سرمدؒ نے کہا
”جو زندگی عطا کرتا ہے وہ اقرارسے زیادہ بندگی اور بندگی سے زیادہ بندوں سے محبت کی توقع کرتا ہے“
بندوں سے محبت بارے سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ فرماتے ہیں
”خالق کو مخلوق سے بڑھ کر کوئی پیارا نہیں‘ جو اس کی مخلوق سے رشتہ جوڑے اسے اس کے ہاں درجوں پر درجے ملتے ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ خالق کے ہاں بلند درجہ چاہے یا خود پسندوں میں شمار ہو“۔
سرمدؒ ہوں کہ سرخ پوشؒ‘ ان انسان دوست صوفیاءنے شرف آدمیت اور محبت کی تبلیغ ہی کی۔
ان میں سے ہر صاحب کمال نے خالق کی مخلوق سے محبت کو افضل ترین قرار دیا۔ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا وہ جو انسانوں کو ذات پات‘ فرقے‘ رنگ و نسل اور دوسری اقسام کی تقسیموں کے دھندوں میں نسل در نسل جُتے ہوئے ہیں‘ شکم سے بندھی سوچ سے آگے کی بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے؟
شکم سے بندھی سوچ ہمیشہ تعصب‘ خودپسندی کو پروان چڑھاتی ہے۔ تعصب کے سوتے جہل سے پھوٹتے ہیں۔
علم تو روشنی ہے۔ تازگی‘ امید اور صراط مستقیم کی سمت رہنمائی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے سماج اور عہد میں جینے پر مجبور محض ہیں جہاں صراط مستقیم کے معنی تک بدل ڈالے گئے۔
ہر طبقہ اور فرقہ اپنی اپنی صراط مستقیم لئے ہوئے ہے جو اس کے رہنما و پیشوا کے گھر سے خوابوں کی دہلیز تک ہے۔ جب کبھی اس دوغلے پن پر کڑھتا ہوں فقیر راحموں یہ کہہ کر دلاسہ دیتا ہے”صراط مستقیم اقرار سے شروع ہوتی ہے۔ بندگی‘ محبت و احساس‘ علم اور خدمت اس کے پڑاﺅ ہیں۔ ایک سے دوسرے پڑاﺅ یا آغاز سے اختتام تک ثابت قدمی سے چلنے اور تعصب و جہالت سے محفوظ رہ کر نفرتوں کو پاس نہ پھٹکنے دینے والے سرخرو ہوتے ہیں۔
یہاں معاملہ عجیب ہے اپنا سچ اور دوسرے کی ہر بات جھوٹ۔ زعم یہ ہے کہ ہم ہیں نہ بس‘ ہم ہی تو ہیں کوئی اعلیٰ و ارفع مخلوق اور سارا انتظام ہمارے لئے ہی تو ہے۔ ارے بھائی! کیوں یہ سب آپ کے لئے ہوا۔ کوئی سُرخاب کے پَر لگے ہیں آپ میں؟ ذرا چار اور نگاہیں دوڑاکر ساعت بھر کے لئے دیکھئے تو پھر فیصلہ کیجئے کہ جس راہ پر چل رہے ہیں یہ صراط مستقیم ہے بھی یا خواب فروش ہانکتے جارہے ہیں؟
اقرار کا نغمہ ہو‘ بندگی کا حق یا نور علم سے رہنمائی کا فہم‘ یہ اس طور ممکن ہے جب کج بحثی‘ کم ظرفی سے محفوظ رہا جائے۔
حافظ شیرازیؒ نے اس لئے تو کہا تھا ”میخانے کی دہلیز کے اس پار کم ظرف کی جگہ نہیں ہے“۔
میخانے کی دہلیز اصل میں ظرف مندوں اور کم ظرفوں کا حساب تمام کرتی اور پول کھولتی ہے۔
بہت سال بیتے جب ایک دوست نے کہا تھا” یار شاہ یہ تُو میخانے کا ذکر بہت کرتا ہے کبھی دہلیز کے اس پار اترا بھی ہے؟” عرض کیا
کیا محض مدہوشی‘ جام و ساغر سے ہی میخانہ بنتا کہلاتاہے۔
عزیز جاں! زندگی کے میخانے میں کتابوں کے اوراق‘ اساتذہ کے دروس اور ایثار ہی انسان کے ظرف کا پتا دیتے ہیں۔ یہ اور ہی مکتب کی باتیں ہیں لوگ بلاوجہ چیں بچیں ہوتے ہیں۔ مکتب فرزانگی کی باتیں۔ دو جمع دو سے چار یا چھ بنانے اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے صبح و شام کردینے والے کیا سمجھیں گے۔
شکم پرستوں نے اس دہلیز پر جو ہنگامے اٹھائے ہیں ان پر تڑپ کر فراز گویا ہوئے تھے
کچھ اہل ستم کچھ اہل حشم میخانہ گرانے آئے تھے
دہلیز کو چوم کے چھوڑ گئے دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے
تُلسی داس نے تو اس سے بھی عجیب بات کہی
”نجانے لوگ میخانہ سے مراد وہ مقام کیوں لیتے ہیں جہاں خودفراموشی سر چڑھ کر ناچتی ہے۔ یہ تو وہ مقام ہے جہاں فکر کے نئے در وا ہوتے ہیں“۔
اشعاروں کی اپنی دنیا ہے۔ اس کی الف ب کو سمجھے بغیر ہائے ہو بلاسبب ہے۔ حسین لوائی کہتے ہیں
”میخانہ و حرم دونوں میرے اندر آباد ہیں“۔
الگ اٹھارکھتے ہیں اس موضوع کو بہت خشک ہے۔ سچ یہ ہے کہ یار کے ”کوچہ“ کو راہ یہیں سے نکلتی ہے۔ سمجھنے والوں کے لئے اس میں بہت کچھ ہے اور جو نہ سمجھنا چاہیں ان کے لئے جلاپے کی آگ جس میں عمر بھر جلتے رہیں۔
حافظ شیرازیؒ نے کہا تھا
”مجھے میخانے میں ڈوب کر سراغِ زندگی ملا“ وہ شیرازی تھے جنہیں سراغ زندگی مل گیا۔
اقرار کا نغمہ الاپنے کے لئے جس فرزانگی کی ضرورت ہے وہ بھاﺅ تاﺅ سے ملتی تو سمجھئے کیا ہوتا۔ فرزانگی کی بُکل اوڑھنے کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
ناتمامی سے تمامی تک کا سفر آدمی کو کبھی سولی چڑھواتا ہے کبھی جلاد کی تلوار کے نیچے شوق سے سر رکھواتا ہے۔ اورکبھی کھال کھنچتی ہے ، کبھی کُند خنجر سے گلا کٹتا ہے۔
عشق کے مرحلے ہوں یا پالینے کا مقام‘ فتح مند اہل ظرف ہی ہوتے ہیں۔
دو عشروں سے اوپر کا وقت بیت گیا جب ایک پہر نابغہ روزگار اور دانائے عہد سید سبط حسن سے عرض کیا‘ کیا لکھنے والا محض اپنے لئے لکھتا ہے؟
مسکراتے ہوئے بولے
”خود ستائی کے لئے لکھنے والے اپنی تحریروں کے بندی خانے میں دفن ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کے لئے لکھا جائے اور اس صورت میں ایک بھی شخص کو راہ مل جائے تو حق ادا ہوجاتا ہے“۔
مطلب یہ ہوا کہ تحریر میں چھپا پیغام ایک دروازہ کھلوانے میں بھی کامیاب ہوجائے تو محنت وصول۔
مرشدی سید بلھے شاہؒ نے کہا
”گرانے کا سودا سر میں سماجائے تو مسجدومندر سمیت جو گراسکتے ہو گرادو مگر کسی انسان کا دل توڑنے سے قبل سو بار سوچنا کہ ”دل تو رب کا گھر ہے“۔
شاہؒ کے افکار سے مُلا اور پنڈت دونوں کی روزی روٹی بند ہوتی تھی اس لئے دونوں نے فتوﺅں کی چاندماری کی۔
کالم کے دامن میں گنجائش کم ہے اور طالب علم کو پھر سے حافظ شیرازی یاد آرہے ہیں لیکن ساعت بھر کے لئے رک کر عمر خیام سے مل لیجئے۔ عمر خیام کہتے ہیں
”دوئی کو پاٹنے کے لئے گردن اتروانے کا حوصلہ ہو تو اس راہ پر آﺅ۔ کم حوصلہ لوگوں کو تو سات کوس سے راستہ بدل لینا چاہیے“۔
حافظ شیرازیؒ کہتے ہیں
” فرزانگی یہ ہے کہ طلب دنیا کے لئے نہیں بلکہ حسنِ دنیا اپنانے کے لئے قربان ہونے کا حوصلہ ہو“۔
سچل سرمستؒ سے سوال ہوا حضور حسنِ زندگی کیا ہے؟ فرمایا
”زندوں کے دردوالم کو محسوس کر کے مداوے کے لئے اپنی قربانی پیش کرنے میں پہل کرنا“۔
اب یہاں کتنے لوگ ہیں جو پہل کرپائیں گے قربانی میں؟ ہم تو دوسروں کی قربانیوں پر اپنا سکہ چلاتے ہیں۔
اُگلے ہوئے لقموں سے دہن بھرنے والے کیا سمجھیں گے فرزانگی کو۔ اپنے بچوں کے سکھ کے لئے دوسروں کے بچوںکوبلی چڑھانے والوں سے پوچھ لیجئے سب سمجھ میں آجائے گا۔
اقرار کا نغمہ الاپنے کے لئے جس فرزانگی کی ضرورت ہے وہ بھاﺅ تاﺅ سے ملتی تو سمجھئے کیا ہوتا۔ فرزانگی کی بُکل اوڑھنے کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ