بڑی عجیب صورتحال ہے ۔ پاکستان میں کورونا ایران سعودی عرب دبئی برطانیہ اسپین اور دیگر یورپی ملکوں کے راستے تشریف لایا مگر سودا شیعہ کرونا اور سعودی کورونا کے نام پر بیچنے والوں نے فرقہ پرستی کا گھڑمس برپا کر رکھا ہے
عقل کے اندھے یہ سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ ” وبا کے موسم ” کا مذہب و عقیدے سے تعلق ہوتا ہے ناہی مذاہب و عقیدوں کے پاس وباوں کا علاج ہے ۔
آسمانوں پہ بیٹھا خدا ہو یا مذاہب کی مقدس کتابیں دونوں کا نام لے کر مذہبی تاجروں کا دھندہ تو چلتا ہے لیکن انسانیت خدمت تحقیق و جستجو اور نتائج سے ہی ہوتی آئی ہے اور ہوگی بھی
ہم پاکستانی بھی عجیب قسمت لے کر پیدا ہوئے ہیں اپنے اپنے فرقے کے مولوی کے بیان کردہ ایمان و شریعت کو حرف آخر سمجھ کر دوسرے فرقے کے لوگوں سے بطور انسان محبت کرنے پر تیار نہیں
لاریب وبا کے موسم میں بیرون ملک سے اب تک سب سے زیادہ پاکستانی ایران سے واپس آئے مگر سعودیہ میں موجود عمرہ زائرین کتنے تھے جن کے لیے پی آئی اے نے 22 خصوصی فلائٹس چلانی تھیں وہ کہاں ہیں ؟
اسی طرح پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران بھارت برطانیہ متحدہ عرب امارات یورپی ممالک اور امریکہ سے کتنے پاکستانی سالانہ چھٹیوں یاتفریحی دورہ کے بعد واپس وطن پہنچے ان کی تعداد کیا تھی اور کیا 5 فروری سے 15 مارچ کے دوران فضائی راستوں سے جو لوگ پاکستان پہنچے ان سب کا کورونا کے حوالے سے طبی معائنہ ہوا ؟
ان سوالات کا جواب بہرطور حکومت پاکستان کو ہی دینا ہے ،
اب آتے ہیں دو اہم سوالوں کی طرف اولاً سکھر قرنطینہ مرکز میں رونما ہوئے آج دوپہر کے واقعہ اور ثانیاً ملتان قرنطینہ مرکز میں پنچائے گیے 1247 زائرین کے طبی معائنہ کے حوالے محمکہ اطلاعات کے مقامی دفتر سے جاری ہونے والے پریس ریلیز پر جسمیں بتایا گیا کہ” سب اچھا ” ہے
سکھر میں قائم قرنطینہ مرکز میں آج رونما ہونے والے واقعہ میں ایک دوسرے کی جان و ایمان اور سیاسی شناخت کے دشمن شیعہ علما کونسل مجلس وحدت مسلمین ایم کیو ایم اور تحریک انصاف ایک پیج پر دیکھائی ہی نہیں دیے بلکہ جب دھواں دھار پریس بریفنگ دیتے وقت یہ سب ایک دوسرے کے پہلو میں تشریف فرما تھے یہیں جے ڈی سی کے ظفر عباس اور آئی ایس او کا نمائندہ بھی جلوہ افروز تھا
شیعہ جماعتوں کے رہنماہ 19 ماچ سے گورنر سندھ عمران اسماعیل سے پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی علیم عادل شیخ کے توسط سے رابط میں تھے یہ رابط اخلاق اور خدمت کے جذبوں پر بھی ہوسکتا ہے لیکن گورنر سندھ پچھلے دس بارہ دنوں سے سندھ حکومت کے متوازی نظام چلانے اقدامات کے اعلانات اور دیگر جن معاملات میں مصروف ہیں اس سے ان اطلاعات کو تقویت ملتی ہے کہ 21 مارچ کی دوپہر میں سکھر قرنطینہ مرکز کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا وہ طے شدہ منصوبہ کا حصہ تھا
ایسا لگتا ہے کہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی کا مقصد سندھ حکومت کے کے مثبت چہرے پر فرقہ پرستی اور لسانی عصبیت کی کالک ملنا تھا اور شیعہ تنظیمیں اس میں کسی حدتک کامیاب بھی رہیں
سکھر قرنطینہ مرکز کے باہر بات بات پر قیادت کے حکم کا انتظار اور چند منٹوں میں اپنے لوگوں کو سڑکوں پہ لاکر سبق سیکھانے کی دھمکیاں دینے والے ملا آخر یہ کیوں چاہتے ہیں کہ سندھ حکومت اس قرنطینہ مرکز کا انتظام ان کے حوالے کردے ؟
کیا ہم وبا کے اس موسم میں قرنطینہ مرکز اور مجلس شب بیداری میں فرق سمجھنے کو تیار نہیں یا لیڈری کا ہٙڑ چین نہیں لینے دیتا ؟ کیوں جے ڈی سی کے ظفر عباس ۔ مولوی ناظر نقوی اور دوسروں نے قرنطینہ میں رکھے گیے زائرین کو اکسایا کہ وہ احتجاج کریں اور کہیں کہ ہمارے علما کو گیٹ پر دھکے مار کر ان کی بے حرمتی کی گئی ؟ عجیب سامان حرمت ہے جسکی حفاظت قرنطینہ میں رکھے گیے زائرین کے ذریعے کروانا مقصود تھا
اب یہ جھوٹ بولا جارہا ہے کہ احتجاج قرنطینہ مرکز کے باہر اور مقامی افراد و رضا کاروں نے کیا حالانکہ سب کے سامنے ہے کہ قرنطینہ مرکز کے اندر موجود رضاکاروں کے ہمراہ درجنوں جوشیلے زائرین بھی مرکزی گیٹ سے باہر نکل آئے اور احتجاج میں شریک ہوئے
کیا مولوی حضرات اور دوسرے اس امر سے لاعلم ہیں کہ بے احتیاطی کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے ؟
20 مارچ کی دوپہر جب مولوی ناظر عباس کے رابط کرنے پر سندھ کے وزیر سید ناصر حسین نے کہہ دیا تھا کہ اگر قرنطینہ میں رکھے گیے زائرین کو کوئی شکایت ہے تو اگلے ایک دن میں اسے دور کردیا جائے گا ۔ کیا صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے انہیں یہ نہیں بتایاکہ زائرین سے گھر والوں کی ملاقات یا خود انہیں براہ راست ملنے کی اجازت دینا حفاظتی طبی اصولوں کے منافی ہے ؟ ایسا ہے تو پھر اصرار کیوں اور انا کا مسلہ بناکر احتجاج کس لیے ؟
کھانا بنانے کی ذمہ داری جے ڈی سی نے رضاکارانہ طور پر لی لیکن کھانے کے لوازمات جے ڈی سی اور سندھ حکومت مشترکہ طور پر فراہم کرتے ہیں تیار کھانا جے ڈی سی اور شیعہ جماعتوں کے رضاکار تقسیم کرتے ہیں کیا ان رضاکاروں کو پہلے دن یہ بتانہیں دیا گیا تھا کہ زائرین تک بلاضرورت اور حفاظتی تدابیر کے بغیر رسائی مسائل پیدا کرسکتی ہے پھر بھی وہ منہ اٹھائے قرنطینہ کے لیے مختص عمارات کے کمروں میں مارے مارے پھرتے رہے اور مصر تھے کہ اپنے لوگوں کی دلجوئی کے لیے ان کی موجودگی ضروری ہے ۔ انہوں نے یہ سوچا کہ معمولی سی غفلت کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟
معاف کیجے گا ایک نہیں بہت سارے لوگوں کو سندھ حکومت کی نیک نامی ایک آنکھ نہیں بھا رہی دشمن کا دشمن دوست کے اصول پر متحد ہوکر فساد پیدا کرنے والے حضرات نے مذہب و عقیدے اور انسانیت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اپنے شوق چودہراہٹ کو بیچ بازار کے ننگا کردیا
کیا ہم کورونا کے مریضوں کا علاج اور باقی زائرین کی سلامتی چاہتے ہیں یا پھر شوق قیادت میں ہنگامہ آرائی ؟ کوئی تو بتلائے یہ ماجرا کیا ہے
دوسری بات پچھلی شب ملتان قرنطینہ میں رکھے گیے 1247 زائرین کے طبی معائنہ کے حوالے سے جاری کردہ سرکاری پریس ریلیز ہے جسمیں دعویٰ کیا گیا کہ تمام زائرین خیریت سے ہیں ٹیسٹ ہوگیے ہیں کسی میں کورونا کے اثرات نہیں سکریننگ کو ٹیسٹ کس کے کہنے پر لکھا کہاگیا ؟ اور پھر اس پریس ریلیز کے متن پر اٹھنے والے سوالات کا جواب ایگزیکٹیو آفیسرہیلتھ ملتان نے کیوں نا دیا ؟
وہ تو شکر ہے مقامی اسسٹنٹ کمشنر نے چند گھنٹے بعد وضاحت کردی کہ زائرین کی ابتدائی سکریننگ ہوئی ہے کورونا ٹیسٹ نہیں ورنہ سرکاری پریس ریلیز سے پیدا ابہام نئی کہانیوں کو جنم دیتا
کیا ہم وبا کے اس موسم میں قرنطینہ مرکز اور مجلس شب بیداری میں فرق سمجھنے کو تیار نہیں یا لیڈری کا ہٙڑ چین نہیں لینے دیتا ؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر