نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغانستان، جنگ کے پلٹتے سائے۔۔۔ محمود جان بابر

خاکم بدہن صورتحال بالکل اسی مقام پرپہنچ گئی ہے جہاں پر روس کے افغانستان سے نکل جانے کے وقت تھی۔

ہفتے کے روز امریکہ اور افغان طالبان کے مابین دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کے وقت مشرق ٹی وی کی خصوصی ٹرانسمشن کے دوران کابل سے ہمارے ساتھ ٹیلی فون پر موجود ایک مہمان نے ایک عجیب بات کہی کہ آج کابل میں لوگوں کی زبانیں خوشی اور ٹینشن دونوں کی وجہ سے بند ہیں، تو ہمیں بڑا عجیب لگا کیونکہ خوشی کی تو سمجھ آرہی ہے کہ افغانستان میں امن کا سورج طلوع ہورہا ہے لیکن عوام کی ٹینشن اور تناؤ والی کیفیت سمجھ نہیں آئی۔ پھریکے بعد دیگرے دو تین واقعات نے ہمیں اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کر دیا کہ آخر افغان طالبان نے دوحہ میں آنے والے افغان حکومت کے وفد سے ملاقات سے انکار کیوں کیا؟
ہمیں تب ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ بات بنتے بنتے کہیںکسی مقام پر بگاڑ کی طرف جائے گی۔ پھر افغانستان کے سابق اور موجودہ ”زیرتنازعہ” صدر اشرف غنی نے عین معاہدے کے وقت کابل میں تقریب کا انعقاد کرکے یہ احساس دلانے کی کوشش کی کہ دوحہ میں مذاکرات کے فریقین امریکہ اور افغان طالبان کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ افغانستان کے عوام نے ووٹ اشرف غنی اور ان کے پیچھے کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کو دیا ہے، پھر اگلے ہی روز اتوار کو اس احساس کو مزید تقویت دینے کیلئے معاہدے کی پہلی ہی شق کو ماننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جن پانچ ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کی بات اس معاہدے میں کی گئی ہے وہ تو اس معاہدے کے اہم فریق امریکہ کے دائرہ اختیار ہی میں نہیں آتا۔ ایسا کرکے دراصل موجودہ افغان حکومت یا حکومت کے دعویداروں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مذاکرات وہ نہیں تھے جو امریکہ اور افغان طالبان کے بیچ ہوئے بلکہ اصل مذاکرات وہ ہوں گے جو طالبان اور ان کے بیچ ہوں گے۔ کتنا عجیب لگ رہا تھا کہ ایک دوسرے کا وجود تک تسلیم کرنے سے انکاری اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ ایک دوسرے کی جیت کو تسلیم کرنے کیلئے تو تیار نہیں اور ہر صورت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے پوری طرح سرگرم ہیں لیکن امریکہ طالبان معاہدے کی صورت میں خود کو انتہائی مخدوش
حالت میں پاکر دونوں ایک ہی سٹیج پر بیٹھنے کو تیار ہو گئے۔ کسے یاد نہیں کہ اشرف غنی کیخلاف اپنی جیت کا اعلان کرنے والے سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کی جیت کا اعلان کرنے والے افغان الیکشن کمیشن کے اراکین کے افغانستان سے باہر جانے پر پابندی کا نوٹیفکیشن تک جاری کر دیا تھا اور ایک دوسرے کیخلاف ہر حد تک جانے کیلئے تیار تھے۔
لیکن اس صورتحال میں دونوں کے ہاتھ خالی رہ جانے کے خوف نے انہیں ایک سٹیج پربیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ خود ان دونوں انتخابی مخالفین کو اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ امریکہ نے معاہدہ کرکے اپنا دامن تو مزید آگ سے بچا لیا ہے اور ایسا کرتے ہوئے اس بات کا خیال تک نہیں رکھا گیا کہ جن طالبان نے اس معاہدے پر دستخط کئے وہ عام افراد یا ایک انجانا گروہ نہیں بلکہ وہی امارت اسلامی افغانستان ہے جو آج سے قریباً اٹھارہ سال پہلے افغانستان کے حکمران تھے اور ایسا کرکے دراصل امریکہ نے اپنے ہی ہاتھوں دہشت گردوں کی حمایت کے الزام میں گرائی ہوئی حکومت کو اسی مقام سے دوبارہ تسلیم کرلیا ہے جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا۔ امریکہ نے نہ صرف انہی طالبان کیساتھ معاہدے پر دستخط کئے بلکہ ان کی مستحکم حیثیت کو تسلیم کیا۔ اب اگر دیکھا جائے تو ان طالبان کے مقابلے میں کسی بھی گروہ یہاں تک کہ منتخب حکومت ہونے کے دعویداروں کی بھی کوئی حیثیت نظر نہیں آرہی۔ معاہدے کے وقت بھی یہی لگ رہا تھا کہ طالبان کو جیسے حکومت سے زیادہ اس بات کی جلدی ہو کہ انہیں اسی حیثیت میں تسلیم کیا جائے جس حیثیت میں انہیں اقتدار سے محروم کیا گیا تھا۔ یہ بات تو بچوں کو بھی سمجھ آرہی ہے کہ امریکہ نے طالبان کو قیدی رہا کرنے کا وعدہ دے کر افغان حکومت کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں اور اب بڑا سوال یہ ہے کہ افغان حکومت اگر طالبان کیساتھ مذاکرات کرتی بھی ہے تو وہ طالبان کو ان مذاکرات میں ایسا کیا دے سکتی ہے جس کیلئے طالبان ان کیساتھ بات چیت کو اہمیت دیں۔ اس بات کا طالبان کو بھی پورا احساس تھا کہ امریکہ کو افغانستان سے اپنے محفوظ انخلا کیلئے جس ماحول کی ضرورت تھی اس کے ضامن تو کسی حد تک پاکستان اور دیگر دوست ممالک ہوسکتے ہیں لیکن کسی کو سمجھ نہیں آرہی کہ آخرانٹراافغان مذاکرات کیلئے گارنٹر کون ہوگا۔
خاکم بدہن صورتحال بالکل اسی مقام پرپہنچ گئی ہے جہاں پر روس کے افغانستان سے نکل جانے کے وقت تھی۔ اس وقت ایک جنگی انارکی تھی لیکن اب ایک سیاسی انارکی کا امکان پایا جارہا ہے جس کے فریق طالبان اور ان کے مدمقابل افغان حکومت ہوں گے۔ ایسے میں اگرافغان حکومت امریکہ کے طالبان کیساتھ کئے ہوئے وعدے کو پورا کرنے سے انکاری ہوتی ہے تو مستقبل میں امریکہ اپنے سابقہ اتحادی افغان حکومت کی پشت پرکھڑی ہوگی یا موجودہ معاہدے کے فریق طالبان کا ساتھ دے گی، ہمارا اندازہ ہے کہ امریکہ شاید پہلی بار ماضی کے اپنے دشمن طالبان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگا۔
امریکہ کا ساتھ کھو دینے کے بعد افغان حکومت کو صرف ان ممالک کی حمایت ملنے کا امکان ہے جو اس صورتحال میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ حصہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے جن میں ہندوستان سرفہرست ہے لیکن کیا وہ بھی اس صورتحال سے کوئی فائدہ اُٹھاسکے گا یانہیں یہ اب بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ رہی بات پاکستان کی تو یہ تو واضح ہے کہ اس نے امریکہ کو اس مشکل صورتحال سے نکالا لیکن ایک اہم سوال اب بھی درپیش ہے کہ کیا یہی پاکستان اب انٹراافغان مذاکرات میں بھی مدد دے گا یا نہیں؟

About The Author