میں ہمیشہ سے نظریات اور افکار کے جدال کو معاشرے کے لیے صحت مند خیال کرتا ہوں- لیکن مجھے فوبیا سے الرجک ہے- فوبیا چاہے کسی بھی قسم کا ہو،وہ انسان کی ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے- کرونا وائرس کی وبا جیسے ہی پھیلنا شروع ہوئی تو ایک بار پھر پاکستان میں سوشل میڈیا پر لبرل ملحدین میں سے مذہبی فوبیا کا شکار لوگوں نے مذاہب کے ماننے والوں پر تابڑتوڑ حملے شروع کردیے- انہوں نے کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے ذمہ دار مذہب کے ماننے والوں کو ٹھہرانے کی کوشش شروع کردی- اور یہ بھی بھول گئے کہ سب سے پہلے کرونا وائرس کی وبا سوشلسٹ ری پبلک چائنا میں نمودار ہوئی اور وہاں کی حکومت اور ریاست کا کنٹرول کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے پاس ہے جس کے سب سے بڑے پالیسی ساز ادارے یعنی پولٹ بیورو کے ہر رکن کے لیے لازم ہے کہ وہ مادی جدلیات کو تسلیم کرتا ہو اور وہ مادیت پرست ہو- چینی سماج کی اکثریت کمیونسٹ اور مادیت پرست ہے- وہ مابعد الطبعیات پرسرے سے یقین نہیں رکھتی- لیکن کرونا وائرس کی وبا ان کے ہاں بھی دیکھتے ہی دیکھتے پھیلتی گئی اور انہوں نے بھی بڑی مشکل سے اس وبا کو کنٹرول کیا- اور وہیں چائنا سے اس وائرس کا شکار مریض کئی ایک ممالک میں پہنچے۔
چین کے بعد دوسرا ملک جو اس وبا کا ہمارے خطے میں شکار ہوا وہ ایران تھا- اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایرانی رجیم بھی ابتداء میں کرونا وائرس کی تباہی کا اندازہ کرنے میں ناکام رہا- اور یہاں تک کہ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں پہلے کرونا وائرس کے ایران میں آنے کی خبروں کو ایرانی انتخابات کے خلاف سامراجی سازش قرار دیا- قم کے اندر واقع سید زادی معصومہ کا مزار جو شیعہ مسلمانوں کے نزدیک بہت محترم اور مکرم ہے، اس مزار پر زائرین پوری دنیا سے آتے ہیں جن میں پاکستانی زائرین بھی شامل تھے کو زیارت کے لیے آغاز میں بند کرنے سے انکار کیا گیا لیکن اس فیصلے کے تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اور جب تجرباتی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ سماجی میل جول کی کوئی بھی شکل ہو وہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں مددگار ہے تو پھر ایرانی رجیم بھی مجبور ہوگیا کہ وہ بھی ب مزارات بند کردے- باجماعت نمازوں پر پابندی لگادے- اور ایسے ہی لوگوں کے سماجی میل جول کے ہر ایک مقام کو بند کیا جائے تاکہ اس وبا سے نمٹا جاسکے-
سعودی عرب نے کرونا وائرس کو پہلے پہل سنجیدگی سے نہیں لیا اور اس نے حج و عمرہ اور دیگر کمرشل و بزنس فلائٹس جاری رکھیں- لیکن جب یہ وبا وہاں پر اپنا اثر دکھانا شروع ہوئی تو پابندی کے اقدامات اٹھائے گئے- خانہ کعبہ اور دیگر مقدس مقامات کو بند کیا گیا- جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا گیا- اور ابتک پی آئی اے سمیت عمرے کی فلائٹس بند کردی گئی ہیں- شاپنگ سنٹرز کو بند کردیا گیا ہے-
یہ تو تھا سعودی عرب اور ایران کا احوال- یورپی ممالک اور امریکہ کے اندر بھی کرونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے وقت حفاظتی اقدامات سنجیدگی کے ساتھ نہیں اٹھائے گئے- اور وہاں کی حکومتوں اور طاقتور گروہوں نے اس حوالے سے کسی مذہبی عذر کا سہارا نہیں لیا تھا-
اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اسلام سمیت دنیا بھر میں جتنے مذاہب اور ان کے اندر جتنے فرقے ہیں کہ کیا ان سب کے ماننے والوں کی اکثریت نے احتیاطی تدابیر کے طور پر جواپنے اجتماعی مذہبی مناسک ہیں اور رسوم و رواج ہیں ان کو وقتی طور پر معطل کرنے سے انکار کیا؟ اس کا جواب نفی میں ہے- دوسرا سوال یہ ہے کہ خود پاکستان میں اسلام کے ماننے والوں کا موقف کیا ہے؟ اس ضمن میں پاکستان میں لبرل ملحدین نے اشرف جلالی کی جانب سے اپنے اعلان کردہ اجتماع کو نہ روکنے کے اعلان کو تو بڑے زور و شور سے پھیلا کر مذہب پرستوں کو لعن طعن کرنے کا موقعہ ضایع نہ کیا لیکن انہوں نے ڈاکٹر طاہر، القادری، مولانا شہنشاہ نقوی، مفتی تقی عثمانی سمیت ملک بھر کے درجنوں مسلمان اسکالرز کی طرف سے کرونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اور حکومتی اقدامات کی پاسداری کرنے کے حق میں جو بیانات دیے ان کو سرے سے نظر انداز کردیا-
کیوں؟
اس لیے کہ پاکستان میں اشراف لبرل بالعموم اور ان میں لبرل ملحدین کا بے ہودہ ایڈیشن یہ مقدمہ پیش کرتا ہے:
مذہب عقل کا دشمن ہے
سب مذہب کے ماننے والے عقل کے دشمن ہیں
مذہب پرستوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیےعقلی تدابیر پر عمل کرنے سے انکار کیا
اس لیے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے ذمہ دار مذہب پرست ہیں
یہ مقدمات انہوں نے کچھ اس طرح سے بھی پیش کیے
اشرف جلالی مذہبی اجتماع کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں معاون نہیں سمجھتا
اشرف جلالی مذہبی ہے
ہر مذہبی کرونا وائرس سے نمٹنے کے حفاظتی اقدامات کا دشمن ہے
کچھ نے اشرف جلالی کی بریلوی شناخت کو لیکر بریلوی /صوفی اسلام پر چڑھائی کردی
سب سے دلچسپ مقدمہ پاکستان کے ایسے ملحدین اور تکفیری سوچ کے حاملین کا ہے- انہوں نے پاکستان کے اندر کرونا وائرس کی جڑیں ‘شیعہ مذہب’ میں تلاش کرنے کی کوشش کی اور اسے زیارت سے جوڑ دیا- کیا عجب اتفاق ہے کہ کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان / اہلسنت والجماعت تکفیری دیوبندی تنظیم کے سربراہ محمد احمد لدھیانوی کرونا وائرس کے پاکستان میں پھیلاؤ کا الزام شیعہ زائرین کے سر لگاتا ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کی وجہ انصاف حکومت میں شامل علی زیدی اور ذوالفقار ذلفی جیسے شیعہ وزرا بھی ہیں جنھوں نے زائرین کے لیے تفتان باڈر پر سہولیات کے لیے کافی اقدامات اٹھائے- اور یہی الزام لبرل ملحدین کا ایک سیکشن بھی لگاتا ہے- لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ سب بھول جاتے ہیں کہ ایران سے واپس پلٹ کر آنے والے زائرین کے تفتان باڈر پر میڈیکل ٹسٹ اور ان میں سے کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کو الگ کرکے کرونا وائرس کے علاج کے لیے بنائے گئے سنٹرز میں منتقل کرنا وفاقی اور بلوچستان حکومت کی ذمہ داری تھی ناکہ اس کی ذمہ داری شیعہ زائرین پر ڈال دی جائے اور اس کے بعد پورے شیعہ مذہب کو ہی کرونا وائرس کا ذمہ دار قرار دے دیا جائے-
لبرل ملحد ہوں یا مذہبی فرقہ پرست ہوں یہ کرونا وائرس کے حوالے سے سرمایہ دارانہ ریاستوں اور حکومتوں کی غفلت اور نااہلی جیسے بڑے عوامل کو پس پردہ دھکیلتے ہیں- دوسری طرف عوام کے انفیکشن وباؤں میں مرنے یا ان سے صحت کی بربادی میں ان کی مجموعی معاشی پالیسیوں اور ان میں ان کے عوامی ہیلتھ کے شعبے کے لیے انتہائی کم فنڈز مختص کرنے جیسے عوامل کو بھی نظر انداز کرتے ہیں- یہ نیولبرل سرمایہ داری کی طرف سے جنگوں اور وباؤں کو اپنے منافعوں میں اضافے کے لیے نادر مواقع سمجھنے کی حقیقت کو عوام کے سامنے نہیں لاتے- اور اس طرح سے حکمران طبقات کی لوٹ کھسوٹ کو چھپا جاتے ہیں- لبرل اسے الحادیت کی فتح سے تعبیر کرتے ہیں تو مذہب کے ماننے والوں میں ایک سیکشن اسے اخلاقی پستی و زوال کا نتیجہ بتلاتے ہیں- اور دوسرا فرقہ پرست سیکشن اس تباہی کو اپنے مبینہ دشمن اور حریف فرقے کے وجود سے منسوب کردیتا ہے- اور یوں ایک دوسرے کے ولگرازم کو تقویت دینے کا سبب بن جاتے ہیں-
پاکستان کے اشراف کمرشل لبرل کا فکری دیوالیہ پن کسی بھی ہیجان خیز صورت حال کے وقت اچھے طریقے سے بے نقاب ہوجاتا ہے- یہ مذہبی فوبیا میں اسقدر غرق ہیں کہ ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ کہ کسی سماجی ہیجان کے وقت اگر ان کے بنائے گئے مقدمات پہلے سے نسل کشی، مارجنلائزیشن کا شکار مذہبی یا نسلی گروہ کو غیر محفوظ بناگئے تو اس سے تکفیری فسطائیت کو ایسے گروہوں کے خلاف اپنی مہم تیز کرنے کا اور موقعہ میسر آئے گا-
یہ اشراف کمرشل لبرل اور مذہبی فرقہ پرست دونوں کرونا وائرس کے خلاف جنگ کے دوران ذخیرہ اندزوں، منافع خوری میں اضافہ کرنے اور ایسے ہی کنجوس ارب پتیوں کی کنجوسی کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کی بجائے لوگوں کے درمیان خانہ جنگی کروانے کے لیے عمل انگیز کا کردار ادا کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں-
#CoronaInPakistan
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور