پاکستان میں میڈیا مالکان اور بڑے بڑے کلغی والے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جس دائیں بازو کی مذھبی جماعتوں سے سابق وابستگی رکھنے والے، بائیں بازو کے سنٹر اور فار گروپوں سے اپنی لیفٹ پہچان کے ساتھ صحافتی کیرئر کا آغاز کرنے والے اور ایسے ہی پہلے دن سے لبرل پہچان کے ساتھ آنے والے صحافی شامل ہیں نے لبرل این جی اوز کے ساتھ ملکر علاقائی لبرل اسٹبلشمنٹ یعنی لبرل پریس اینڈ لبرل سول سوسائٹی اور پھر عالمی لبرل اسٹبلشمنٹ یعنی عالمی لبرل پریس و لبرل سوسائٹی جس کی قیادت امریکہ کرتا ہے کے ساتھ اشتراک بنایا اوراس اشتراک کو کمرشل بنیادوں پر سلطنت شریفیہ کے ظل اللہی میاں محمد نواز شریف نے خرید کیا جو خود سعودی عرب اور امریکہ کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے ساتھ ساتھ وہ ہندوستانی صنعتی و مالیاتی سرمایہ کاروں سے بھی بڑے رابطے میں تھے-
پاکستان کا یہ کمرشل لبرل مافیا نواز شریف کی جانب سے اپنے ہر ایک ممکنہ حریف کو چت کرکے سلطنت شریفیہ کو ناقابل تسخیر بنانے کے پروجیکٹ کی تکمیل میں پروپیگنڈے کا محاذ سنبھال کر بیٹھ گیا-
پاکستان پیپلزپارٹی جو سیاست کے میدان میں نہ صرف مسلم لیگ نواز کی حریف تھی وہ اسٹبلشمنٹ کے پنجوں سے کمزور جمہوری نظام کو محفوظ کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا تھی نے بارہ اکتوبر 1999ء کے بعد سے نواز شریف کو مسلسل قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ جمہوریت کو مضبوط بنانے کے لیے انتخابات سے پہلے اور بعد میں میچ فکسنگ کے عمل کو ترک کردیں اور 2008ء سے 2012ء تک پی پی پی نے موقعہ فراہم بھی کیا-
لیکن نواز شریف نے اپنی عادت ترک نہ کی اور پھر 2013ء سے 2018ء کے درمیان پی پی پی نے نواز شریف کو موقعہ دیا کہ باوجود اس کے کہ یہ اقتدار کیانی – افتخار چودھری کے گٹھ جوڑ سے نواز شریف نے لیا تھا لیکن نواز شریف نے پی پی پی کو اپنی طرف سے پنجاب، کے پی کے اور بلوچستان سے فارغ کرکے سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود کرنے کے بعد، اس ملک کے سب سے طاقتور میڈیا گروپوں کو اپنی ہمہ وقت خدمت پر مامور کرکے، ریاست کے طاقتور ستون عسکری اسٹبلشمنٹ کو مکمل طور پر اپنے کنٹرول میں کرنے کے لیے مہم جوئی کا آغاز کیا اور اسے جمہوریت کی بالادستی اور آخر میں ‘ووٹ کو عزت دو’ کا نام دیا-
نواز شریف ایسا کوئی ارادہ سرے سے رکھتے نہیں تھے- کیونکہ اگر وہ آزاد عدلیہ چاہتے تو پی پی پی کے دور میں اٹھارویں ترمیم میں آئینی وفاقی عدالت کا قیام کرسکتے تھے جو میثاق جمہوریت کی اہم شق تھی- وہ آئی ایس آئی کو وزرات داخلہ کے ماتحت کرنے کی سمری کی حمایت کرسکتے تھے، وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے لیے ججز کی نامزدگی میں وزرات قانون کو بااختیار بنانے کی پالیسی کی حمایت کرسکتے تھے اور ایسے ہی فوج،عدلیہ کو نیب کے تحت احتساب کے دائرے میں لگاسکتے تھے……
یہ کام نواز شریف 2013ء سے اپنی نااہلی سے پہلے بھی کرسکتے تھے کیونکہ پی پی پی پی تیار تھی لیکن ان کا مسئلہ پارلیمنٹ کی بالادستی، عدلیہ کی آزادی اور فوج و نوکر شاہی کو آئین کے تابع کرنے کا تھا ہی نہیں بلکہ عدلیہ، فوج اور ایجنسیوں کو ایک خاندان کی خدمت پر مامور کرنا تھا اور اپنے مدمقابل کسی بھی سیاسی قوت کو نہ آنے دینا تھا-
پاکستان کا طاقتور میڈیا گروپوں کا ایک گروہ جو کمرشل لبرل میڈیا کی تشکیل کرتا ہے اُس نے سول سوسائٹی کے کمرشل لبرل کے ساتھ مل کر خود کو ایک مافیا میں بدل ڈالا جو سمجھتا تھا کہ وہ عالمی لبرل اسٹبلشمنٹ سے اپنے روابط اور وہاں سے ملنے والی طاقت کے بل بوتے پر پاکستان میں سلطنت شریفیہ کی ہر لڑائی کو مکمل فتح سے ہمکنار کردے گا اسی بیک فائر کا شکار ہوا جس کا شکار نواز شریف ہوا ہے-
یہ جمہوریت، آزاد صحافت کی جنگ نہیں بلکہ طاقتوروں کے درمیان پاور گیم ہے جس میں طاقتور اسٹبلشمنٹ ہوئی ہے کیونکہ دوسرے فریق نے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے اور پارلیمنٹ کے زریعے سے ضروری قانون سازی کے موجود مواقع ضایع کردیے-
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور