نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جس کے لیے قسم توڑی تھی۔۔۔رؤف کلاسرا

چشتیاں بہاولپور کے صاحبزادہ محمد حسن‘ جو اَب بچوں کے ساتھ اسلام آباد رہتے تھے‘ کی اچانک موت نے ایک عجیب صدمے سے دوچار کیا ہے۔ ان کے چھوٹے بیٹے وجدان حسن کا افسردہ میسج امریکہ میں ملا کہ بابا نے اتنی جلدی کی کہ انہیں hug کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔جواب دینے کی ہمت نہ ہوئی۔
میری زندگی میں بہت کم لوگ ہوں گے جن سے میری پہلی ملاقات میں ایسی دوستی ہوجائے کہ یوں لگے برسوں کی دوستی ہے۔ صاحبزادہ حسن سے بھی کچھ ایسا ہی تعلق بنا اور اچانک بنا۔ان سے تعارف کی وجہ ان کا بڑا بیٹا شاہ جہاں بنا تھا‘ جو چند برس پہلے کینیڈا سے واپس آیا تو اس نے ہمارے دوست شاہد بھائی سے کہا کہ اس نے مجھ سے ملنا ہے۔ شاہد بھائی کا فون آیا کہ رئوف بھائی وقت نکالیں‘ ایک فین آپ سے ملنا چاہتا ہے۔آپ کو عجیب لگے گا ‘ لیکن کچھ عجیب سی طبیعت ہے ‘کوئی کہے کہ وہ میری تحریروں یا شوز کا مداح ہے تو میں ملنے سے کتراتا ہوں۔ جو لوگ آپ کو دور سے اچھے لگتے ہیں انہیں نہ ملا کریں۔ دور کے ڈھول سہانے۔ ایک رومانس رہنے دیا کریں ‘ ورنہ آپ مایوس ہوں گے۔ اکثر آپ کے ہیرو لوگ اندر سے کھوکھلے نکلتے ہیں۔ گفتار کے غازی۔ ایک بت ٹوٹتا ہے‘ جس کی گونج کئی دن سنائی دیتی ہے‘ لیکن شاہد بھائی کو انکار ممکن نہ تھا۔
شاہ جہاں سے ملاقات ہوئی تو شاہد بھائی کا بعد میں شکریہ ادا کیا کہ ذہین اور خوبصورت نوجوان سے ملوایا ۔ شاہ جہاں جیسی ذہانت میں نے اس کی عمر کے نوجوانوں میں کم دیکھی ہوگی۔ وہ بعد میں مجھے کینیڈا سے سیاسی ایشوز پر ایسے ایسے میسجز کرتا کہ میں اس کی اجازت سے اس کے کمنٹس اپنے شوز تک میں استعمال کرتا۔ میں اکثر شاہ جہاں کو کہتا :چھوڑو کینیڈا اور یہاں پاکستان میں سیاست کرو‘تم ایک سمجھدار اور کامیاب سیاستدان بنو گے۔وہیں سے شاہ جہاں کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی اور پہلی ملاقات ہی میں دوستی ہوگئی۔ درمیانہ قد مگر چہرے پر سٹالن سٹائل مونچھیں دیکھ کر بندہ ان کا گرویدہ ہوجائے۔ اِن کی مونچھیں دیکھ کر مجھے نعیم بھائی یاد آتے اور میں اکثر نعیم بھائی کی مونچھ کا شکار ہوکر اِن سے ملنے چلا جاتا۔ ایک ان کا بہاولپور سے تعلق ‘اوپر سے مونچھیں نعیم بھائی جیسی اور پھر وہ ریاست بہاولپور کی میٹھی سرائیکی بولتے۔
اتنی میٹھی سرائیکی کم سنی ہے لیکن وجدان اور شاہ جہاں نے بتایا کہ کبھی بہت غصیلے تھے۔ ان کے غصے کی کہانیاں سن کر ایک دن میں نے کہا :سر جی پتہ ہے آپ مجھے کبھی کبھار جنگ عظیم دوم کے کرنل لگتے ہیں۔ ہنس ہنس کر دُہرے ہوجاتے۔ ان کی بیگم صاحبہ پنجابی سپیکنگ اور وہ خود سرائیکی۔ خود وہ برج اسد سٹار کے تھے اور بیگم صاحبہ برج جدی۔ مجھے سٹار کو پڑھنے کا شوق ہے اور اکثر انہیں کہتا: کرنل صاحب پھر تو گھر میں ٹھاہ پھاہ ہوتی ہوگی۔ ایک سرائیکی پنجابی کا جھگڑا اوپر سے برج جدی اور برج اسد کا ملاپ۔ ہنس ہنس کر کہتے: آپ کو کیسے پتہ چلا۔ ان کے بچوں نے بھی ماں اور باپ دونوں کی زبانیں سیکھیں۔ ایک دن انہوں نے خوبصورت چپل پہنی ہوئی تھی‘ میں نے کہا:کرنل صاحب بہت سوہنڑی چپل پہنی ہوئی ہے۔ ہنس کر کہا:ڈیرے سے منگوائی ہے۔ کچھ دنوں بعد ان کا بیٹا وجدان میرے دفتر نئی چپل دے گیا کہ ابو نے بھجوائی ہے۔
وہ چشتیاں‘ بہاولپور سے اسلام آبادبچوں کے لیے شفٹ ہوئے۔ کچھ تکلیفیں یہاں دیکھیں‘ لیکن انہیں ان تکلیفوں پر رولا نہیں ڈالتے دیکھا۔ بچوں سے جتنا پیار وہ کرتے تو انہیں اکثر کہتا کہ باپ لیو ہو اور بچوں کو خراب نہ کرے۔ بچوں کے ساتھ مل کر وہ وہ کام کرتے جس کا ان کی ماں کو بھی پتہ نہ چلتا۔ ایک دفعہ بتانے لگے کہ بیٹی کو بلی پالنے کا شوق ہوا‘ لاہور سے خاص منگوائی گئی اور اس نے رات گئے پنڈی پہنچنا تھا۔ ماں کو بلی سے جتنی چڑ تھی‘ بچوں کو اتنا ہی پیار۔ بیٹی کے ساتھ رات گئے چوری چھپے نکلے تاکہ بیگم کو پتہ نہ چلے۔
شاہ جہاں کی شادی ہونی تھی اور مجھے کہا: آپ نے بہاولپور ضرور آنا ہے۔ میں نے شاہ جہاں اور وجدان کو ایک ایسی بات بتائی کہ وہ قائل ہوگئے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر چلیں شادی پر بہاولپور نہ آئیں۔ میں نے انہیں کہا: بہاولپور اتنا عزیز ہے جتنی میری بستی‘ کیونکہ نعیم بھائی 1977-78ء میں وہاں قائداعظم میڈیکل کالج میں پڑھنے گئے تھے اور 2013ء میں موت تک وہیں رہے۔ ہم سب ان کے پاس وہاں آتے جاتے رہتے‘ اب ان کی موت کے بعد اس شہر میں کبھی نہیں جا سکوں گا۔ میں نے کہا: میرا نفسیاتی مسئلہ ہے‘ اس شہر اب کبھی نہیں جا سکوں گا۔ شاہ جہاں اور وجدان یہ سن کر خاموش ہوگئے۔ بولے: آپ کی بات میں وزن ہے ‘کچھ دن بعد حسن صاحب کا اپنا فون آیا۔ کہنے لگے: مجھے بچوں نے آپ کی مجبوری بتائی ہے ‘لیکن میری مجبوری بھی سن لیں‘ میرے بڑے بیٹے کی شادی ہے‘میرے گھر کی پہلی شادی ہے‘ آگے آپ کی مرضی۔
میں نے ایک لمحے کیلئے خود کو حسن صاحب کی جگہ رکھا اور اپنے بڑے بیٹے کو شاہ جہاں کی جگہ‘ مجھے لگا انکار کرنا برا شگون ہوگا۔ میں نے کہا: جی ضرور آئوں گا۔ بعد میں شاہ جہاں اور وجدان نے بتایا کہ جب ہم نے کہا کہ وہ نہیں آ سکتے تو بولے کہ رئوف بھائی کے بغیر شادی کیسے ہوگی ۔ اگلے ہفتے شادی کیلئے ملتان کی فلائٹ لی‘ وہاں سے اپنے دوست جمشید کی منت کی‘ وہ بہاولپور لے گیا۔ نعیم بھائی کی یاد ستاتی رہی اور میں آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا۔ اپنے بھتیجے ڈاکٹر احمد حسین کے ہوسٹل گیا‘ اسے ساتھ لیا اور شادی ہال کا رخ کیا۔ جو خوشی حسن صاحب کے چہرے پر دیکھی وہ بیان نہیں ہوسکتی۔
ایک دفعہ وجدان نے کہا: بابا اپنے ٹیسٹ نہیں کراتے چاہے کچھ بھی کہتے رہیں۔ وہ بچوں کی ہر بات پر ان سے بلیک میل ہوجاتے تھے‘ لیکن جہاں بات لیب ٹیسٹ کرانے کی آتی تو پکڑائی نہ دیتے۔ بچے پریشان ہوئے اور مجھے کہا کہ آپ کو ناں نہیں کریں گے۔میں ان سے ملا اور کہا: کرنل صاحب آپ سے کام ہے‘ بولے جی رئوف صاحب حکم۔ میں نے کہا: اگر آپ نے کل اپنے ٹیسٹ نہ کرائے تو آپ ہمیں کھو بیٹھیں گے۔مسکرائے اور بولے: لگتا ہے وجدان نے چغلی کی ہے۔ وہ بندہ جو اپنے بچوں کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا‘ میری ایک پیار بھری دھمکی پر تیار ہوگیا اور اگلے دن سب ٹیسٹ کرائے۔ مجھے اپنے ملتان کے پیارے باقر شاہ صاحب یاد آئے۔ وہ بیمار ہوئے توہسپتال علاج اور ٹیسٹ کرانے سے انکاری ہوگئے۔ پورے گھر نے زور لگایا‘ نہ مانے۔ آخر مجھے پتہ چلا تو شاہ جی کے ساتھ پانچ منٹ لگائے‘ کچھ لاڈ کیا‘ کچھ محبت بھری دھمکیاں دیں فوراً مان گئے۔ شاہ جی کے اپنے بچے افتخار‘ پارس‘ وقار اور غفار حیران کہ آپ کیسے ان ضدی بزرگوں کو منالیتے ہیں۔ میں نے کہا‘ یہ راز رہنے دیں۔
عرصے بعد یہی فن دو مشکل لوگوں ‘ڈاکٹر شیر افگن اور ڈاکٹر بابر اعوان پر آزمایا۔ مشترکہ دوست حیران ہوتے کہ یہ دونوں تو کسی کی بات نہیں سنتے یامانتے۔ اب ہمارے کرنل حسن کو سانس رُکنے کی تکلیف ہوئی۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا ۔ جو کچھ وہاں ہوا وہ آپ پچھلے کالم میں پڑھ چکے ہیں۔ ان کے بچے جس صدمے کا شکار ہیں وہ بیان نہیں کیا جاسکتا کہ چنگا بھلا بندہ ہسپتال لے کر گئے اور لاش واپس آئی۔ کارڈیالوجسٹ نہیں آ سکتا تھا تو ہسپتال میں بچوں کو بتا دیتا کہ کہیں اور لے جائیں جہاں کارڈیالوجسٹ موجود ہو۔ الٹا کوشش کی گئی کہ زیادہ دیر وہیں لٹکایا جائے تاکہ بل زیادہ بنے۔ پتہ چلا کہ ہمارے صحافی دوست فصیح الرحمن کی موت بھی ہارٹ اٹیک سے اسی ہسپتال میں‘ ایسے ہی حالات میں ہوئی تھی۔
ہمارا کرنل جدا ہوا۔ ایک ایسا شاندار انسان جس میں مجھے نعیم بھائی کی مونچھوں کی جھلک نظر آتی تھی اور جب نعیم بھائی کے لیے اداس ہوتا تو ان سے مل لیتا۔وہ بندہ بہاولپور میں جس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کے لیے مجھے اپنے قسم توڑنی پڑ گئی تھی۔ اس بے حس کارڈیالوجسٹ اور ہسپتال انتظامیہ کو اندازہ نہیں کہ ان کی بے حسی‘ نااہلی اور غفلت نے اس کے بچوں پر تو ظلم کیا ہے‘ ہمارے جیسے دوست بھی صدمے کی حالت میں ہیں۔ اگر میں نے ان کے کہنے پرنعیم بھائی کی وفات کے بعد بہاولپور نہ جانے کی قسم توڑی تھی تو کچھ تو تھا اس خاندانی ریاستی میں۔

About The Author