کورونا وائرس سے یوں تو دنیا کے 172 سے زائد ممالک متاثر ہوئے لیکن چین‘ اٹلی اور ایران اس کے بڑے متاثرین میں شامل ہیں۔
ایران میں کورونا سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد لگ بھگ1800 ہے۔ ایرانی وزارت صحت کے مطابق اس وقت ملک میں 20ہزار کے قریب کورونا متاثرین ہیں۔
ہر دس منٹ میں اس مرض سے ایک شہری جاں بحق ہورہا ہے۔
ادویات اور حفاظتی سامان کی کمی صورتحال کو گمبھیر بنا رہی ہے۔
جمعہ کو ایرانی صدر حسن روحانی نے وزیراعظم پاکستان کے نام اپنے خط میں کورونا سے پیدا شدہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے امداد اور تعاون کی اپیل کی۔
جمعہ کی سہ پہر ہی وزیراعظم نے اپنی پریس بریفنگ کے دوران زور دے کر کہا کہ دنیا اور خصوصاً امریکہ کو سمجھنا ہوگا کہ ایران کورونا کے باعث مشکل ترین صورتحال سے دوچار ہے۔
کورونا متاثرین کے علاج اور معمول کی زندگی کی بحالی کےلئے ایران پر سے پابندیاں اُٹھائی جائیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی ہم منصب کے ٹیلیفون کے بعد زور دے کر کہا کہ اگر دنیا نے ایران کی صورتحال کا ادراک نہ کیا تو اموات کی شرح بڑھ سکتی ہے۔
دو تین دن قبل پابندیاں اُٹھائے جانے کی اپیل کرتے ہوئے ایران کا کہنا تھا کہ طبی ماہرین کےلئے ضروری حفاظتی سامان اور علاج معالجے میں معاون اشیاءکی کمی ہے جس سے بحران جیسی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
امریکیوں نے تواس اپیل کاجواب شقاوت قلبی کے روایتی مظاہرے سے دیا، خود صدر ٹرمپ بولے کہ ایران سے پابندیاں نہیں اُٹھائی جائیں گی، اس بیان کے ایک دن بعد امریکہ نے ایران سے تیل خریدنے اور اسے مختلف سامان فراہم کرنے والی پانچ کمپنیوں پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کردی کہ یہ کمپنیاں ایران کو ایسے آلات اور سامان بھی فراہم کر رہی تھیں جو اس کے میزائل پروگرام میں معاون ہے۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران چین‘ فرانس‘ پاکستان‘ جرمنی‘ ترکی‘ قطر ‘ آذربائیجان‘ روس اور جاپان کے علاوہ صحت کے عالمی ادارے نے نہ صرف ایران کو کورونا پر قابو پانے کےلئے امداد فراہم کی بلکہ پابندیوں کے خاتمہ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پابندیاں سلامتی کو نسل کی قرار داد کے منافی ہیں۔
روس اور چین کا موقف ہے کہ امریکہ محض عالمی تھانیداری کے جنون میں ایران کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر رہا ہے‘
ادویات‘ غذا اور کورونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی عملے کو حفاظتی سامان کی فراہمی میں مزید تاخیر سے انسانی المیہ جنم لے گا۔
امریکہ کی اس یکطرفہ پابندیوں کی حمایت میں ابھی تک کسی نے حمایت نہیں کی ماسوائے چند دیسی اور ولایتی ملحدین کے جو اس صورتحال میں بھی مذہبی پاپائیت کا چورن فروخت کرنے میں پیش پیش ہیں۔
اپنے الحاد میں شہرت رکھنے والے ایک پاکستانی ملحد دانشور نے گزشتہ روز لکھے گئے اپنے مضمون میں ایران کے داخلی امور کے حوالے سے ایسے ایسے انکشاف کئے جو دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ اور اس کے خفیہ اداروں کے علم میں بھی نہیں تھے۔
ہمزاد فقیر راحموں نے تو باقاعدہ صدر ٹرمپ کو خط لکھ کرتجویز دی ہے کہ اگر وہ ہمارے اس دیسی ملحد کو سی آئی اے کا سربراہ بنا لیں یاکم ازکم خطے (ایشیائ) کا چیف ہی بنا دیں تو وہ ایک تازہ دم لشکر کے ہمراہ فکری جنگ کے میدان میں کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں۔
ہمارے یہاں کھمبیوں کی طرح اُگ آئے یہ دیسی ملحد ہیں بڑے دلچسپ، یہ صرف اسلام پر ہی حملہ آور ہوتے ہیں دیگر مذاہب کی پاپائیت انہیں دکھائی نہیں دیتی یا پھر کچھ ذاتی کج اور رنج ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے اس موسم میں دیسی ملحدین کی اکثریت بھی امریکہ کے ہمنوا ہیں وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایران کو ایک ماسک‘ ایک ٹیسٹنگ کٹ اور ایک پینا ڈول تک نہیں ملنی چاہئے۔
ملحدین کا دعویٰ یہی رہا ہے کہ مذاہب سے آزاد دنیا ترقی کا سفر کرسکتی ہے اور انسانیت ہر چیز پر مقدم ہے لیکن کورونا وائرس سے بدترین صورتحال کاشکار ایران کے معاملے میں ان دیسی ملحدوں کی انسانیت پرستی تیل لینے چلی گئی۔
دنیا میں یا آپ ایرانی قیادت ان کے نظریات طرزحکومت سے اختلاف کاحق رکھتے ہیں، ہمارے یہاں ملائیت بیزار لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے، یہ بیزاری ملائیت کا اسلام کے نام پر ایک قسم کی مذہبی سامراجیت قائم کرنے کے جنون کی وجہ سے ہے
مگر کیا یہ اختلاف ہم سب کو یہ حق دیتا ہے کہ ایک ایسے مسئلہ پر بھی اپنی فہم کے کوڑے لےکر چڑھ دوڑیں جس کے بارے میں جانتے ہوں کہ اگر اقوام عالم اور بالخصوص دنیا کا صوبیدار میجر بنے امریکہ نے حالات کی سنگینی کو محسوس نا کیا تو ایران میں کورونا وائرس اٹلی سے بھی بدترین حالات پیدا کرسکتا ہے۔
جمعہ کو ایران میں کورونا سے 149 افراد جاں بحق ہوئے۔ 172 سے زائد ممالک میں اس وقت 2لاکھ ‘ 45ہزار 6 سو 51مریض ہیں صرف کل 20 مارچ کو اس وبا سے 1043افراد دنیا میں جاں بحق ہوئے۔
ایسے نازک وقت میں جب دنیا ایک دوسرے کی مدد میں پیش پیش ہے امریکہ کا ادویات‘ خوراک اور کورونا سے تحفظ کے حفاظتی سامان کے حوالے سے ایران سے پابندیاں نہ ہٹانا دادا گیری کے سوا کچھ نہیں۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ سوال بجا طور پر درست ہے کہ جیسی پابندیاں ایران پر عائد ہیں ان کے ہوتے ہوئے وہ کیسے کورونا وائرس سے اپنے شہریوں کو عالمی معیار کے مطابق محفوظ رکھ پائے گا۔
اصولی طورپر ہمیں یا کسی کو اس خوفناک وبا سے نبرد آزما ممالک سے نظام حکومت یا نظریات پر سیاست کرنے کی بجائے مسئلہ کو انسانیت کے مفادات کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ کیا اگر پابندیاں ختم نہیں ہوتیں، دنیا امریکہ کے ڈر سے ایران کو امداد نہیں دیتی اور کورونا وائرس سے ایران میں اٹلی سے بھی بدتر حالات پیدا ہو جاتے ہیں تو کیا اس طور ملا بیزاروں اور دیسی ملحدوں کے کلیجے ٹھنڈے ہو جائیں گے؟
میری دانست میں انسانی المیوں اور وبا سے پیدا شدہ صورتحال پر انسانیت کی خدمت افضل ہے الحاد وملا بیزاری کا گلی ڈنڈا کھیلنے سے۔
ایرانی قیادت نے حکومت پاکستان کےساتھ پاکستان کی سیاسی قیادت میں سے سابق صدر آصف علی زرداری‘ پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو‘ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے نام بھی خطوط میں یہی کہا ہے کہ وہ موجودہ حالات میں ایران کو ریلیف دلوانے کےلئے اپنا کردار ادا کریں
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ