آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے وائرس کا خوف اور ہئیبت اس قدر ہے کہ دنیا شٹ ڈاون کی حالت میں ہے. عوام اور حکومتیں پریشان ہیں.ابتک کسی کے پاس کوئی مستند علاج نہیں. نفسا نفسی کی کیفیت ہے.سانئس، علم و نظریات، مذہبی و دینی حوالے سے مختلف قسم کی باتیں کی اور دہرائی جا رہی ہیں.عبرت، فکر، احتیاط، تدابیر، سنجیدگی و غیر سنجیدگی سمیت بہت کچھ دیکھا اور سنا جا رہا ہے.لیکن یہ بھی ایک حقیقت اور قانون قدرت ہے کہ جب انسان غافل اور گمراہ ہو جاتا ہے.گھمنڈ اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے تو رب کائنات فرماتا ہے کہ
ُ ُ اور تمھارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ ساری بات تو نوعِ بشر کے لیے ایک یاد دہانی کرانے والی نصیحت ہے، اور بس. ٗ ٗ ٗالقران، سورۃ المدثر31
محترم قارئین کرام،،میں کوئی عالم فاضل نہیں ہوں. نہ ہی میرا آج کی اس تحریر کا مقصد علم، نظریات اور عقائد کو زیر بحث لانا ہے. بات مختصر سی ہے رب نے بشر کو بڑا علم حکمت دانش عطا کی ہے سانئسی کمالات کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.لیکن حقیقت ہے کہ اللہ کے علم حکمت اور طاقت کے مقابلے میں سب کچھ حقیر ہے. سانئس دان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے سے کسی بھی مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتا ہو. حقیقت کو پانے کی فکر تلاش جستجو ہی اسے تخلیقات اور ایجادات کی دنیا میں لے جاتی ہے.کوئی مانے یا نہ مانے اللہ ہی سب سے بڑا، طاقت والا، حکمت والا ہے. اگر آج ہم کسی مشین اور سانئسی آلے کو بنانے والے کسی سانئس دان کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں، دوائیوں کو فارمیسی اور ڈاکٹرز کے کہنے پر استعمال کرتے ہیں اور بہتر و مثبت رزلٹ کے لیے ضروری بھی سمجھتے ہیں.تو پھر کیا انسان کو بنانے والے خدا کے کہنے اور اس کی ہدایات کی روشنی میں انسانوں کا زندگی گزارنا ضروری نہیں ہے. کیا یہ غفلت گمراہی یا غیر ذمہ داری نہیں ہے.خیر چھوڑیں یہ بڑا باریک اور گہرا موضوع ہے. ہم واپس کرونا وائرس وباء کے حوالے سے اپنے معاشرے کے انفرادی، اجتماعی اور قومی سوچ و شعور، علم و آگہی اور کچھ غلط فہمیوں اور مغالطعوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں.تاکہ ہم سب لوگ اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے معاشرے کے لیے بہتری والے راستے پر یکسوئی سے چل کر اپنے آپ کو بچا سکیں
ہمارے دوست اور بھائی پاکستان علماء مشائخ کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ حسین احمد سعیدی کی کچھ باتیں من و عن آپ کے ساتھ شیئر کررہا ہوں ان کا کہنا ہے کہ
شعور و آ گاہی کرونا فری پاکستان مھم عوام الناس کے نام ضروری پیغام جو لوگ کہتے ہیں . 1.مصافحہ سنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، بلکہ یہاں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، ثقیف کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملا بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ سامنا ہی کیا۔
گویا ایسے موقعے پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔
. 2.جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،
رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو،جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کے بھاگتے ہو،
گویا ایسے موقعے پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔
. 3.جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ غلط کہتے ہیں،
سرکار کا فرمان ہے، اونٹ کا گھٹنہ باندھو اور پھر توکل کرو۔
گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔
. 4.جو لوگ کہتے ہیں، کچھ ہو گیا تو ہمیں پھانسی دے دیں، ہمارا ایمان قوی ہے، وہ غلط کہتے ہیں،
کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر سے زیادہ نہیں ۔
محترم قارئین کرام،، کرونا وباء و بیماری ہے، آزمائش و عذاب الہی ہے یا دنیا کی حرص و ہوس کا شکار عالمی طاقتوں کی جانب سے پھیلائی گئی حیاتیاتی جنگ ہے. بہرحال ہمیں ہر حال میں احتیاط و تدابیر، علاج، اپنے رب کی مدد اور پناہ کی ضرورت ہے. سماجی و معاشی اور حیایتاتی جنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ہمیں وقت کے حکمرانوں اور حکومت کا ساتھ دینا ہوگا. کرونا سے بچاؤ کی خاطر جاری کیے جانے والے الرٹس، ہدایات وغیرہ پر دیانتداری سے عمل کرنا ہوگا. اسی میں ہی ہم سب کی بھلائی ہے.اپنے عوام اور معاشرے کے بغیر تنہا حکمران اور حکومتیں کچھ نہیں کر سکتیں. ہر شخص کو احساس کرنا ہو گا. مجھے فخر ہے کہ وطن عزیز کا سرائیکی شاعر دیگر طبقات کی طرح زندگی کی اس آزمائش، اہم مرحلے اور موڑ میں اپنےعلم و شعور کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہا ہے.
کرونا وباء ھے اینکوں وباء جانڑو
کر حفاظتی تدابیراں بھجا جانڑو
شاعر پھر کہتا ہے کہ
کرونا حیاتیاتی جنگ ھے
جنگ دا دفاع ضروری ھے
جے کرونا وباء ھے گانگا
وباء توں پناہ ضروری ھے
حکومتی شٹ ڈاون اور سیلف آئسولیشن کی حمائت میں کہتا ہے کہ
تنہا رہنا بھی سیکھ لے
آخر تنہا ہی تو جانا ھے
مختلف زاویوں سے کرونا وائرس پر کی گئی شاعری ایک علیحدہ اور لمبا ٹاپک ہے.میرا خیال ہے کہ اس پر علیحدہ سے ہی بات کریں گے.یہاں اتنا عرض کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہمارے سرائیکی وسیب کا شاعر بھی کرونا بچاؤ آگاہی قومی مہم میں قوم کے شانہ بشانہ ہے. خطرے سے خبردار کرتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ یاد رکھنا
بلائیں وی امدین تے وبائیں وی امدین
کوتاہیں دیاں آخر سزائیں وی امدین
وطن عزیز میں کرونا کے حوالے سے کیے جانے والے حفاظتی انتظامات اور مستقبل کے اقدامات کے حوالے سےخطہ سرائیکستان حکومت کی زیادہ توجہ کا مستحق اور حقدار ہے. اپنے وطن کے درمیانی و وسطی محل وقوع کے علاوہ یہ نقاط بھی قابل غور ہیں. کرونا کے بڑے اور زیادہ سنٹرز سرائیکی خطے میں بنائے گئے ہیں. یہاں طبی سہولیات اور لٹریسی ریٹ بھی کم ہے.سرائیکی وسیب کے لاکھوں مزدور لوگ شٹ ڈاون کے بعد کراچی سے واپس بغیر سکریننگ اپنے اپنے گھروں کو واپس آ گئے ہیں. ان دیہاڑی داروں کی سکریننگ اور روزگار کا اہتمام ضروری ہے. ماسیوں کے نام سے گھروں میں کام کرنے والی نوکرانیوں کا علاج مالکان اپنے اپنے ذمہ لے کر اس خیر کار کے کام میں آگے بڑھیں اور حکومت کی معاونت کریں.بصورت دیگر مستقبل میں وہ اپنے گھروں کو ہرگز محفوظ نہ سمجھیں. یاد رکھیں پھیل جانے یا پھیلائی جانے والی اس وبا کے خلاف ہم سب کو اگلے تین چار مہینے تک مکمل احتیاط اور حفاظتی تدابیر اختیار کرنی ہیں. لوگوں کو سکریننگ اور علاج کے عمل سے گزرنا اور گزارنا ہے .تب جا کر چھٹکارا نصیب ہو گا.جو لوگ متاثر ممالک اور وطن عزیز کے متاثرہ علاقوں سے واپس اپنے اپنے شہروں دیہاتوں گھروں میں آئے ہیں یا آ رہے ہیں خدارا اپنی سکریننگ ضرور کروائیں. کچھ دن سیلف آئس لیشن بھی ضروت کریں اسی میں ہی ان کی ان کے گھر والوں رشتے داروں وسیب واسیوں اور ہم سب کی خیر و بھلائی ہے. اس عمل کو برا ہرگز نہ سمجھیں بلکہ یہ عظیم نیکی ہے اسے ضرور کر گزریں. جزاک اللہ. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر، محافظ و نگہبان
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ