دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کرونا کا قہر اور شہریوں کی آواز۔۔۔ رانا محبوب اختر

ذرا غور کیجئے کہ حملہ آور صدیوں سے ہمیں قتل کرتے اور نو گز کی اجتماعی قبروں میں دفن کرتے تھے۔لیکن ہم بیج کی طرح زمین سے اگ اتے تھے

زندگی کائنات کے کُل میں بند ہے۔Whole یا کُل کے احترام ، ربطِ باہمی اور محبت سے سنورتی ہے۔ فطرت، فرد سے اغماض بھی کر لیتی ہے لیکن اجتماعی گناہوں کو معاف نہیں کرتی اور باہم محبت سے انکار کرنے والی نسل یا species کو مٹا دیتی ہے۔

وہ جو فطرت کے کُل سے جڑ کر نہیں جیتے، مر جاتے ہیں ۔ جو سر کائنات سے ہم آہنگ نہیں ہوتے، خاموش ہو جاتے ہیں۔یہ فطرت کا قانون ہے۔ خدا کی سنت ہے جو بدلتی نہیں۔ فطرت کا قانون سب کے لئے ایک ہے۔قوی الجثہ ڈائنوسارز مٹ گئے۔Saber Tooth Tigers معدوم ہوئے۔رام کے بندر شوالک پہاڑ سے غائب ہو گئے۔Neanderthals کا صفایا ہو گیا۔دھرتی ماں کے سینے پر پلنے والے یہ جانور جب جینے کے لئے فٹ نہ تھے تو مر گئے۔اب ان "نامیوں” کا نشان باقی نہیں ہیں۔ایسے بھیانک انجام سے نوع انسانی کو صرف محبت بچا سکتی ہے۔ ہم نے دھرتی ماتا کا دل چیر دیا ہے۔ زمین کا دامن تار تار کیا ہے۔دانش کے سرسوتی خشک کئے ہیں۔ سمندر میلے کئے ہیں۔کارون جھر پہاڑ کو ہم کھا رہے ہیں ۔

شہروں کی ہوا زہر آلود ہے۔ سینوں میں آکسیجن کی جگہ دھواں بھرا جا رہا ہے۔جانوروں کی دوسری نسلیں تب مارتی ہیں جب ان کی زندگی کو خطرہ ہو یا بھوک سے مرتی ہوں۔ ہم تب قتل کرتے ہیں جب پیٹ بھرا ہو کہ انسان بھوک سے زیادہ اپنی دھاک بٹھانے کو قبضہ اور قتل کرتے ہیں۔ہم انسانوں کے واحد معلوم مسکن زمین سے ظالمانہ سلوک کر رہے ہیں اور زمین ہم سے ناراض ہے۔کرونا وائرس انسانی وائرس کے لئے وارننگ ہے کہ اگر آپ کائنات کے مربوط نظام کے لئے فائدہ مند نہیں ہیں تو آپ رام کے بندروں کی طرح مٹ جائیں گے۔

یہ ایک وڈیو کا قریب ترین ترجمہ ہے جو یارِمن، شوکت اشفاق نے رات گئے بھیجی۔ شوکت بھائی عجب آدمی ہیں۔ برسوں سے ان سے دوستی کا رشتہ ہے۔ محبت وہ لفظ ہے جو ان کی شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔دانشور اور اجلا سینئر صحافی جو سراپا محبت ہے۔گزری شام مظفر گڑھ میں ہم ایک ساتھ تھے۔چائے پر چند دوستوں سے گفتگو رہی۔

ندیم رحمان ملک نے محبت سے میزبانی کی۔رانا مسعود اختر ، میاں ایوب قریشی، اے بی مجاہد،محمد شہزاد، نعیم کاشف، افضل چوہان،یامین راہی اور پرانے دوست، طاہر شاہ بھی موجود تھے۔ دل شاد ہو گیا۔ در اصل ہم سب اسلام آباد سے آئے اِک روشن خیال آدمی ڈاکٹر ظفر قادر کو ملنے اور ان سے باتیں کرنے آئے تھے۔محبت کے طلسم کے سامنے کرونا کا قہر ہیچ تھا:
میرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اسے جب بھی چاہا بلا لیا، اسے جو بھی چاہا بنا لیا
ادب اورمحبت زندگی کے قرینے ہیں۔اک وسیع کائنات میں باہمی ربط اور تال میل کو ہم محبت کا نام دیتے ہیں۔ہر زمانے کا شاعر ، مولانا روم کہتا ہے:
شاد باش اے عشق خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما
عشق سے کائنات کے خلل کا علاج ممکن ہے۔ محبت، کائنات کا توازن بحال رکھتی ہے۔بنی آدم کو آعضائے یک دیگر اند بنا کر حسن کی تخلیق کرتی ہے۔ بوالہوسوں کی چیرہ دستیوں سے دھرتی ماتا کا ecological balance خراب ہوتا ہے۔کیدو جنم لیتے ہیں ۔ ہیر زہر کھاتی ہے۔ غالب محبت کو اچھا اور بوالہوسی کو برا کہتے ہیں:
ہر بوالہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب ابروئے شیوہ ء اہلِ نظر گئی
مظفرگڑھ کی محفلیں میری عمر گزیدہ اور گریزپا ہستی کو ، سرشار کرتی ہیں۔عاجزی اور محبت کے جذبات فزوں ہوتے ہیں۔ہم پراسرار لوگ ہیں۔ جو نہ ملے اور دور ہو ،وہ محبوب ہوتا ہے۔ اس لئے ماضی ، مست کرتا ہے۔ مستقبل کو عزیز رکھتے ہیں اور حال، زبوں حال ہے۔ ہم عجیب لوگ ہیں۔زندگی تو خیر نعمت ہے ہم مرنے پہ بھی میلہ کرتے ہیں۔ موت پہ عرس مناتے ہیں۔ عرس کا مطلب شادی ہے۔

پورے خطے میں صدیوں سے قتلِ عام، عام تھا۔باہر سے آنے والے بدیسی حکمران پانچ ہزار سال سے ہمیں مارتے، لوٹتے اور غلام بناتے رہے۔ ہمارے شہروں سے مورتیاں اور کھانے کے رنگین ظروف ملے ہیں کہ مہذب آدمی ، ظرف ، کھانے کے ظروف، اور فنونِ لطیفہ سے پہچانا جاتا ہے۔سندھ وادی کی تہذیب ہم عصر تہذیبوں میں سب سے ممتاز تھی ۔موہنجوداڑو کی کھدائی سے ہتھیار نہیں ،محبت بھرے ہوا دار گھر دریافت ہوئے تھے! مہر گڑھ سے زراعت کی ابتدا ہوئی تھی! مظفرگڑھ سے شجاعت کو دوام ہے کہ شہر کا بانی اپنی بیٹیوں سمیت لڑتا ہوا شہید ہوا تھا۔

اور ایک عرصہ تک اس کا بسایا ہوا ہمسایہ شہر، خان گڑھ پاکستانی سیاست کا کعبہ تھا۔ ہمارے شہر کا ایک آدمی سیاست کی آبرو تھا۔ہمارے ہاں بڑے لوگوں کو قتل کرکے ، رونے کا رواج پرانا ہے۔ماتم کے لئے ردالیوں کا ادارہ تھا ! ماتم اور مذمت ہمیں راس ہے۔خوشی سے ہمیں ڈر لگتا ہے۔اس لئے یادگار لٹریری کلب نے پذیرائی کا کہا تو مجھے خوف آیا اور جب تقریب دو بار ملتوی ہوئی تو میں اندر سے خوش ہوا تھا کہ سنگ زنی کی روایت کے ہوتے ہوئے پذیرائی کے قرینوں سے پریشانی تو ہوتی ہے۔کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے بر وقت حکومتی اقدامات کی وجہ سے آج کی تقریب ایک بار پھر ملتوی کرنا درست فیصلہ تھا۔مگر ڈرائنگ روم سیٹنگ میں "چائے شیراز” اور مثبت گفتگو،گپ شپ اور بزلہ سنجی سے کرونا کے سامنے زندگی ڈھارس بندھ گئی !

ذرا غور کیجئے کہ حملہ آور صدیوں سے ہمیں قتل کرتے اور نو گز کی اجتماعی قبروں میں دفن کرتے تھے۔لیکن ہم بیج کی طرح زمین سے اگ اتے تھے۔ آج ہم چندر بھاگا اور سندھ کے دوآبے،مظفرگڑھ میں 44 لاکھ ہیں۔اور اپنے ضلع میں یونیورسٹی کا مطالبہ کرتے ہیں!یونیورسٹی کے لئے زمین اور پیسہ یا seed capital مظفرگڑھ کے ایک سپوت کوڑا خان جتوئی نے دے رکھا ہے، پھر بھی ہر عہد کیحاکم جھوٹ بولتے ہیں اور تاخیر کرتے ہیں۔ حاکموں کو تعلیم سے ڈر لگتا ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ غلام رہنے سے انکار کرتے ہیں۔زندگی اور کائنات کے توازن پر زور دیتے ہیں!

جو پڑھا اور زندگی سے جو سیکھا آج اسے دہرانے کا وقت ہے۔ ول ڈیورانٹ کی کتاب "Lessons of History” میری پسندیدہ کتاب ہے۔ڈیورانٹ نے کہا کہ ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو اس کی وسعت کے سامنے ہم ذرہء بے نشاں ہیں۔ اور کائنات کا پہلا سبق عاجزی یا humility ہے۔ کرونا وائرس،یہ سبق ” آموختہ” کرانے آیا ہے ۔دوسرا سبق نطشے کا ایک قول ہے جو مظفر گڑھ کے ہی ایک دوست خالد خان نے ازبر کرایا ہے:

"میرا مخلصانہ مشورہ ھے کہ ان لوگوں پر بالکل اعتبار نہ کریں جن میں آپ کو انتقام نظر آئے اور جو لوگوں کو سزا دینے کے بارے میں جذباتی فیصلے کریں۔ آپ کو ایسے لوگوں کے چہرے شکاری کتوں اور جلادوں کی طرح کمینے اور گھٹیا نظر آئیں گے”!بے رحم جلاد اور لالچی کتے کائنات کا توازن خراب کرتے ہیں۔تیسرا سبق یہ ہے کہ جس دن آپ چھوٹی لڑائیاں اور انا کی جنگ لڑنا چھوڑتے ہیں، وہ خوشحالی کا کا پہلا دن ہوتا ہے۔ اپنے ہم وطنوں ،ہمسایوں، دوستوں، بچوں اور بیوی کو انا کے خول سے نکل کر دیکھیں۔ وہ روشنی ہیں!چوتھاسبق یہ ہے تعلیم کے بغیر زندگی حیوانات کے درجے پہ رہتی ہے! ریاست سماج کا عکس ہے اور سماج طاقت کے قانون کے تابع ہے اور قانون کی طاقت کو کوئی ماننے کو تیار نہیں۔لہٰذا پرچی جمہوریت کی سیاست سے تاجر، سردار اور جاگیردار کی آمریت کے علاوہ کچھ ملے گا۔ ہمیں بہ طور سماج ایک بڑے قومی مکالمے کا آغاز کرنا ہوگا۔عوامی فلاحی ریاست کے قیام کے لئے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے عوام اور ریاست میں مغائرت ختم ہو اور اردگرد کی دنیا اور کائنات سے ہم آہنگی پیدا ہو:

رفعت ساڈے لوکاں تانڑیں ساری رمز اللہ دی
ساکوں نال ملایاں متوں نئیں وچھوڑا مکڑاں
آج کی محفل میں ایک غیر سیاسی مشاورتی گروپ ” Citizens’ Voice for Policy Support” پر بھی بات ہوئی ۔سابق وفاقی سیکرٹری اور NDMA کے سابق چیئرمین، ڈاکٹر ظفر قادر نے خوب صورت گفتگو کی۔ ظفر قادر وسیع انتطامی تجربے کے ساتھ پبلک پالیسی کے بین الاقوامی سطح کے ماہر ہیں۔اور Development Studies میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ وہ تعلیم فاونڈیشن کے بانی چیئرمین بھی ہیں۔ شہریوں کی مدد سے مظفر گڑھ کے لئے ایک مربوط ترقیاتی ماسٹر پلان اس غیر رسمی گروپ کا مشن ہے! تعلیم، صحت، ماحولیات، آبادی اور انفرا سٹرکچر کے لئے اہداف اور ان اہداف کو باہم مربوط کر کے ترقیاتی عمل کو بامقصد بنانا ضروری ہے کہ اکثر اوقات محدود حکومتی وسائل منتشر منصوبہ جات کی تکمیل میں ضائع ہو جاتے ہیں۔گروپ کا کام پالیسی سپورٹ دینا ہے اور کسی بھی منصوبے کی تکمیل یا مانیٹرنگ سے گروپ کا کوئی تعلق نہیں ہوگا!آنکھوں میں کٹی رات کی صبح ہوئی تو یہ درویش سوچتا تھا کہ کہ زندگی کو کرونا کے قہر سے بچانے کو محبت اور مربوط ترقی کے سوا کوئی راستہ نہیں ! مظفرگڑھ کے شہریوں کی آواز کائنات کے کُل کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئی تھی!
نوٹ:یہ کالم ایک منسوخ تقریب اور کرونا وائرس کی دہشت میں زندہ رہنے کے عزم کا احوال ہے!

About The Author