اسلام آباد:اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی اداروں میں تشدد کے خلاف درخواست کا فیصلہ آئندہ سماعت پر سنانے کا فیصلہ کرلیا۔
تعلیمی اداروں میں تشدد کیخلاف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری نے جواب جمع کرایااور بتایا کہ تشدد کے خاتمے کیلئے وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دے دی ہے جو پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا تھا لیکن وزارت داخلہ نے اعتراض کیا ہے کہ یہ بل وزارت انسانی حقوق کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ اور بل اسلامی نظریاتی کونسل کو ارسال کرنے کی سفارش کردی۔
درخواستگزار نے موقف اپنایا کہ دوہزار گیارہ میں بھی قانون سازی کی کوشش کی گئی لیکن نہ ہوسکی۔ اب موجودہ حکومت میں بھی کام رک گیاہے، کہیں نہ کہیں کچھ مسئلہ ہے۔
پینل کوڈ کی سیکشن 89 کی دوبارہ تشریح کی ضرورت پر زور دیا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ بچوں پر تشدد کے تمام واقعات اسلامی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہیں جسمانی سزا سے بچے پر منفی اثرات پڑتے ہیں زمانہ بدل چکا ہے، بچوں کو زیادہ عزت دینا ہو گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ یہ شرم کی بات ہے کہ ہمارے مسلم معاشرے میں بچے محفوظ نہیں۔
سرعام پھانسیاں دینے سے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے رویے بدلنا ہوں گے۔
عدالت نے قرار دیا کہ وفاقی کابینہ گزشتہ سال مارچ میں بچوں پر تشدد روکنے کا بل منظور کرچکی لیکن اب تک پارلیمنٹ کو ارسال نہ کیا جاسکا۔ وزارت قانون افسر مقرر کرے جو 12 مارچ تک اسکی وجوبات بیان کرے۔
اے وی پڑھو
ریاض ہاشمی دی یاد اچ کٹھ: استاد محمود نظامی دے سرائیکی موومنٹ بارے وچار
خواجہ فرید تے قبضہ گیریں دا حملہ||ڈاکٹر جاوید چانڈیو
محبوب تابش دی درگھی نظم، پاݨی ست کھوئیں دا ||سعدیہ شکیل انجم لاشاری