نعیم صابر اور رضوان ظفر گورمانی نے قارئین کی دلچسپی کے لیے ان کا انٹرویو کیا
انٹرویو کا دوسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے
سوال: پیپلز پارٹی کارکنان شکوہ کناں ہیں کہ بلاول بھٹو کو پنجاب میں کوٹھیوں والوں نے یرغمال بنا لیا ہے عام کارکنان تک رسائی ممکن نہیں ?
جواب : ایسا ہرگز نہیں,مجھے نہیں معلوم یہ تاثر کہاں سے ابھرا چئیرمین بلاول بھٹو آئے روز پنجاب کے دورے پہ ہوتے ہیں جہاں ہر خاص و عام ان سے ملاقات کر سکتا ہے میں کوٹ ادو کی مثال دوں تو ڈاکٹر یونس شاکر ماما قاسم اور انجینئر واصف سمیت درجنوں کارکنان بلاول بھٹو صاحب سے ملاقات کر چکے ہیں اور مذکورہ کارکنان مڈل کلاس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی کوئی ” کوٹھیاں” نہیں ہیں
سوال: پیپلز پارٹی ساؤتھ پنجاب اپنا پیغام پہنچانے میں ناکام نظر آتی ہے ایسا کیوں..?
جواب: میں دوبارہ کہوں گا کہ آپ کو معلوم ہے صرف مظفرگڑھ سے ہی پارٹی نے کتنی سیٹیں جیتی ہیں کیا یہ پیغام پہنچائے بغیر ممکن تھا یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو سرائیکی وسیب میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں
سوال: پیپلز پارٹی سرائیکی صوبہ اور بہاولپور سیکرٹریٹ پہ کیا موقف رکھتی ہے
جواب: پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جو نہ صرف سرائیکی وسیب کی محرومیوں سے آگاہ ہے بلکہ ان کے دکھوں کا مداوا کرنا چاہتی ہے پیپلز پارٹی نے جب بھی سرائیکی صوبے کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش کی تو ن لیگ و دیگر جماعتوں نے روڑے اٹکانے شروع کر دیے دو صوبوں کا شوشہ ن لیگ کی ذہنی اختراع تھی اور اب تحریک انصاف مہنگائی اور بیڈ گورننس سے توجہ ہٹانے کے لیے بہاولپور سیکرٹریٹ کا شوشا چھوڑ رہی ہے
سوال: پیپلز پارٹی ساؤتھ پنجاب میں بطور اپوزیشن کسے ڈیل کر رہی ہے..?
جواب : تحریک انصاف بدیانتی اور عوام دشمنی کا ثبوت دے رہی ہے ہمارے منتخب ممبران اسمبلی کو کسی قسم کے فنڈذ نہیں ملے حلقے کی عوام کو پیپلز پارٹی سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے بیوروکریسی بھی ہمارے ایم این ایز کی بجائے تحریک انصاف کے ایم پی ایز کو زیادہ وقعت دیتی ہے مگر یہ تیسرے درجے کی سوچ کامیاب نہیں ہو سکے گی عوام جانتی ہے کہ پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس نے عوام طاقت کا سرچشمہ ہے کا نعرہ لگایا پی پی پی ہی عوام کو روٹی کپڑا مکان صحت سکیورٹی جیسے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے کوشاں رہتی ہے
سوال: پیپلز پارٹی کے وہ رہنما جنہوں نے آئندہ الیکشن میں حصہ لیں گے وہ لوکل لیول پہ کیا سٹریٹجی اپنا رہے ہیں
جواب : پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو اپوزیشن کرنے کی ضرورت ہی نہیں تحریک انصاف کی کارکردگی ہی ان کی اپوزیشن ہے ہم عوام سے رابطہ میں ہیں دکھ سکھ میں ان کے ساتھ ہیں اپنی استعداد کے مطابق ان کی خدمت بھی کر رہے ہیں پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی علاقے پہ قہر بن کر ٹوٹے ہیں ٹرانسفر پوسٹنگ سے لے کر تھانہ کچہری تک میں مداخلت اور کام کے پیسے لیے جا رہے ہیں من پسند افراد کو ٹھیکے عطا کیے جا رہے ہیں مختلف محکمہ جات سے منتھلی کے بنیاد پہ پیسے لیے جا رہے ہیں
سوال : آپ نے من پسند ٹھیکداروں کی خوب کہی پہلے اک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ پیپلز پارٹی سمیت ہر جماعت اپنے کارکنان کا خیال رکھتی ہے تو پھر اس پہ اعتراض کیوں ?
جواب : قہقہہ آپ پکے جرنلسٹ ہیں جناب میرا کہنے کا مطلب تھا کہ حکومت کے ان نمائشی و سیاسی عہدوں پہ کارکنان کا حق ہوتا ہے جو ان کی محنت کا ثمر ہوتا ہے اب کوئی حکومت کسی دوسری پارٹی کو تو وزارتیں نہیں دے دیتی سیاسی عمل میں ضرورت عہدے جیسے پی اے سپروائزر سروئیر وغیرہ جیسے بے ضرر عہدے کارکنان کو دیے جا سکتے ہیں مگر من پسند افراد کو ٹھیکے دینا ان سے کمیشن لینا ان کو خورد برد اور کرپشن کی کھلی چھوٹ دینا یہ کسی صورت قابل قبول نہیں
سوال: پاکستان سمیت دنیا بھر کو متاثر کرنے والے کورونا وائرس کے متعلق حکومتی اقدامات سے آپ مطمئن ہیں
جواب : مذکورہ طبی ایمرجنسی میں وفاقی حکومت کی نا اہلی کھل کر سامنے آئی ہے ملک میں افراتفری کا ماحول ہے ان کو کچھ سوجھ نہیں رہا ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی حالت دگرگوں ہے ڈاکٹرز نے بچاؤ کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے کام چھوڑنے کی دھمکی دے دی ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سندھ میں کارکردگی کی دنیا تعریف کر رہی ہے سندھ حکومت نے بروقت اقدامات کیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی محنت سب دیکھ رہے ہیں سندھ میں مریض صحت یاب ہو کر گھروں کو لوٹ رہے ہیں جبکہ پنجاب میں مریض ہسپتالوں سے فرار ہو رہے ہیں
ڈبلیو ایچ او جیسے ادارے نے سندھ حکومت خصوصاً مراد علی شاہ کی تعریف کی ہے تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ سندھ حکومت سے سیکھے پیپلز پارٹی ہمہ قسمی تعاون کے لیے تیار ہے
سوال: کوٹ ادو میں تفریح کے مواقع بہت کم ہیں ایسے میں پیپلز پارٹی نے بیاد پٹھانے خان کے نام سے اک ادبی ایونٹ کیا جس پہ اعتراضات لگائے گئے اس پہ آپ کیا کہیں گے
جواب : کوٹ ادو میں تفریح کے مواقعوں کی بات کریں تو ممبران اسمبلی کی نااہلی ہے کہ کوٹ ادو میں جو تین چار پارکس تھے یا تو وہ قبضے کی نظر ہو گئے یا ان پہ مارکیٹیں اور دفاتر بنا دیے گئے اس وقت کوٹ ادو میں اک بھی میں دوبارہ کہوں گا اک بھی پارک موجود نہیں اک سرکاری لائبریری ہوا کرتی تھی وہ بھی داستان ہو گئی ایسے میں ہم نے اپنی جیب سے پیسے لگا کر اک ایونٹ منعقد کرایا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنی ثقافت و ورثے کی ترویج پہ یقین رکھتی ہے اس ایونٹ میں شہریوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا چند عناصر جن کو ہم نے عزت دی باقاعدہ دعوت دے کر بلایا اور وہ اک ” مخصوص” حالت میں وہاں پہنچے ان کو پیپلز پارٹی کا یہ ایونٹ پسند نہیں آیا اس لیے انہوں نے اعتراض فرمایا کہ جئے بھٹو کا نعرہ کیوں لگا معلوم نہیں وہ کیا چاہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کے پروگرام میں سلیکٹڈ کے نعرے لگائے جاتے دعا ہے اللہ پاک دوسروں کو توفیق دے اور وہ بھی عوام کو خوشیوں کے چند لمحے عنایت کرنے کی توفیق عطا کرے ہم آئندہ بھی ایسے ایونٹ منعقد کر کے عوام کو خوشیاں اور مخالفین کے سینے پہ مونگ دلتے رہیں گے انشاءاللہ
یہ بھی پڑھیے: پیپلز پارٹی ضلع ڈیرہ غازی خان کے جنرل سیکریٹری میر آصف خان دستی سے خصوصی گفتگو
اے وی پڑھو
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون