کوہِ سلیمان کے پہاڑی سلسلوں سے لیکر دریائے سندھ کے بیلٹ تک پھیلا ہوا صوبہ پنجاب کا سب سے آخری ضلع راجن پور جس کی سرحدیں جانب مغرب جہاں صوبہ بلوچستان سے ملتی ہیں وہاں جانب جنوب صوبہ سندھ اس سے متصل ہے۔ قدیم تہذیب و تمدن تاریخ اور علم و ادب کا گہوارہ علاقہ راجن پور 1982 میں ضلع تو بنا دیا گیا مگر اس کی تعمیر و ترقی کیلئے کسی قسم کے موثر اقدامات نہ کئے گئے۔
پاکستان کے سب سے بڑے منصب جلیلہ صدارت سے لیکر وزارت عظمیٰ اور ہر دورِ اقتدار میں تمام تر اہم وزارتیں اسی علاقے کو ملتی رہیں۔ سابقہ ادوارِ حکومت سے لیکر اب تک پنجاب کا تیسرا بڑا عہدہ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی بھی اسی علاقے کا مقدر چلا آرہا ہے۔
موجودہ دورِ حکومت میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سمیت دو اہم وزارتیں کمیونٹی ڈویلپمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کی چیئر مین شپ اور ڈونر ایجنسیز کی کمیٹی کی چیئر مین شپ بھی اسی ضلع کے پاس ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ضلع بھر میں قومی اسمبلی کے کل تین اور صوبائی اسمبلی کے تمام سات ارکان کا تعلق حکومت وقت سے ہے۔ یوں تو ضلع بھر کی محرومیوں کی داستان بہت طویل ہے مگر تعلیمی سہولتوں کے لحاظ سے یہ ضلع صوبہ بھر کے آخری نمبر پر ہے۔
پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ 73 سال گزرجانے کے باوجود آج تک اس ملک کا کوئی مستقل اور موثر تعلیمی نظام نہیں بن سکا۔ اس پر طُرہ یہ کہ ہر آنے والی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے اپنی مرضی کی تعلیمی پالیسی مرتب کر ڈالی اور ہر سال تعلیمی نصاب میں تبدیل کو ایک روایت بنا دیا گیا۔ یوں تو ہماری قومی زبان اردو ہے مگر ہمارے تعلیمی اداروں میں انگلش میڈیم کو ترجیح دی جانے لگی۔
اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر میں مہنگے سکولز سسٹم کو فروغ دیکر طبقاتی نظام تعلیم کی بنیاد ڈالی گئی جس سے اس ملک کی اکثریتی غریب آبادی احساس کمتری کا شکار ہوتی چلی گئی ہمہ وقت بدلتے تعلیمی نصاب نے بچوں کو مضطرب کر کے رکھ دیا، جس کا اثر بچیوں پر زیادہ پڑا۔ اسی تناظر میں ہم پنجاب کے پسماندہ علاقوں خصوصاً ضلع راجن پور میں بچیوں کی سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری تعلیم کا جائزہ لیں تو صورتحال کسی بھی لحاظ سے حوصلہ افزاء قرار نہیں دی جاسکتی۔
1993 میں مصر کے اشتراک سے بننے والی بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد اسی ضلع میں رکھا گیا، جس کیلئے ہزاروں ایکڑ سرکاری اراضی مختص کی گئی ایک بہت بڑی تقریب میں اس وقت کے وزیرا عظم میاں نواز شریف نے باقاعدہ افتتاحی تختی کی نقاب کشائی کی، تعمیراتی کمپنی مشینری اور لیبر سمیت پہنچ گئی۔ کسی حد تک عمارت کی بنیادیں بھی کھود دی گئیں مگر” پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ” کے مصداق یہ یونیورسٹی اسلام آباد چلی گئی اور آج تک افتتاحی تختی یہاں کے منتخب نمائندوں کی بے حسی پر ماتم کناں ہے۔
ضلع راجن پور کا سالانہ تعلیمی بجٹ مجموعی طور پر 4 ارب روپے ہے۔ جس میں سے ساڑھے تین ارب روپے تنخواہوں اور ترقیاتی اخراجات کیلئے جبکہ پچاس کروڑ روپے غیر ترقیاتی اخراجات کیلئے مختص ہیں۔
22 لاکھ افراد کی آبادی پر مشتمل ضلع بھر میں 4 گرلز ہائیر سیکنڈری سکولز اور 25 گرلز ہائی سکولز ہیں۔جن میں سے اکثر سکولز اپنے قیام سے لیکر اب تک سربراہوں اور تدریسی سٹاف سے محروم چلے آرہے ہیں۔گرلز ہائیر سیکنڈری سکولز میں 19ویں سکیل کی 4میں سے2 پرنسپلز اور 25 گرلز ہائی سکولز میں 18 ویں سکیل کی ہیڈ مسٹریس کی آسامیاں تاحال خالی ہیں۔ سبجیکٹ سپیشلسٹ اور سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ کی 57 منظور شدہ آسامیوں میں سے28آسامیاں جبکہ سیکنڈری سکول ٹیچرزکی 187 منظور شدہ آسامیوں میں سے 40 آسامیاں ابھی تک خالی ہیں۔ 27 سکولز میں ITلیبارٹریزجبکہ 18 میں سائنس لیبارٹریز موجود ہیں جبکہ 11 سکولز سائنس لیبارٹری اور 2 سکولز IT لیبارٹریز سے محروم چلے آرہے ہیں۔ چار دیواری،سیکورٹی، بجلی اور فلش سسٹم کی سہولتیں کسی حد تک موجود ہیں مگر اکثر سکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہے۔ اسی طرح حکومتوں کی جانب سے نئی بھر تی پر مکمل پابندی کی وجہ سے درجہ چہارم اور عملہ صفائی کی آسامیاں اکثر سکولوں میں خالی چلی آرہی ہیں۔
جبکہ تدریسی سٹاف کی کمی کے باعث مختلف گرلز ہائی سکولز کی ہید مسٹریسز نے مرد ٹیچروں کی خدمات حاصل کر رکھیں ہیں جنہیں تنخواہیں یا معاوضہ طالبات سے چندہ اکٹھا کرکے یا سکول کے بہبود فنڈ سے دی جاتی ہیں۔ضلع بھرکے گرلز ہائی اور ہائیر سیکنڈری سکولز میں 3114 طالبات 9th کلاس،2911 طالبات 10th کلاس، 464 طالبات 1st Year اور 386 طالبات 2nd Year میں زیرِ تعلیم ہیں۔
اس تناظر میں بنظرِ غائر تجزیہ کیا جائے تو خواتین طالبات کی سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری تعلیم کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اولین تو یہ کہ ضلع بھر میں گرلز ہائی اور گرلز ہائیر سیکنڈری سکولز کی تعداد بہت کم ہے۔
دوسرا یہ کہ گرلز پرائمری سے لیکر ہائیر سیکنڈری سکول تک منتخب عوامی نمائندوں کے حامیوں اور زمینداروں کی مرضی سے ان کی پسند و ناپسند کے مقامات پر قائم کیے گئے، فرسودہ پنچائیتی نظام، وٹہ سٹہ، کم عمر کی شادیاں، بے جوڑ شادیاں جیسے قبیح رسوم رواج کی زنجیر میں جکڑے اس ضلع کے اکثر لوگ علاقائی ثقافت واپنی خود ساختہ رسوم کے مطابق اپنی بچیاں دور دراز مقامات پر بھیجنے سے گریز کرتے ہیں اسی طرح غربت اور وسائل کی کمی بھی آڑے آتی ہے مختلف اداروں میں مختلف مدات میں فیسوں اور فنڈز کی وصولی، یونیفارم، نوٹس، آئینہ، گائیڈ بکس،غیر ضروری سٹیشنری وغیرہ کی جبری خریداری اورگرلزمیں مرد اساتذہ کا داخلہ بھی بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ نیزاسلام آباد اور لاہور میں بننے والی تعلیم سمیت تمام پالیسیوں میں علاقائی ثقافت، جغرافیائی حدود کا خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی آج تک اس ضلع کے منتخب نمائندوں نے کسی پالیسی سازی میں کوئی خاص دلچسپی لی ہے۔
ضروری ہے کہ راجن پور سمیت پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی پالیسی پائیدار ترقیاتی احداف (SDG) کے مطابق بنائی جائے اور خصوصاً حدف نمبر 4 کے مطابق تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں متعلقہ علاقے کے ماحول اور ثقافت کو لازمی مدِ نظر رکھا جائے تو خواتین کی تعلیم کے حصول میں بہتری کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر