سرائیکی وسیب کی دھرتی صوفیا کرام سے بھری پڑی ہے۔ لیہ کے تحصیل چوبارہ میں 4 سو قبل اسلام کی روشنی پھیلانے والے معروف صوفی بزرگ حضرت عنایت شاہ بھی انہیں اولیا اللہ میں سے ایک ہیں۔
حضرت عنایت شاہ کے 377 ویں دو روزہ عرس کی تقریب چوبارہ میں ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ امسال بھی عرس پر ہزاروں عقیدت مند اور زائرین کی کثیر تعداد پہنچی اور اپنی منتیں مرادیں مانگیں ۔
سجادہ نشین دربار عالیہ ڈاکٹر مخیتار سید اور ایم پی اے شہاب الدین خان نے چادر چڑھائی۔
عقیدت مندوں کا کہنا تھا کہ وہ سالوں سے عرس پر آرہے ہیں اور یہاں آ کر دلی و روحانی سکون پاتے ہیں۔
روحانی پیشوا سیدعنایت شاہ کے عرس کی تقریبات آج شام کو اختتام پزیر ہونگی اس کے بعد عنایت شاہ میلہ کا آغاز کر دیا جائے گا جو تین روز تک جاری رہے گی۔
حضرت عنایت شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ ؒ آپ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ حضرت شہباز قلندر سندھڑی کے خلیفہ تھے۔ حضرت عنایت شاہ کے شہباز قلندر سے خرقہ وخلافت پایا اور انھیں ان کی خدمت گزاری سے ہی باطنی فیض حاصل ہوا ۔
روایت کی جاتی ہے کہ حضرت عنایت شاہ صاحب لعل شہباز قلندر کے لنگر کیلئے پانی بھرا کرتے تھے اور آپنے جس مٹکے میں پانی بھرا وہ آج بھی شہباز قلندر مزار پر محفوظ ہے۔
اگراس روایت کو سندمانا جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ لیہ میں پیر اصحاب کے بعد سب سے پہلے آنے والے ولی اللہ حضرت عنایت شاہ صاحب تھے کیونکہ حضرت لعل شہباز قلندر اور حضرت بہاوالحق ذکریا ہم زمان وہم عصر تھے ان بزرگان دین کا دور تیرھویں صدی عیسوی تھا اس لیے حضرت عنایت شاہ بخاری کا اطراف لیہ میں آنا تیرھویں صدی ثابت ہوتاہے۔
جب حضرت شہباز قلندر نے سید عنایت شاہ بخاری کو خرقہ وخلافت عطافرمایا آپکو حکم دیا کہ علاقہ تھل میں جاکر لوگوں میں تبلیغ کاکام سرانجام دیں آپ نے اپنے مرشد کے حکم سے وداع ہو کرفتح پور کے نزدیک ایک بستی میں آکر ڈیرہ لگایا۔ درخت کے نیچے ڈیرہ لگایا آپکا زیادہ تر وقت عبادت میں گزرتاتھا کئی کئی دن مراقبے کی حالت میں گزر جاتے تھے۔ کری کے اس درخت میں شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنارکھا تھا آپ جب کچھ کھاناچاہتے تو شہد کی مکھیاں چھتے سے اڑجاتیں آپ چھتے سے ضرورت کے مطابق شہد لے لیتے تو مکھیاں پھر چھتے پر بیٹھ جاتیں۔
ایک مرتبہ آپ کہیں گئے ہوئے تھے ایک ہندوگڈوریا بھیڑیں چراتا ہوا اس جگہ آگیا ۔ اس نے کری میں شہد کا چھتہ دیکھاتو دھواں دے کر مکھیاں اڑادیں اور ٹہنی پر چھتہ لگا ہوا تھا وہ کاٹ لی اتنے میں شاہ صاحب بھی تشریف لے آئے آپ نے اسے روکا کہ شہد کو نہ کھاؤ لیکن ہندونے ان کی بات نہ مانی اور شہد کھانا چاہا لیکن شہد کی چھلی جو نہی گڈریے کے دنتوں سے لگی وہ پتھر کی شکل اختیار کرگئی اور اس پر دانتوں کے نشان بھی لگ گئے آج بھی وہ پتھر آپ کے مزار پر موجود ہے۔
اس علاقے میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر ایک عورت مسلمان ہوگئی گوکہ وہ خفیہ مسلمان ہوئی تھی لیکن کسی طرح سے ہندووں کو اس عورت کے مسلمان ہونے اور آپ سے عقیدت رکھنے کا پتہ چل گیا۔ ہندووں نے منصوبہ بنایا کہ شاہ صاحب کو قتل کردیا جائے اس کیلے پر چار طاقتور آدمی مقرر کیے گئے رات کے وقت جب وہ آپکے جھونپڑے میں شہید کرنے کے ارادے سے داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے کہ عنایت شاہ صاحب کے اعضاء سارے جھونپڑے میں بکھرے ہوئے تھے وہ یہ دیکھ کر بھاگ گئے لیکن جب صبح ہوئے تو لوگوں نے دیکھا کہ شاہ صاحب زندہ سلامت ہیں۔
جن ہندووں نے آپکو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا انھوں نے آپکوزندہ دیکھا تو ان کی قسمت جاگ اٹھی وہ مسلمان ہوگئے پھر تو لوگوں میں ایسا اعتقاد بڑھا کہ ساری بستی مسلمان ہوگئی۔ جب آپ نے وفات پائی تو آپ کو اسی جگہ دفن کردیا گیا۔
حضرت عنایت شاہ صاحب کا شجرہ یوں بیان کیا جاتا ہے۔ عنایت شاہ بن ہاشم شاہ حسن شاہ حسن شاہ بن بنی شاہ بن سید بہاون شاہ بن شیخ فتح محمدبن شیخ مخدوم فرید الدین بن عبدالخالق بن عبدالجلیل بن ابو الفتح بن عالم الدین بن حامد شاہ بن محمدشاہ بن ابوالفتح بن شیخ عبداللہ بن معزالدین بن علاوالدین بن زین العابد ین بن سید نا امام حسین۔
بشکریہ اولیائےلیہ
اے وی پڑھو
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون