نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سندھ میں عزت کمانے کے لئے سندھی ہونا ضروری نہیں۔۔۔ سہیل میمن

شہر کا پڑھا لکھا سندھی ہو یا گاؤں کا ان پڑھ، سائنسدان ہو یا سیاستدان، سب ڈاکٹر ادیب سے بے انتہا محبت کرتے ہیں

سندھ کی مٹی بھی عجیب ہے، جس نے بھی اس دھرتی کو صدق دل سے اپنایا، اس کو سندھ نے اتنی عزت دی ہے کہ لوگوں کی صدیون کی تھکن اتر جاتی ہے۔ اس سارے معاملے میں سب سے اھم بات یہ ہے کہ سندھ میں عزت اور محبت کی اس معراج پر پہنچنے کے لئے نسلاّ سندھی ہونا بھی ضروری نھیں۔ سندھ کی آج کے دور کی سب سے محترم اور بلا شرکت غیرے ہر کسی کی سرتاج شخصیت شاہ عبدالطیف بھٹائی ہے۔ یہ ہی شاہ لطیف ہوں یا جدید سندھی قومپرستی کے بانی سائیں جی ایم سید دونوں نسلاّ غیر سندھی ہیں، مگر اس دھرتی میں فنا فی السندھ ہوکر دونوں سندھ کی تاریخ میں اپنی جگہ بنا گئے۔

ذوالفقار بھٹو کو ہی لے لیں، ان کے بڑے پنجاب کے آرائیں تھے، مگر سندھ میں بھٹو کی جو حیثیت ہے، وہ ناقابل یقین حد تک بے حد ہے۔ عبدالستار ایدھی، نسلاّ گجراتی تھے، مگر اس دھرتی کے لوگ ان کو سندھ کا بیٹا بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ سینکڑوں مثالیں ہیں، جس سے ثابت ہوگا کہ سندھی اکثریت کسی کو قبول کرنے اور سر آنکھوں پر بٹھانے کی بہت بڑی صلاحیت اور قدرتی گنجائش رکھتی ہے۔

آج کل ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی سندھ میں دیو مالائی عزت رکھتے ہیں، سندھ کے پڑھے لکھے دانشور ہوں یا سندھ کا ایک بہت بڑا نام مرحوم ابراھیم جویو صاحب جو نوے سال کی عمر میں بھی ڈاکٹر ادیب کے سامنے بصد عزت و احترام اور محبت ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوتے تھے۔

شہر کا پڑھا لکھا سندھی ہو یا گاؤں کا ان پڑھ، سائنسدان ہو یا سیاستدان، سب ڈاکٹر ادیب سے بے انتہا محبت کرتے ہیں، ڈاکٹر ادیب نے کیا ہی کیا ہے، گردوں کے علاج کے اسپتال ہی تو بنائے ہیں، پر سندھ اس پر ان کو محسن سندھ کا لقب دے چکی ہے اور اس کے لئے یہ بھی کسی کے وھم گمان میں بھی نہیں کہ ڈاکٹر ادیب نسلاّ سندھی ہے کہ نہیں یا ان کو سندھی بولنا آتی بھی ہے کہ نہیں۔ لوگوں پر ڈاکٹر ادیب کا ایسا جادو چڑھ گیا ہے کہ کروڑوں روپے لے کر گھوم رہے ہیں آئین سر ہمارے شہرمیں اسپتال بنائیں فی سبیل اللہ۔ اربوں کی قیمتی زمین ان کو آفر کی جا رہی ہے۔

آج کل سوشل میڈیا پر دھوم مچی ہوئی ہے کہ مٹیاری کے حاجی عبدالرزاق میمن نے ڈاکٹر ادیب کو سات کروڑ روپے کیش اور اپنی قیمتی دس ایکڑ زمین مٹیاری شہر میں اسپتال بنانے کے لئے ادیب صاحب کو دی ہے، جس کا کل سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔

اتنا پیسا اور پلاٹ لیکر حاجی عبدالرزاق میمن ڈاکتڑ ادیب صاحب سے ٹائم لینے کے لئے ان کے پیچھے گھومتے رہے۔ بڑے عرصے بعد میمن صاحب کو ادیب صاحب سے ملاقات کے صرف دس منٹ ملے۔ اور ان دونوں فرشتہ صفت لوگوںمیں جو گفتگوں ہوئی وہ سننے کے لائق ہے

حاجی عبدالرزاق میمن کہتے ہیں کہ ڈاکتڑ ادیب صاحب سے ہمیں دس منٹ ملے، ان کی بڑی نوازش ہوئی۔

کس مٹی کے بنے ہیں یہ لوگ بھائی؟ سات کروڑ نقد اور دس ایکڑ قیمتی زمیں لیکر، فی سبیل اللہ دینے والے کی زبان میں جھکاؤ تو ملاحضہ فرمائیں، میمن صاحب مزید کہتے ہیں، ادیب صاحب نے پیسے اور پلاٹ قبول کرنے کی ایک شرط رکھی کہ ہماری ٹیم آئے گی۔ وزٹ کرے گی، اگر مناسب ہوا تویہ اسپتال بنائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے مزید فرمایا، کہ یہ جو زمین آپ دے رہے ہیں، کیا کمرشل ہے، یا اس کے پیچھے کوئی اور بات ہے؟ تو میں نے کہا

 سائیں، کوئی کمرشل نہیں ہے، ہم فی سبیل اللہ دے رہے ہیں۔ اور پیسے بھی اس میں لگانے کے لئے تیار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا، کہ یہ زمین آپ کلیم کریں گے، میں نے کہا ہمارا کوئی دعویٰ نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، تو بھائی بتاؤ، آپ کا شرط کون سا ہے؟ میں نے بولا کوئی شرط نہیں ہے۔ جب میں اللہ کے نام پہ یہ چیز دے رہا ہوں تو شرط کون سی۔ نہ ہی ان غریبوں سے شرط ہے جن کا علاج ہوگا۔ یہ کسی ایک ذات، قوم مذہب کے لئے نہیں، انسان ذات کے علاج کے لئے ہے، مسلم ہو، غیر مسلم ہو، اچھوت ہو یا کوئی اور۔

نہ ہمیں اس پہ سیاست کرنی ہے، نہ سیاست کی بات کرنی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا، آپ کا کوئی بھی واسطہ نہیں ہوگا۔ میں نے کہا ہمارا کوئی بھی واسطہ نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا آپ لکھ کر دیں گے، میں نے کہا، ہاں ہم لکھہ کر دیں گے اور جو آپ کہں گے وہ ہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بہت خوش ہوئے، میری ان سے اور ان کی ٹیم سے گزارش ہے کہ میرا یہ غریبانہ نذرانہ قبول کریں۔ میمن صاحب کا کہنا ہے کہ خدا کی قسم ڈاکٹر صاحب عظیم انسان ہیں اور ہمیں میٹنگ کے جو دس منٹ دیے تھے، اس میں ایک گھنٹہ سے زیادہ ہو گیا اور وہ ہم سے ڈسکس کرتے رہے۔

میمن صاحب، بتاتے ہیں کہ میرے ساتھ میٹنگ میں ایک رفیق نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کی کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو اس اسپتال کو سندھ انسٹیٹوٹ آف یورالاجی کے ساتھ ہماری والدہ کا نام اٹیچ کر دیں تو؟ حاجی عبدالرزاق میمن کہتے ہیں میں نے بیچ میں کہا کہ سائیں، نہ بس جو چاہیں آپ رکھیں، ہم ان کے نام کی ایک اور اسپتال بنائیں گے، تو ڈاکٹر صاحب کی عظمت کو سلام، انہوں نے کہا، ایک نام نہیں دو نام دو تو بھی چلے گا۔

About The Author