہیں محکوم اور غلام بناتے ہیں۔ معاشرے میں انسانوں کو طبقات اوردرجوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ اجارے داریوں اور مستقل خاندانی حکمرانی کی ترویج کرتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان اوراس طرح کے دوسرے پس ماندہ سماج ایسے لوگوں کے نرغے میں ہیں۔ پاکستان کے سینکڑوں اعلی تعلیمی ادارے اور اس سے فارغ ہونے والوں نے پاکستان کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا ہے اور مسائل کی بڑھوتری کا یہ عمل جاری ہے”۔تباہی کے دہانے پر کھڑی دنیا کو ایسی بالغ نظری درکار ہے!
سوشل میڈیا کورونا کے بارے میں کچی پکی معلومات سے بھرا ہوا ہے۔لیکن اس اندوہ ناک صورتِ حال میں شعر و نغمہ کا اثر cathartic اور اندمالی ہے اور اپنے پیاروں، دیس پردیس کے دوستوں، بچوں اور بوڑھوں کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے:
ساری دنیا کے مریضوں کو شفا ہو یا رب
آج معلوم ہوا ہے کہ علالت کیا ہے
اور ” برگد”کی خالق ، صدف مرزا کی پوسٹ پر رضا علی عابدی نے کمنٹ کیا:
کہا اس شوخ نے مرتا ہے مومن
کہا ہم کیا کریں، مرضی خدا کی
یارِمن ابرار احمدایسا شاعر ہے جو مسیحائی کرتا ہے کہ وہ ڈاکٹر ہے۔ اس کا کام مرنے والوں کو زندگی دینا ہے اور اعلی درجے کی شاعری بھی یہی کرتی ہے!کورونا سے بچاو کے لئے ڈاکٹر ابرارآزمودہ تجاویز دی ہیں:
1۔ گھر سے باہر جانا ترک کر دیں ، ضروری ہو تو دوسروں سے 8 فٹ فاصلہ رکھیں
2۔ واپس گھر آ کر کپڑے تبدیل کریں، لانڈری میں ڈالیں اور 20 سیکنڈ ہاتھ صابن سے دھوئیں
3۔ دن میں بار بار نیم گرم پانی ،چائے اور کافی پیئیں۔حلق کو تر رکھیں
4۔ نمک والے پانی کی بھاپ لیں اور غرارے کریں
5۔ گلے کی خراش ، بخار یا خشک کھانسی ہو تو خود کو الگ کر لیں اور14دن تک آرام کریں ۔ دوسروں سے دور رہیں، اچھی خوراک کھائیں ۔
6۔ اس دوران ٹھیک ہو جائیں تو بھی فاصلہ رکھیں لیکن تسلی رکھیں کہ آپ کو وائرس نہیں ہے۔
7۔ ہاتھ ہرگز نہ ملائیں اور کرنسی نوٹ پکڑنے کے بعد چہرے کو نہ چھوئیں اور نوٹ کسی کاغذ میں لپیٹ کر رکھ دیں اور 24 سے 48 گھنٹے بعد استعمال کریں
8۔ سردرد وغیرہ کے لئے صرف پیرا سیٹامول استعمال کریں۔ ابوپروفن ibuprofen استعمال نہ کریں
9۔ نوجوان بالعموم غیر محتاط ہوتے ہیں وہ یاد رکھیں کہ ان کی لاپرواہی سے ان کے والدین زندگی ہار سکتے ہیں
10۔ وائرس کے airborne ہونے کی بھی خبر ہے۔ جگہیں جہاں وائرس کی موجودگی کا امکان ہو وہاں ماسک استعمال کریں ۔ زکام کی صورت میں ماسک کا استعمال ضروری ہے۔ماسک کی باہری سطح کو نہ چھوئیں اور دوبارہ استعمال نہ کریں۔
سب کا بھلا سب کی خیر”
ڈاکٹر ابرار احمد ایک بڑا شاعر ہے۔ اس کی ایک خوب صورت نظم مسیحائی لئے ہوئے ہے ۔نظم کا آخری حصہ دیکھئے:
تم اپنے آپ میں رہو
کہ ہر طرف چلے چلو
وہ راستے نہیں رہے
وہ قربتیں نہیں رہیں
یہ ایسے سلسلوں سے ماورا
مقام ہے کوئی
کہیں پہ کھو گیا ہوں میں
کہیں کو جا چکے ہو تم
میں خاک کا نشان ہوں
کہ ہر طرف سے
پھیلتی ہوئی خموشیوں میں
ڈوبتی صدا کوئی۔۔۔
ادھر کا رخ کرو
تو کوء قہقہہ تو بھیجنا !
کل صبح لاہور کے کچھ علاقوں میں پھرتا رہا۔شہر چپ تھا۔جہاں یوگا کلاس ہوتی تھی وہاں سبزہ اور پھول تھے، دیکھنے والے نہ تھے۔ قہقہے نہ تھے۔وہ لاہور، جس کی پہچان ،ظفر اقبال، ابرار احمد،مستنصر حسین تارڑ اور امجد اسلام امجد ہیں۔دکھی ہے، اداس ہے۔حکومت کے حکم اور کورونا کی دہشت سے بند ہے۔واپسی پر دل غم سے بھرا تھا کہ داتا کا شہر تو وسیب کی طرح اداس نہ تھا!گاڑی میں پلے ہوتی نصرت فتح علی خان کی قوالی اداسی کی زباں بن گئی تھی:
دکھ رج رج داتا نوں سنائیے
میلے نے وچھڑ جانا!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ