پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو پچھلے کچھ عرصہ سے لاہور میں ہیں، اس دوران انہوں نے محنت کشوں’ خواتین اور کارکنوں کے اجتماعات کے علاوہ اپنی جماعت کے سوشل میڈیا مجاہدین کے ایک گروپ سے خطاب کیا۔
اپنے نانا کے دور سے پارٹی کیساتھ منسلک چند خانوادوں سے ملاقاتیں کیں۔ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں پیپلز پارٹی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے گروپ سے ملاقات کے علاوہ لاہور پریس کلب کے پروگرام ”میٹ دی پریس” میں خطاب کیساتھ صحافیوں کے سوالوں کے جواب بھی دئیے۔
بلاول کے خیال میں سیکولر جمہوریت تک پہنچنے کیلئے سوشل ڈیموکریسی کا راستہ اپنانا پڑے گا۔
ان کے میڈیا معاونین نے لاہور کے بلاول ہائوس میں ان سے صحافیوں کے ایک گروپ کی ملاقات بھی کروائی،
اس ملاقات میں وہ بزرگ صحافی بھی شامل تھے جنہوں نے 1971ء سے 1977ء کے دوران اپنے جریدوں میں بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور نانی بیگم نصرت بھٹو کیخلاف منظم انداز میں کردارکشی کی مہم چلائی تھی۔
انہی بزرگ نے بھٹو کی پھانسی پر شکرانے کے نوافل ادا کئے اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کیلئے خدائی فوجدار کا کردار سنبھال لیا۔
تیسرے مارشل لاء کے دوران ان کے جریدے میں جنرل ضیاء الحق کو محسن پاکستان نقیب اسلامی نظام اور مرد آہن کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔
دوسرے صاحب نواز لیگ کے پنجاب میں دس سالہ دوراقتدار میں پی ایچ اے میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے، کچھ وہ تھے جو سول سپرمیسی کے مجاہدین کی شہرت رکھتے ہیں۔
وسطی پنجاب میں پیپلز پارٹی کیلئے نظریاتی ہم آہنگی کی بناء پر نرم گوشہ رکھنے والے صحافی دستیاب نہیں۔
چند ایک اگر ہیں بھی تو وہ طبقاتی خلیج کے باعث اس ملاقات کا حصہ نہ بن سکے جس میں بھٹو کے خون کے پیاسے’ نون لیگ کے دور کے ملازمین اور سول سپرمیسی کے مجاہدین شامل تھے۔
پیپلز پارٹی کے میڈیا معاونین کہتے ہیں’ مخالف گروپ کے صحافیوں سے ملاقات میں کوئی برائی نہیں۔
بالکل بھی نہیں کیونکہ چشم فلک یہ منظر بھی دیکھ چکی کہ جن میڈیا ہائوسز کے اخبارات وجرائد نے محترمہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت میں انہیں بھارت کا ٹوڈی’ ملک دشمن’ مغرب زدہ’ اسلام دشمن اورنجانے کیا کیا لکھا’ محترمہ کی پہلی برسی کے موقع پر ان میڈیا ہائوسز کے مالکان وملازمین کو خصوصی طیارے میں بھر کر لاڑکانہ لے جایا گیا اور برسی کے اجتماع کے مرکزی سٹیج پر پہلی صف میں بٹھایا گیا۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں آج جس مقام پر کھڑی ہے اس میں بہتری کی گنجائش ہے کہ نہیں؟
یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کے پاس 1988ء سے 2018ء کے درمیانی برسوں میں عموماً اور پھر 2008ء سے 2018ء کے درمیانی برسوں میں خصوصی طور پر کئے گئے زہریلے پروپیگنڈے کا عوامی سطح پر توڑ کرنے اور حقائق سامنے لانے والے متحرک قائدین (صوبائی سطح کے) موجود ہیں؟
آگے بڑھنے سے قبل یہ بات سمجھ لیجئے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں سیاسی شناخت تو رکھتی ہے لیکن رائے دہندگان میں پُرجوش اثر ورسوخ نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ نون لیگ نے جو پیپلز پارٹی کی دشمنی میں سیاسی جماعت کے طورپر منظم ہوئی اور پنجاب میں اس نے بھٹو مخالف ووٹ بینک کو اپنے جھنڈے کے نیچے جمع کیا وسائل کا استعمال کرتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے پرجوش حامی پیدا کئے،
انہی مختلف شعبوں میں پیپلز پارٹی کے ہمدردان آپ اُنگلیوں پر شمار کرسکتے ہیں۔
یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں دانشور صدر اور سیکرٹری تو موجود ہیں مگر دونوں صلح کُل بننے کے چکر میں وہ کردار ادا نہیں کر پا رہے جو ایک جماعت کے صوبائی صدر اور سیکرٹری کا ان حالات میں ہونا چاہئے۔
خود بلاول کو بھی صورتحال کا احساس ہو رہا ہے اسی لئے انہوں نے عزیز الرحمان چن کی قیام گاہ پر کہا
”میں جب بھی لاہور آتا ہوں سینکڑوں سلفیاں بنائی جاتی ہیں مگر کام کچھ نہیں ہو رہا”۔
کام کیسے ہو اور اس صورت میں خصوصاً جب پارٹی کا صوبائی سیکرٹری لاہور میں اپنی ” شاموں” کے محفوظ ٹھکانے کے میزبان کو حریت فکر کا مجاہداعظم بنا کر بلاول سے ملوائے اور کہے کہ بس اب ہم میڈیا کے محاذ پر دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیں گے۔
دوسری طرف پارٹی کے سوشل میڈیا مجاہدین کے ایک پرانے سرخیل سوشل میڈیا پر پارٹی کے بعض عہدیداروں کے خاندانی عقیدوں کو لے کر مخالفانہ مہم چلا رہے ہوں۔
پنجاب میں پیپلز پارٹی کے حامیوں کا بڑا حلقہ نوازشریف کی نفرت میں سیاسی ہجرت کر کے تحریک انصاف میں چلا گیا اور بڑے خاندان روایتی سیاسی ہجرت کی نظر ہو کر تحریک انصاف میں جمع ہوگئے۔
چند فعال شخصیات کو ”پراسرار ٹیلیفون”آئے اور وہ اگلے دن تحریک انصاف میں تھیں، اب حکومت میں اہم منصبوں پر فائزہیں،
ایسے حالات میں پیپلزپارٹی کی بحالی کیلئے پرانی اشرافیہ کے خانوادوں اور انجمن متاثرین سول سپرمیسی سے روابط بڑھانے سے زیادہ عوامی ایشوز پر سیاست اور پارٹی کے بچے کھچے کارکنوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے،
مثلاً صرف لاہور میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں شاہی قلعہ اور دیگر عقوبت خانوں میں بدترین حالات کا سامنا کرنے والے لگ بھگ دوسو پرانے کارکن ہیں ان کارکنوں کی بلاول سے ملاقات کا اہتمام کیوں نا کیا گیا۔
کیا محض اسلئے کہ ان میں سے زیادہ تر سفید پوش طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
بجا ہے کہ سیکولر جمہوریت تک پہنچنے کا سفر سوشل ڈیموکریسی کے راستے مکمل ہوگا لیکن کیا سوشل ڈیموکریسی کی جدوجہد چند سیمیناروں، مخصوص ملاقاتوں سے مکمل ہوگی۔
بہت ضروری ہے کہ بلاول بھٹو عوامی رابطہ مہم کیساتھ پرانے کارکنوں کو فعال بنانے کیلئے مؤثر اقدامات کریں۔ ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بلاول جب لاہور میں ہوں ہفتہ میں کم ازکم ایک دن عام کارکنوں اور ہمدردوں سے ملاقات کیلئے مختص کیا جائے۔
میڈیا کے محاذ پر پارٹی کا جوابی بیانیہ پیش کرنے کیلئے پارٹی اپنی مؤثر ٹیم بنائے۔ مزدوروں، کسانوں، طلباء اور خواتین کے ونگز کیساتھ پنجاب شہری علاقوں میں ٹریڈرز (تاجران) کے ہم خیال گروپس کو فعال کیا جائے۔
پچھلے تیس سال کے دوران پیپلزپارٹی کیخلاف ہونے والے زہریلے پروپیگنڈے کا مؤثر اور شائستہ انداز میں جواب دیکر عوام کے سامنے حقائق لائے جائیں۔
فعالیت، انقلابی خطوط پر جدوجہد اور پارٹی کے اصل ترقی پسند سماج اور نظام کے قیام کی جدوجہد کو مرکزی اہمیت حاصل ہو
بصورت دیگر بلاول پنجاب میں آتے جاتے رہیں گے۔ دورے ہوں گے، تقاریر اور ملاقاتیں بھی مگر پارٹی کی پنجاب میں نشاط ثانیہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر