دنیا بھر میں موسم بہار کا آغاز بانہیں کھول کر کیا جاتا ہے۔ کئی عقائد میں اسے سورج کی واپسی یا دوبارہ زندگی سے بھی تشبیہہ دی جاتی ہے۔ کئی ثقافتوں میں یہ نئے سال کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ یہ موسم دراصل اس زندگی کے پھر سے بحال ہونے کا اشارہ ہوتا ہے جو سخت سردی میں ٹھٹھر کر منجمد ہوچکی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس موسم کو خوشی منا کر تہواروں کے ذریعے خوش آمدید بھی کہا جاتا ہے۔ بہار کا موسم خدا کا دیا ہوا وہ تحفہ ہے جس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے یہ موسم اپنے ساتھ رنگوں کی بارات لیکر آتا ہے جس کی خوبصورتی سے ہر انسان اپنے انداز میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ موسم بہار میں بارش کا ایک چھینٹا پڑ جائے تو اگلے ہی روز شہتوت کے درختوں کی خالی شاخیں کونپلوں سے بھر جاتی ہیں۔ فضاؤں میں تازگی کا ایک احساس جاگ اُٹھتا ہے۔ سبزہ اپنے رنگ کے مختلف درجات میں نمایاں ہوتا ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں میں فرحت کی خنکی بھر دیتا ہے۔ پھولوں کے پودوں پر کلیاں چٹکتی ہیں اور گوناگوں رنگوں کے پھول فطرت کی جمالیاتی حس کو اُجاگر کرتے ہیں۔
جہاں بہار کا موسم سردی اور خزاں کی خشک گھٹن کو دور کرتا ہے اور بھرپور گرمیوں کے آنے سے پہلے پہلے زندگی کو اس رعنائی سے روشناس کراتا ہے جو زندگی میں کچھ کر گزرنے کی امنگ بھرتا ہے۔ وہاں بہار کا موسم صرف ماحول میں تبدیلی نہیں بلکہ روح میں راحت لاتا ہے۔ اگرچہ وہی روحیں راحت سے سرشار ہوتی ہیں جو اس موسم کی پہچان رکھتی ا ور اس آسمانی عطاء کی قدر کرتی ہیں۔ جونہی موسم کی تبدیلی کا وقت آتا ہے نفسیاتی طور پر انسان ہشاش بشاش نظر آنے لگتا ہے بدن میں ایک مسرت کی لہر دوڑنے لگتی ہے، کام میں پھرتی، گھومنے پھرنے، سیر سپاٹے اور رویوں تک سب کچھ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اداس دلوں اور اداس چہروں پر پھولوں کی سی تازگی نکھر آتی ہے۔ یہ وہ موسم ہے جس میں گزرے لمحات برسوں یاد رہتے ہیں۔ بہار کا موسم کھلے پھولوں اور اداس چہروں کا ملاپ کراتا ہے۔ کیونکہ بہار کے موسم میں نکھری ہوئی ہریالی اور رنگا رنگ پھولوں کی خوشبو سے معطر فضا ہرذی روح میں خوشی کا احساس اجاگر کرتی ہے اور سارے ماحول کو خوشگوار بنا دیتی ہے۔ صبح کے وقت جب سورج طلوع ہوتا ہے تو پھولوں کی خوشنما کلیوں اور پتوں پر شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں۔ آئیں ہم بھی موسم بہار کے ان رنگوں کو ہمیشہ ہمیشہ اپنی روح و نظروں میں قید کر لیں۔
ٹھہریں۔ جب ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے جہاں زمین، فضا، ہوا میں تبدیلی ہو رہی ہے وہاں موسم بھی اس ماحولیاتی آلودگی کی بدولت تبدیل ہو رہے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور عوام مل کر اپنے ملک و شہروں کے ماحول کو بہتر بنائیں، درختوں کی کٹائی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ درخت لگائیں، آبی ذرائع کے وسائل کوگندا ہونے سے بچائیں۔ حرارت وآگ کے ذریعے سے ویسٹ کو ضائع کرنے کی بجائے زمین میں دفن کرنے کے منصوبوں پرکام کریں۔ زمین میں زرخیزی کے لئے کیمیکل کھاد کی بجائے دیسی کھاد کا استعمال کریں۔ موسم بہار کے لئے ان اقدامات کو یقینی بنا کر ہی ہم بیان کردہ دلفریب و دلکش موسم کے ساتھ اپنی زندگیوں کوپرکیف بنا سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ خوبصورتیاں، تصورات اور دلکش خیالات کتابوں کا حصہ بن کر رہ جائیں گئی۔
آج کل کی تیز رفتار زندگی میں ہر شخص اتنا مصروف ہے کہ کسی کو موسموں پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ لیکن شاعروں اور تخلیق کاروں کی تخلیق کا مرکز یہی موسم ہوتے ہیں۔ شاعر و ادیب موسموں کی خوشبو محسوس کر کے اپنی تخلیقات کو جنم دیتے ہیں۔ یہی موسم تخلیق کاروں کے فن کو مہمیز کرتے ہیں۔ جہاں خزاں کا موسم شاعر یاسیت یا اداسی سے موسوم کرتے ہیں‘ یعنی اس موسم کو دل کے ٹوٹنے‘ خوابوں کے بکھرنے‘ امیدوں کے دم توڑنے اور ویرانی سے تعبیر کرتے ہیں۔ تو وہاں بہار کو محبوب سے منسوب کرتے ہیں۔ موسم کی تازگی و دلکشی میں ساجن کا وجود نظر آتا ہے۔ جب پھول کھلتے ہیں تو ڈھولے کی خوشبو کا احساس قلمبند کرتے ہیں۔
لیکن شعراء کے لیئے بُری خبر ہے کہ! زمین پر بکھری ہوئی لکیروں میں سمٹے ہوئے دوسو سے زائد ملکوں میں موسم بہار اور خزاں سے لطف اندوز ہونے والے ممالک کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ آئندہ پندرہ بیس سال میں اگر صنعتی ترقی کی یہی رفتار رہی تو بہار کی رنگینی اور خزاں کی سنگینی کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے والوں کا شمار انگلیوں پر ہو سکے گا۔پاکستان میں جو چار موسم ہوا کرتے تھے اور ہمارے شعرائے کرام پھولوں کے کھلنے سے زندگی کے لئے تقویت اور خزاں میں اُجڑے ہوئے درختوں سے اُمیدیں وابستہ کرتے اور جدوجہد کی ترغیب حاصل کرتے تھے۔ وہ شاید اب اُس طرح ممکن نہ ہو۔ شعراء کے ساتھ عام بندہ بھی زندگی کے ایسے چکر میں گھن چکر بن چکا ہے کہ موسمِ بہار کی بجائے دریائے سندھ کنارے صرف“دل بہار قلفی“کھانے اور “بہارو پھول برساؤ“ گانا ہی سنا جا سکتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر