وطن عزیز پاکستان میں گذشتہ چند سالوں کے دوران ہی سرائیکی اجرک کی بلاتفریق قبولیت اور مقبولیت اس بات اور حقیقت کا ٹھوس ثبوت ہے کہ خطہ سرائیکستان کے عوام اپنی دھرتی اپنی مٹی کی شناخت کے پیاسے تھے اور ہیں. بلاشبہ شناخت ایک بڑی اہمیت کی حامل اور وقت کی ضرورت چیز ہے. شناخت کا حق خود اللہ تعالی نے انسانوں سمیت کائنات کی ہر چیز کو عطا کیا ہے. زبان ہو یا لباس، طور اطوار ہوں یا ثقافت کا کوئی بھی پہلو ہو، دنیا ہو یا آخرت نیک و بد اپنے اپنے اعمال اور اپنی اپنی شناخت کے ساتھ ہوں گے. قانون قدرت کو نہ ماننا بہت بڑی جہالت، گمراہی اور تباہی ہے. اسلام ایک ضابطہ حیات ہے اور حیات کے اندر سب کچھ آ جاتا ہے. ہمارے کسی کو تسلیم کرنے اور کسی کو تسلیم نہ کرنے سے حقیقتیں نہیں بدل جاتیں. اللہ تعالی کی پیدا کردہ یا اللہ تعالی کی پیدا کردہ مخلوق میں سے کسی کی پیدا اور تخلیق کردہ چیز کے وجود کو تسلیم نہ کرنا شیطان اور شیطانی ٹولے کا کام ہے. تکبر میں انتہا کے مبتلا، غاصب اور استحصالی سوچ، کردار اور عمل کے حامل گروہ ہی اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں. دوستو میں شاید آج کے موضوع سے کافی آگے نکل گیا ہوں واپس آتے ہیں
سرائیکی اجرک سرائیکی وسیب میں نیلےنیلے رنگ کی یہ چادر کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سرائیکی اجرک کا نیا جنم ہے.جو قبضوں اور ثقافتوں کی یلغار میں گم ہو گئی تھی. خیر اس کا تاریخی پس منظر بھی میرا آج کا موضوع نہیں ہے.خطہ سرائیکستان، وطن عزیز پاکستان سمیت دنیا بھر میں وسیب سے تعلق و نسبت رکھنے والے عوام 6مارچ کو سرائیکی ثقافتی تہوار سرائیکی اجرک ڈے گذشتہ چھ سات سالوں سے بڑے جوش و خروش کے ساتھ منا رہے ہیں.ظہور احمد دھریجہ، پروفیسر شوکت مغل، راقم اور ان کے دیگر احباب کی جانب سے نئے جنم کے بعد سرائیکی اجرک ڈے کو باقاعدہ منانے کا آغاز جو ملتان سے شروع ہوا تھا دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک اور دنیا میں پھیل چکا ہے. ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے عوام اپنی دھرتی کے اس شناختی و ثقافتی تہوار کو بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے نظر آتے ہیں.اپنی شناخت.، سچی سانجھ اور باہمی محبتوں کا یہ دن سرائیکی وسیب کے اجتماعی تہوار کی حیثیت و مقام حاصل کر چکا ہے. اگر دیکھا جائے تو وسیب کے لوگ وقت کے حاکموں، وقت کے منصفوں، وقت کے پردھانوں کو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اس دیس میں ہم بھی ہیں ہمارا بھی حصہ ہے. ہمیں بھی تسلیم کجیئے ہمیں بھی ہمارا حصہ اور حق دیجئے.
6مارچ کو سرائیکی اجرک ڈے کی چھوٹی بڑی سینکڑوں تقریبات منعقد ہوتی ہیں. ایک سے بڑھ کر ایک. دیر آید درست آید. آج میں ڈسٹرکٹ بار رحیم یار خان میں اس ثقافتی دن کے حوالے سے ہونے والی تقریب پر بات کرنا چاہتا ہوں.انہیں یہ دوسرا سال ہے. پاکستان بھر میں یہ ڈسٹرکٹ بار رحیم یار خان کا اعزاز ہے.بار کی گذشتہ کابینہ حسان مصطفی ایڈووکیٹ کی صدرات کے بعد اب کی بار برادر رائے مظہر حیسن کھرل اور ان کے جنرل سیکرٹری سردار غلام غوث خان کورائی اور ان کے ساتھیوں نے اس ریت اور روایت کو مزید خوبصورت انداز میں آگے بڑھایا ہے.سرائیکی اجرک ڈے کے علاوہ 5مارچ کو ڈسٹرکٹ بار میں اپنا صوبہ اپنا اختیار کا نعرہ لگا کر حکومت بنانے والے حکمرانوں کو اپنا وعدہ یاد کروانے کے لیے اپنا سرائیکی صوبہ سیمینار کروایا ہے جوکہ خوش آئند بات ہے.خطے کے حقوق اور اپنے حصے کے وسائل کے حصول کے لیے علیحدہ سرائیکی صوبہ یقینا وقت کی اشد ضرورت ہے. ویسے دیکھا جائے تو سیاسی استحکام اور متوازن پاکستان کے لیے صوبوں کا متوازن ہونا بہت ہی ضروری. ایک ٹریکٹر کا پہیہ اور تین کار کے پہیوں کے ساتھ گاڑی کا چلنا مشکل ہے.تخت لاہور وسیب کے حصے کے وسائل بھی شیر ِمادر سمجھ کر پیئے اور نگلے جا رہا ہے. سینیٹ کی سیٹیں ہوں یا خواتین کی ایم پی اے اور ایم این اے کی مخصوص سیٹیں ہوں، اقلیت کی سیٹیں ہوں یا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی سرائیکی وسیب کے حقداروں کو حق نہیں ملتا.ممتاز مصطفی، ایم عبدالمنان بھٹی اور چودھری بشیر احمد جج کیونکر نہیں بنائے گئے. سردار عبدالباسط خان، ظفر خان ترین، چودھری منظور وڑائچ جج کیوں نہیں بن سکتے.ایسے سوالات، استحصال اور حقوق کے غاصب کیے جانے کی ایک طویل فہرست ہے.قصہ مختصر چھٹکارے، تحفظ اور بچاؤ کا صرف اور صرف ایک ہی حل ہے علیحدہ سرائیکی صوبہ
مذکورہ بالا دو پروگرام کروانے پر میں ڈسٹرکٹ بار کی موجودہ کابینہ کی سوچ اور کاوش کو سلام پیش کرتا ہوں. بلاشبہ وکلاء کی آواز طاقت ور اور موثر آواز ہے.ملتان بار کے بعد رحیم یار خان بار نے صوبے کے حوالے سے بھر پور آواز اٹھا کر تاریخ میں اپنانام اچھے الفاظ سے رقم کروا لیا ہے. آج مجھے ایم عبدالمنان بھٹی ایڈووکیٹ کا دور صدارت بھی شدت سے یاد آ رہا ہے. مختلف قسم کی اور مختلف موضوعات پر اس دور میں ہونے والی تقریبات یقینا اپنی مثال آپ تھیں. علم وادب تفریح و ثقافت قانون و سیاست سبھی رنگ تھے. شروعات بتا رہی ہیں کہ رائے مظہر حسین کھرل اور ٹیم سابقہ تمام ریکارڈ توڑ ڈالیں گے.ویسے تاریخ سے شغف رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ کھرل جھکنے اور بکنے والے نہیں، اپنے لوگوں کے ساتھ جینے مرنے والے، اپنی دھرتی کے وفادار، مجاہد اور جنگجو لوگ ہیں. میں سمجھتا ہوں کہ پانچ مارچ کا اپنا صوبہ سیمینار اور چھ مارچ کا ثقافتی تہوار سرائیکی اجرک ڈے کا اہتمام کرکے پوری ڈسڑکٹ بار نےعوام کے دلوں کی ترجمانی کرکے عوام میں اپنی عزت، وقار اور احترام میں زبردست اضافہ کیا ہے.
محترم قارئین کرام، ایک دوسرے کی ماں ہو یا زبان، مسلک ہو یا ثقافت باہمی احترام، باہمی رواداری یہ محبتوں کے فروغ، امن اور بھائی چارے کو قائم رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے. باہمی سانجھ اور یکجہتی بھی شرکت اور شراکت داری کا تقاضا کرتی ہے.یاد رکھیں سندھی، سرائیکی، بلوچی، براہوی پشتو، پنجابی ہندکو وغیرہ یہ تمام ثقافتی مل کر ہی وطن عزیز کی پاکستانی ثقافت بنتی ہیں. یہ سبھی اپنی اپنی خوشبوؤں اور مختلف رنگوں ساتھ ایک ہی گلدان اور گلدستے کے پھول ہیں.اگر پھولوں کو ایک ایک کرکے باہر نکال ڈالا جائے تو پیچھے صرف دان اور دستہ ہی بچتا ہے. انہیں کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے.باہمی احترام اور محبت میں ہی کشش اور طاقت ہے.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر