نومبر 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ، آزادی صحافت اور دو سوال ۔۔۔حیدر جاوید سید

یہ بھی کہ کیا اس اشتہار کے لیے رقم کی ادائیگی مولوی سلیم اللہ خان صدر سواد اعظم اہلسنت نے کی یا اعزازی طور پر شائع کیا گیا ؟

جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن 3 دن قبل کے 55 کنال اراضی کے 34 سال پرانے معاملے میں گرفتار ہوئے تو اس گرفتاری کو آزادیء صحافت پر حملہ بنا کر پیش کیا گیا اخباری تنظمیوں کے بعض گروپ جنہیں ورکرز کا ایک حصہ مالکان کے ٹوڈی کہتا ہے نون لیگ اور دیگر کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی گرفتاری کی مزمت میں پیش پیش ہے
پچپن کنال اراضی کا یہ قصہ 34 سال پرانا ہے ۔

ایک رائے بلکہ جنگ سے نکالے گیے پرانے ورکرز کا موقف ہے کہ 1986 میں جوہر ٹاون لاہور کی سکیم میں جنگ ایمپلائز ہاوسنگ سوسائٹی کے نام پر 55 کنال اراضی لی گئی تھی ، لیکن دوسری طرف معاملہ یہ ہے کہ 7 جون 1986 کو اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف نے ایک درخواست پر جوہر ٹاون کے تین مختلف قطعات اراضی کو ایک جگہ یکجا کر کے 55 کنال اراضی الاٹ کرنے کا خصوصی حکم دیا۔

ایل ڈی اے نے ابتداً وزیر اعلیٰ کے حکم کو قواعد کے برعکس قرار دیا لیکن بھر 11 جولائی 1986 تک سارے اعتراضات ختم ہوئے اور پچپن کنال قعطہء اراضی الاٹ کردیا گیا ۔
میر شکیل جنگ اور جیو کا موقف ہے کہ یہ اراضی نجی ملکیت رکھنے والے مالکان سے خریدی گئی اراضی کے مالک محمد علی اور ہدایت اللہ نامی دو افراد تھے ان دو افراد کی ملکیتی رقبہ جوہر ٹاون سکیم میں شامل تھا جس کے بدلے میں انہیں قانون کے مطابق تین قعطات الاٹ ہوئے جو کہ ایک درخواست پر یکجا ہوئے اور ان سے خریداری کی گئی ۔

سوال یہ ہے کہ کیا تین قطعات اراضی کو یکجا کرنے کی درخواست ان دو مالکان نے دی اور اگر دی تو کیا ایسی کوئی دوسری مثال بھی ہے کہ وزیراعلیٰ نے کسی اور شہری کو بھی خصوصی رعایت دی ہو ؟

کیا اراضی کی یکجائی کےلیے وزیراعلیٰ کے احکامات کے بعد ایل ڈی اے نے جو اعتراضات اٹھائے تھے وہ چند ہی دنوں میں ختم کیسے ہوگیے ؟

جو اراضی 1996 میں میر شکیل فیملی کے 5 افراد کے نام پر ٹرانفسر ہوئی اس کے لیے مختار نامہ تو 1986 سے ہی میر شکیل الرحمن کے پاس تھا ۔

زمین بظاہر محمد علی اور ہدایت اللہ کے نام تھی لیکن میر فیملی نے ٹرانسفر صرف ہدایت اللہ کے پاور آف اٹارنی کی بنیاد پر کرائی ۔

اصولی طور پر 12 یا 14 کنال سے زیادہ قطعہ یکجا نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کیس میں 55 کنال کو یکجا کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سہولت صرف ان دو افراد کو ملی جن کی اراضی کے خریدار میر شکیل تھے
اراضی نقد رقم کی بنیاد پر خریدی گئی یا بنک لین دین کا ذریعہ تھے ۔

پاور آف اٹارنی بنواتے وقت محمد علی اور ہدایت اللہ کو کتنی کتنی رقم دی گئی اور جب 30 جولائی 1996 کو یہ اراضی شاہینہ شکیل ۔ محمد ابراہیم شکیل ۔ عائشہ شکیل ۔ عاصمہ شکیل اور اسماعیل شکیل کے نام پر ٹرانسفر ہوئی تو پاور آف اٹارنی ہدایت اللہ مرحوم کے ورثا کا تھا دوسرے مالک محمد علی کا کیا ہوا
اگر اس سے قبل ازیں ٹرانسفر کروالی گئی تھی تو اس کا ریکارڈ کہاں ہے ؟

نیب ۔ میر شکیل اور ایل ڈی اے تینوں کا موقف اور دستاویزات آنے والے دنوں میں بہر طور عدالت کے سامنے رکھے جائیں گے تبھی کوئی حتمی بات ہوگی

جہاں تک میر شکیل الرحمن کی آزادی صحافت اور جمہوریت کے لیے خدمات کا تعلق ہے تو اس ضمن میں اپنے پڑھنے والوں کے سامنے دو واقعات رکھنا ضروری ہیں
اولاً یہ کہ
جب محترمہ بینظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی کے وقت بیگم نصرت بھٹو کی خواہش پر نکاح فقہ جعفریہ کے تحت ہوا تو اگلے روز جنگ اخبار کے تمام ایڈیشنوں میں چوتھائی صفحہ کا ایک اشتہار صفحہ اول پر شائع ہوا اشتہار شائع کروانے والی تنظیم سواد اعظم اہلسنت تھی جس نے فقہ جعفریہ کے تحت نکاح کروانے کے معاملہ کو لے کر شیعہ دیوبندی تنازع کو ہوا دی
کیا یہ اشتہار آزادی صحافت کے اصولوں کے عین مطابق شائع کیا گیا ؟

یہ بھی کہ کیا اس اشتہار کے لیے رقم کی ادائیگی مولوی سلیم اللہ خان صدر سواد اعظم اہلسنت نے کی یا اعزازی طور پر شائع کیا گیا ؟

کیا اس اشتہار کو شائع کرنے کے پیچھے 1974 میں میٹرو پولیٹن کلب کراچی میں میر شکیل اور آصف علی زرداری کے درمیان ہوئے جھگڑے کا دخل تھا کہ پرانے دشمن کی شادی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے یا پھر بھٹو خاندان کے لے اپنے والد میر خلیل الرحمن سے ورثہ میں ملی نفرت کا شاخسانہ ؟
میر شکیل الرحمن کی آزادیء صحافت کے لیے طویل اور دیگر خدمات بھی ہیں لیکن اس وقت وہ گرفتار ہیں اس لیے اسی پر اکتفا کرتے ہوئے ایک ضمنی سوال پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا ہوں

میر شکیل الرحمن کے حالیہ مقدمہ میں وکیل چودہری اعتزاز احسن وہی شخصیت اور محترمہ بینظیر بھٹو کے اولین دور حکومت کے وہی وزیرداخلہ ہیں نا جن پر جنگ گروپ کے اخبارات میں خالصتان کے حامی سکھوں کی لسٹیں راجیو گاندھی کو دینے کے میاں نواز شریف اور نون لیگ کے بھونڈے الزام کی تشہیر کی گئی اور خصوصی کالمز لکھوائے گیے تھے؟

About The Author