مڑنج ڈیم کی تعمیر نہ ہوسکی کوہ سلیمان علاقہ پچادھ اور ضلع راجن پور کا مغربی علاقہ اور دیگر نشیبی علاقے کئی دنوں سے کوہ سلیمان پر جاری طوفانی بارشوں کے سبب زیر آب اور انڈس ہائی وے کے پارمشرقی جانب دریائی کٹائو کے عمل کے سبب یہاں کے عوام شدید پریشانی اور مشکلات کا شکار ہیں
ضلع راجن پور میں کئی دہائیوں سے تعمیر ہونیوالے مڑنج ڈیم کی تعمیر ایک خواب بن کر رہ گئی۔ سابق صدر پاکستان مرحوم سردارفاروق احمد خان لغاری کے دور حکومت سے اور سابق و موجودہ سدا بہاراراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے اب تک ہر سال اسکی تعمیر کا سنتے آرہے ہیں اور مبینہ طورپر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے بقول اب تک اس پر 74 کروڑ روپے ضائع ہوچکے ہیں جبکہ فزیبلیٹی رپورٹس اور پی سی ون بننے کے باوجود بھی یہاں کئی سالوں اور کئی حکومتوں کے آنے جانے کے باوجود یہاں کی غریب و مجبور اور بے بس و لاچارعوام کی زبوں حالی کا حکمرانوں کو احساس تک نہ ہوسکا
اسکے برعکس کروڑوں روپے کے فنڈز فائلوں کی نذر ہوچکے۔ حالانکہ وزارت آبی وسائل کی ویب سائٹ پر یہ منصوبہ تاحال ویٹنگ لسٹ میں ہے جبکہ کوہ سلیمان سے ہرسال آنیوالے جانی و مالی نقصان کے موجب درہ کاہا،
درہ چھاچھڑ،درہ پتوخ،درہ سوری شمالی،درہ سوری جنوبی زنگی کے قاتل خونی سیلابی ریلے ہر سال فصلات کی تباہی و بربادی کیساتھ انسانی جانوں ، مال مویشیوں اور انسانی بستیوں کو تہس نہس کر دیتے ہیں اور کئی کئی دنوں تک مختلف علاقوں کا آپس میں زمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔
اور لاکھوں کیوسک پانی محفوظ نہ ہونے کے سبب نقصان پہنچانے کیساتھ ساتھ کوہ سلیمان علاقہ پچادھ سے ہوتا ہوا لنڈی سیدان لعل گڑھ،بکھر پور، سونواہ حاجی پور شریف فاضل پور،راجن پور سے ہوتا ہوا کوٹ مٹھن شریف خواجہ غلام فرید رحمتہ اللّہ علیہ کی دھرتی کے راستے سے دریائے سندھ کا حصہ بننے کیساتھ گڈو بیراج،سکھربیراج،کوٹری بیراج سے ہوتا ہوا سمندر کی نذر ہوجاتا ہے۔
آج بھی جب یہ تحریر لکھ رہا تھا تو ایک محتاط اندازے کے مطابق ان دروں سے 45سے 50ہزار کیوسک پانی کا اخراج ہورہا تھا۔ اس سلسلے میں اہل علاقہ اور متاثرین کاہا،چھاچھڑ، پتوخ،سوری شمالی ،سوری جنوبی زنگی کے سیلابی ریلوں کا کہنا ہے اگر مڑنج ڈیم کی تعمیر میں کوئی روکاوٹ ہے تو حکومت وقت کو چاہیئے کہ مزید چھوٹے چھوٹے ڈیمز بناکر ہمیں اس مصیبت و پریشانی سے نجات دلائی جائے تاکہ آنیوالے دنوں میں ہم اپنی فصلات، گھروں،بستیوں،مال مویشیوں اور جانوں کے تحفظ کو یقینی بنا سکیں۔
حالانکہ محکمہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی سطح پر فعال ہے اسے موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب یہاں پر فوری ایکشن لینا چاہیئے اور اس طرح کی قدرتی اور ناگہانی آفات سے نبرد آزما ہونیکا کوئی منظم اور موثر میکنیزم ،حکمت عملی مرتب کرنی چاہیئے تاکہ اہل علاقہ کو فوری ریلیف اور آسانی میسر ہوسکے اسکے برعکس قدرتی آفتوں سے متاثر ہونیکے بعد جب تک کوئی چیخ و پکار نہ کیجائے کوئی مددگار و معاون یا پرسان حال نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر بدقسمتی دشوار گزار اور انتہائی پسماندہ علاقہ ہونیکے سبب میڈیا کی بھی جلد رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
اب جبکہ وزیر اعلی پنجاب کی زیر صدارت اجلاس میں چھوٹے ڈیمز بنانے کی باتیں ہورہی ہیں تو اس سلسلے میں پرزور مطالبہ ہے کہ فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او ) کے توسط سے ان ڈیمز کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے تاکہ کرپشن اور سست روی کا بھی خاتمہ ہوسکے دیر پا اور معیاری کام کیساتھ ساتھ ملک و قوم کے قومی خزانے کے ضیاع کو بچایا جاسکے جو کہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کیونکہ مڑنج ڈیم اور مزید چھوٹے چھوٹے ڈیمز کی تعمیر سے جہاں جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے گا وہیں مستقبل میں ہونیوالی قیمتی پانی کی کمی کے خاتمہ اور پن بجلی کے منصوبوں کے قیام کیساتھ ساتھ سینکڑوں خاندانوں کو روزگار کے مواقع بھی مہیاء ہونگے اور ہزاروں ایکڑ بنجر علاقے کو زیر کاشت لاکر ملک وقوم کی معاشی صورتحال کو بھی بہتر بنانے میں معاونت ہوگی۔
اس سلسلے میں وزیراعظم پاکستان عمران خان،وزیراعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار،گورنرپنجاب،منسٹر ایری گیشن پنجاب ،وفاقی وزیر آبی وسائل،چیف سیکریٹری پنجاب،چیئرمین واپڈا،متعلقہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی،ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی،کمشنر ڈی جی خان اور ڈپٹی کمشنر راجن پور چاہیں تو اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور زرائع کیمطابق اسسٹنٹ کمشنر جامپور سیف الرحمن بلوانی دستاویزی طور پر اس پر کافی ورک بھی کر چکے ہیں اور ہزاروں خاندانوں اور لاکھوں جانداروں کی دعائیں لے سکتے ہیں۔
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی