ساجد کاظمی
یہ ۱۰ نومبر ۱۹۹۵ کا ایک منحوس دن ہے جب افریقی ملک نائجیریا کی ناجائز فوجی حکومت کے ایماء پر کینگرو کورٹس کے حکم پر جیل حکام ایک شخص کو تختئہ دار پے لٹکا دیتے ہیں۔ جرم کے خانے میں جو درج ہے وہ سب جھوٹ ہے جبکہ سچ اسکے بلکل بر عکس ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کین کو اپنے لوگوں کے استحصال اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آوازٍ حق بلند کرنے کی پاداش میں تختئہ دار پہ کھینچ دیا جاتا ہے۔
نائجیریا سے ہزاروں میل دور، پاکستان کے علاقے کوٹ ادو میں ۱۴ جولائی ۲۰۱۶ کا دن عام دنوں کی طرح کا ایک معمولی دن ہے۔ سورج روز کے معمول کے مطابق طلوع ہوا ہے، کاروبارِ زندگی معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ غرضیکہ یہ ہر زاویے سے ایک معمولی دن ہے۔ مگر دوپہر کے بعد یہ دن ایک خاندان کے لئے انتہائی غیر معمولی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ ۲۴ سالہ راول لُنڈ مقابلے کے امتحان کی تیاری میں مشغول ہے اور اسکے والد ظفر لُنڈ قیلولہ کر رہے ہیں۔ اسی اثناء میں دروازے پر دستک ہوتی ہے اور دو نوجوان جو اپنے آپ کو غریب ظاہرکرتےُ ہیں اور بظاہر غریب دکھائی بھی دیتے ہیں، راول سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ظفر صاحب سے ملنا چاہتے ہیں تاکہ نوکری کے سلسلے کچھ مدد مل جائے- راول کے بتانے کے باوجود کہ والد صاحب آج کل کوئی اہم پراجیکٹ نہیں کر رہے، ملاقات پہ مصر ہیں۔ گھر آئے ہوئے شخص کو مایوس نہ کرتے ہوئے والد صاحب کو بلوانے کا وعدے کرکے راول ظفر صاحب کو ملاقاتیوں کی آمد سے مطلع کر کے دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد پسٹل کے فائر کی آواز سن کر راول باھر نکلتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اسکے والد کو گولی مار دی گئی ہے۔ وہ دونوں افراد جو ظفر سے ملنے آئے تھے، انہوں نے ظفر کو گھر سے باہر بلوا کر پسٹل سے فائر کر کے قتل کردیا۔ ظفر کو سرکاری جج نے نہیں بلکہ خود ساختہ جج نے خود ہی سزائے موت سنا کر خود ہی اس سزا پر عمل درآمد بھی کر دیا۔ظفر کے جرائم کی لسٹ کین کے جرائم سے بہت مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن اس کے گناہوں میں سنگین گناہ اسکا ایک اقلیتی مذہب سے متعلق ہونا بھی ہے۔
بظاہر کین سارو ویوا اور ظفر لُنڈ میں کوئی تعلق نہیں کیونکہ زمان و مکان کا بُعد ہے، دونوں کی زبان اور ثقافت میں بھی کوئی مماثلت نہیں اور نسل و مذہب بھی جدا جدا ہیں۔ مگر ایک اتنی جاندار حقیقت ان دو شخصیات کو ایک دوسرے کا مماثل بنا دیتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ یک جان دو قالب ہیں۔ یہ دونوں انسانوں کو انکے جائز حقوق دلوانے کی خاطر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
کین سارو ویوا نائجیریا کے اونگونی علاقے کے ایک گاوں بوری میں پیدا ہوا۔ اپنے علاقے سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، کین نے ابادان یونیورسٹی سے انگریزی ادب کی ڈگری حاصل کی اور کچھ عرصہ مختلف اداروں میں پڑھایا۔ اسی دوران نائجیریا میں سول وار پھوٹ پڑی۔ یہ جنگ جولائی ۱۹۶۷ سے جنوری ۱۹۷۰ تک جاری رہی۔ اس دوران کین اپنے علاقے میں واپس چلا گیا۔ اس دوران کچھ عرصے کے لئے کین نے سول ایڈمنسٹریٹر کے فرائض سرانجام دیئے اور کمشنر کے عہدے تک پہنچا۔ بعد میں اسے احساس ہوا کہ فوجی حکومت کا مقصد اپنے اقتدار کو دوام دینا ہے۔ کین نے سرکاری عہدے سے علیحدگی اختیار کر لی۔
کین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ لکھاری اور پروڈیوسر بھی تھا۔ ڈرامہ نگاری میں بھی نام پیدا کیا۔ “باسی کمپنی” کے نام سے اس کی لکھی ہوئی ٹی وی سیریل بہت مقبول ہوئی۔
نائجیریا کے سیاسی حالات پاکستان سے کافی مشابہت رکھتے ہیں جہاں ۱۹۶۰ میں آزادی کے بعد زیادہ عرصے فوجی حکمران اقتدار پر قابض رہے۔ ۱۹۶۶ سے ۱۹۹۹ تک زیادہ عرصے فوجی حکومت قائم رہی۔ جنرل اوبسانجو، جنرل بابانگیدا اور جنرل ثانی اباچا لمبے عرصے تک اقتدار پر قابض رہے۔
یہ جنرل ثانی اباچا کا دور تھا جب کین نے اونگونی قبیلے کے حقوق کی جنگ کو زور و شور کے ساتھ لڑنا شروع کیا۔ اونگونی علاقے میں رائل ڈچ – شیل کمپنی نے تیل کی تلاش اور پائپ لائنیں بچھانے کے دوران علاقے کی ماحولیات کو تباہ و برباد کر دیا۔ تیل اور دیگر کثافتوں نے علاقے کی آبی حیات کو شدید نقصان پہنچایا اور اونگونی لوگوں کا معاش جو ماہی گیری سے جڑا ہوا تھا، اسے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔
کین نے کہا کے اس کی جدوجہد تبدیلی برائے تبدیلی نہیں بلکہ یہ جہاد خود انحصاری کی طرف ایک قدم تھا۔ کین نے اپنے علاقے کے لوگوں کو منظم کیا اور اس نےاونگونی لوگوں کے بچاو کی تنظیم بنا کر ان کو ایک مضبوط طاقت بنا دیا۔ اس تنظیم میں عورتوں کے گروپ، طلباء، قبائیلی بزرگ اور نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ ۔ کین نے اس تحریک کو فلسفیانہ بنیاد فراہم کی اور اس نے عدم تشدد کا پرچار کیا۔ اس کے نتیجے میں ان لوگوں نے اونگونی بل آف رائٹس تیار کیا جو کہ اونگونی حقوق کا صحیفہ قرار دیا جاتا ہے۔
اس جدوجہد نے طاقتور قوتوں بشمول فوجی جنتا کوہلا کر رکھ دیا۔ انہیں لگا کہ اگر یہ تنظیم اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو گئی تو یہ کئی اور ایسی ٹحریکوں کو جنم دے گی اور اسکے نتیجے میں امیر طبقے کے مفادات پر ضد پڑے گے۔ نتیجے کے طور پر نائیجیریا کی فوجی حکومت نے ۲۷ دیہات حملہ کر کے کم از کم ۲۰۰۰ لوگوں کو قتل کردیا اور ۸۰۰۰۰ لوگوں کو علاقہ بدر کر دیا۔ اور اسکے بعد انہوں نے کیں کو پھانسی دے دے۔ پھانسی پانے سے پہلے کین نے یہ دعا کی:
“اللہ میری جان لے لے مگر یہ جدوجہد جاری رہے”
اور ایسا ہے ہوا اور کین کی شہادت کے ۲۵ سال بعد اونگونی دوبارہ اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
اب آتے ہیں ظفر لُنڈ کی طرف۔ ظفر کا تعلق ڈیرہ غازی خان گے قریب ایک بستی شادن لُنڈ سے تھا۔ شادن لُنڈ ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف کے درمیان پہاڑی سلسلے سے ۱۵ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ بستی کے ایک طرف دریائے سندھ اور دوسری جانب ڈیرہ غازی خان کینال اور کچھی کینال بہ رھے ہیں جبکہ انڈس ہائی وے بھی قریب سے ہی گزرتی ہے۔
ظفر نے ابتدائی تعلیم وسیب سے ہی حاصل کی اور اعلی تعلیم کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کیا۔ یہیں پر ظفر بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہو گیا۔ یہیں کراچی میں قیام کے دوران ظفر کو اداکاری کا شوق چرایا۔ اس وقت کے پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائیریکٹر جناب اسلم اظہر نے ظفر کا ٹیلنٹ بھانپتے ہوئے ظفر کو احساس دلایا کہ وہ اداکاری کی خداداد صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ظفر نے کراچی سے واپس آکر چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک سٹریٹ تھیئٹر گروپ کی بنیاد ڈالی۔ اسی تھیئٹر گروپ کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے ظفر نے مختلف سیاسی اور سماجی مسائل کے متعلق لوگوں کا شعور بیدار کرنے کی کوشش شروع کی۔
ماحولیات کی تباہی کے متعلق ظفر کا کہنا تھا کہ ہم نے ماحولیات کو اتنا نقصان پہنچا دیا ہے کہ نہ اب جنگل رہے اور نہ جنگلات میں بسنے والے پرندے اور جانور رہے۔ انسان نے جانوروں کو بھی اپنے ماحول سے بیدخل کردیا۔ بلکہ بقول ظفر، اب وہ جنگل اور پرندے صرف لوک قصوں کہانیوں تک ہی محدود ہو گئے۔
یہیں کسانوں کے ساتھ بیٹھکوں میں ظفر کو ادراک ہوا کہ زرعی ادویات بشمول زرعی زہر کے دلالوں نے کسانوں کو قرضوں کے جال میں جکڑ رکھا ہے۔ ایک طرف تو زرعی ادویات کا غیر ضروری استعمال ماحولیات کو تباہ کر رہا ہے تو دوسری طرف غریب کسانوں کو قرضے کے منحوس جال میں جکڑ چکا ہے۔ کسان اپنی فصل بیچ کر جو آمدن حاصل کرتے ہیں اسکا ایک بہت بڑا حصہ ان قرضوں کو چکانے پر اٹھ جاتا ہے اور جو تھوڑا بہت بچتا ہے وہ ان کی ضروریات کے لئے ناکافی ہوتا ہے۔ اس قرض کو چکانے کے لئے غریب کسان نجی ساہوکاروں سے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو مارکیٹ ریٹ سے کئی سو گنا زیادہ سود لیتے ہیں جبکہ حساب کتاب میں بھی ڈنڈی مارتے ہیں۔
ستم بالائے ستم یہ کہ زرعی ادویات کے دلال نہ صرف ان ادویات کے غیر ضروری استعمال کو فروغ دیتے ہیں بلکہ یہ عمو ماً جعلی ادویات کسانوں کو اصلی ادویات کی قیمت پر بیچ کر دوہرا نقصان پہنچاتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ ادویات ایک طرف تو مؤثر نہیں ہوتیں اور دوسری طرف زیادہ مقدار میں انکا استعمال پیداواری اخراجات میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماحولیات کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوتا ہے۔
اس معاملے میں کسانوں کو آگہی دینے اور انکا شعور اجاگر کرنے کے لیے ظفر نے ہرک ڈویلپمینٹ آرگنائزیشن کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔ ہرک کا لفظی مطلب پہاڑی نالے سے آتے ہوئے پانی کی آواز جبکہ یہ امید کا استعارہ بھی ہے۔ ہرک نے لوگوں کو شعور دیا کہ ان زرعی ادویات کے دلالوں کے ہاتھوں اپنی محنت کی کمائی نہ لٹائیں، زرعی ادویات کا غیر ضروری استعمال نہ کریں، زراعت کے روائیتی طریقے اپنائیں اور اگر ادویات کا استعمال نا گزیر ہو تو اپنی بچتیں جمع کر کے مشترکہ اکاوئنٹ کے ذریعے زرعی ادویات اور زہریں فیکٹریوں سے براہِ راست خریدیں۔ اس طرح ایک تو خریدی گئی ادویات مؤثر ہوں کی اور دوسرے کسانوں کو ان جونک صفت دلالوں سے چھٹکارہ مل جائے گا۔
روائیتی زرعی طریقوں کے احیاء کے لیے بھی ظفر نے وکالتی کام کیا۔ ظفر کا یہ مضبوط ایمان تھا کہ اب بھئ وہ طریقے جو کسانوں کے پرکھے صدیوں سے استعمال کرتے آئے، وہ مؤثر اور کارآمد ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ حشرات اور پرندوں کے نقصان سے فصلوں کو بچانے کے لیے ڈھول اور لالٹین کے مروجہ طریقے کو دوبارہ اپنانے کی ترغیب دیا کرتا تھا۔
ظفر نے اس کام کا بیڑا اٹھا کر دراصل بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ دے دیا تھا۔ ظفر کا اس سلسلے میں کسانوں کو منظم کرنا زرعی ادویات کے دلالوں کیے اعلانِ جنگ ثابت ہوا، اور انھوں نے ظفر کے خلاف محاذ کھول دیا۔ وی اسے اور کسانوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے دھمکانے لگے۔ کیونکہ ظفر کی جدوجہد سے انکے مفادات پر زدپڑتی تھی۔ اور آخر کار ۱۴ جولائی ۲۰۱۶ کو یہ ظفر کی شہادت پر منتج ہوئی۔ بظاہر ظفر کی موت مذہبی شدت پسندی کا شاخسانہ لگتی ہے مگر میں یہ ماننے کو تیار نہیں بلکہ میری نظر میں تو اگر کبھی حقائق سے پردہ اٹھا، جسکا امکان صفر کے برابر ہے، تو اس قتل کے پیچھے یقناً اس مفاد پرست ٹولے کا ہاتھ ہوگا۔ ابھی کل ایک دوست استاد فاروق سے ظفر کے قتل کی تحقیق کی پیشرفت پہ بات ہورہی تھی اور یہ جان کر دکھ ہوا کہ غالباً یہ کیس بھی اس جیسے باقی کیسوں کی طرح داخلِ دفتر ہو چکا ہوگا۔
ظفر سے پہلی ملاقات ۱۹۸۸ میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں ہوئی جہاں میں پڑھتا تھا، اور وہ پہلی ملاقات میں ہی گہرا دوست بن گیا۔ جب بھی اسلام آباد آتا، ملاقات ہوتی۔ بعد ازاں جب میں ایک سماجی تحقیقی ادارے سے وابستہ ہوگیا تو ظفر اکثر عالمی ادارہ تجارت کے معاہدے جو کسانوں کے حقوق کے خلاف تھے، کے خلاف احتجاج کے سلسلے میں اسلام آباد آیا کرتا اور اس ملاقات ہوا کرتی۔
یہاں ایک بات کا اعتراف ضروری ہے کے ہم جیسے کئی دوست جو انسان دوست انقلاب کی امید رکھتے تھے، نے عملی طور پر نہ ہونے کے برابر کوشش کی۔ بشمول میرے ہم سب نے لفاظی سے کام لیا جبکہ ظفر ہم سے بازی لے گیا اور جس نظریہ پر یقین رکھتا تھا، اس کے حصول کے لیے انتھک محنت کرتا رہا یہاں تک کے موت نے اس کو آلیا۔
اب اگر آپ کین سارو ویوا اور ظفر لࣿنڈ کی زندگیوں اور جدوجہد کا موازنہ کریں تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ کین نے نائیجیریا میں اور ظفر نے پاکستان زورآوروں کو چیلنج کیا اور نتیجتاً جان کی بازی ہار گئے۔ مگر ماسوپ (کین کی قائم کردہ اونگونی حقوق کی تنظیم) اور ہرک دونوں کین اور ظفر کا علم سربلند رکھ کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن یہ جنگ ایک نسل تک محدود نہیں یہ جہدِ مسلسل ہے۔
یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو، ڈر کیسا
جیت گئے تو جیت گئے، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
ڈاکٹر ساجد کاظمی کی طرف سے سرائیکی دھرتی کے عظیم سپوت ظفر لُنڈ کو خراجِ عقیدت
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ