یہ 82 سال پرانی بات ہے کہ ہندو رہنما موہن داس کرم چند گاندھی نے اس وقت کے صوبہ سرحد اور آجکل کے خیبر پختونخواہ کا 1938ء میں پانچ ہفتوں کا دورہ کیا تھا۔ یہ دورہ انہوں نے خان عبدالغفار خان جسے ہم بادشاہ خان بھی کہتے ہیں کی دعوت پر کیا گیا تھاجو اس وقت خدائی خدمت گار تنظیم چلا رہے تھے۔
واپس دہلی جانے کے بعد باپو نے جو ہمارے صوبے اور بادشاہ خان کے متعلق اپنے تاثرات قلم بند کیے وہ آج بھی ہماری دلچسپی کا باعث بنے ہوے ہیں ۔گاندھی لکھتے ہیں۔۔۔ خدائی خدمتگار کچھ بھی ہوں اور بعد میں کچھ بھی نکلیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے رہنما جن کو انہوں نے بادشاہ خان کا خطاب دیا ہے خدا کے ایک سچے خادم ہیں۔
ان کا عقیدہ ہے کہ خدا ۔۔۔ حَىُّ القَيُّومُ ہے اور انہیں معلوم ہے کہ ان کی تحریک صرف اسی یعنی اللہ کی مرضی سے کامیاب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو اس مقصد کے لیے فنا کر دیا ہے اس لیے انہیں اب آگے کی کوئی پروا نہیں رہی۔
وہ سمجھ گیے ہیں کہ عدم تشدد کو اپناے بغیر پٹھانوں کے لیے نجات کا کوئی راستہ نہیں ۔ وہ اس بات پر فخر نہیں کرتے کہ پٹھان بہت اچھا لڑنے والا ہے وہ اس کی بہادری کی قدر کرتے ہیں لیکن ان کے خیال میں اسے ضرورت سے زیادہ تعریف کر کے بگاڑ دیا گیا ہے۔
وہ مانتے ہیں کہ پٹھان کو جاہل یعنی تعلیم سے دور رکھا گیا ہے اور اس کی جہالت سے ناجائز فاعدہ اٹھایا گیا ہے۔ان کی خواہش ہے کہ پٹھان اور بھی زیادہ بہادر بنے اور اس کے ساتھ ساتھ سچا علم بھی حاصل کرے ۔ بادشاہ خان کے نزدیک یہ چیز صرف عدم تشدد سے حاصل ہو سکتی ہے۔
(یہ اقتباس میں نے ایک کتاب۔۔گاندھی جی بادشاہ خان کے دیس میں ۔۔۔کے صفحہ 7سے نوٹ کیا جس کے مصنف پیارے لال ہیں).
گاندھی جی نے اپنی اس تحریر میں يَا حَىُّ يَا قَيُّومُ کے الفاظ استعمال کر کے میرے دل کے تار چھیڑ دیے۔مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ گاندھی جی ایک ہندو ہونے کے باوجود يَا حَىُّ يَا قَيُّومُ کے مفہوم سے اتنے آگاہ تھے کہ اس کو تحریر میں لے آے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گاندھی جی اہنسا کی تحریک چلا رہے تھے۔
اہنسا کا ترجمہ عام طور پر عدم تشدد کیا جاتا ہے لیکن گاندھی جی کہتے تھے کہ اہنسا کے مفہوم میں عدم تشدد۔محبت اور خیر اندیشی بھی شامل ہے۔
ان کا خیال تھا تشدد کا جواب نیکی سے دینا چاہیے اور نیکی تبھی مزہ دیتی ہے جب اس کے مقابلے میں بدی کھڑی ہو۔بھلوں سے بھلائی کرنا بھلائی کا سودا ہے۔
روپے کے مقابلے روپیہ رکھ دینا کوئی خاص خوبی نہیں اصل خوبی یہ ہے کہ ایک آنے کے مقابلے میں ایک روپیہ رکھا جاے۔ خیر گاندھی جی کے ان خیالات کی وجہ سے آخر کار شدت پسند ہندووں نے ان کو قتل کر دیا اور آجکل مودی سرکار کی حکومت ان شدت پسند پارٹی کی حمایت سے وجود میں آئی ہے اور بھارت میں اس وقت جو عوام کا حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
ادھر بادشاہ خان نے لکھا ہے انگریز ہمارے پختونوں میں تعلیم عام کرنے کے خلاف تھے تاکہ اس صوبے کے لوگ پسماندہ رہیں حالانکہ پٹھانوں میں علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ ایک پراپیگنڈہ کے ذریعے انگریزوں نے یہ مشہور کرا رکھا تھا کہ دنیا کا علم حاصل کرنا کفر ہے۔
بادشاہ خان لکھتے ہیں کہ ہمارے صوبے کے ان پڑھ لوگوں کو یہ شعر یاد کرا رکھا تھا جو وہ بڑے جوش وخروش اور جذبے سے گلی کوچوں میں گاتے تھے۔پشتو زبان کا شعر یہ ہے؎ سبق چہ د مدرسے وائی ۔۔پارہ دے پیسے وائی ۔۔ جنت کے بہ زاے نہ دی ۔۔ دوزخ کے بہ گھسے دہی۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو مدرسے میں سبق پڑھتے ہیں وہ پیسے کی خاطر ایسا کرتے ہیں۔انہیں جنت میں جگہ نہیں ملے گی۔اور دوزخ میں رگڑے کھاتے رہینگے۔ میں یہ بتاتا چلوں کے یہاں مدرسے سے مراد ماڈرن ایجوکیشن ہے۔
بادشاہ خان پٹھانوں میں جدید تعلیم عام کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے۔ خیر مجھے تاریخ کی یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ پچھلے بیس سال سے دہشت گردی کا زور بھی Kpk میں رہا۔
دہشت گردوں نے خاص طور پر ہمارے صوبے کے ھزاروں سکول اڑا دیے۔ سوات ۔وزیرستان سےلوگ بے گھر بھی یہاں ہوۓ۔ اب ڈیرہ کی گومل یونیورسٹی کئی سالوں سے کرائیسس کا شکار ہے اور آجکل بھی بند ہے۔ ہڑتالیں بھی یہاں ہوتی ہیں ۔استادوں کی لابیاں بھی یہاں بنی ہوئی ہیں۔پنشنرز کے مسائل بھی یہاں ہیں۔ اس تعلیمی درسگاہ کو پرامن بنانے اور بجٹ فراہم کرنے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔
حکومت کی جانب سے بھی چپ چاپ اور خیر خیریت کی رپورٹ ہے۔ تشدد اور دہشت گردی کے واقعات بھی زیادہ یہاں ڈیرہ میں وقوع پذیر ہوے ۔تعلیمی ماحول تباہ بھی ہوا اور اب تک دہشت گردی کے اکا دکا سانحے بھی چل رہے ہیں۔تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہماری نسل کو تعلیم سے دور رکھنے کا سلسلہ اب بھی ماضی کی طرح جاری رہے گا؟ یا تعلیمی ماحول کو خراب کرنے کا ٹھیکہ ہم نے خود تو نہیں لے رکھا؟ جیسے اوپر پشتو اشعار میں بتایا گیا۔؎؎
میں خود ہوں اپنے آپ کے پیچھے پڑا ہوا۔۔ میرا شمار بھی میرے دشمنوں میں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر