جب سے "ادب کا شاہ بابا” سید ارشاد شاہ پر لکھا تو پیغامات اور ٹیلی فون کے زریعے کچھ دوستوں اور قارئین نے پسندیدگی کا اظہار کیا تو کچھ نے میرے اور گلزار احمد خان کے پُر خلوص و محبت کے تعلق کو پاکستانی روپے کی طرح گرانے پہ مجبور کر دیا یعنی ہمارے میل ملاپ کے بیچ میں اپنے ہی ادبی یار دوست ظالم سماج کی طرح کھڑے ہوگئے کہ لکھو اور ضرور لکھو گلزار احمد خان کے بارے۔ جب کے شاہ بابا لکھنے کے بعد گلزار صاحب نے کہا تھا یار عمرانی! ”اور لگاؤ ان خضاب لگانے والوں سے یاریاں!
میں نہ کہتا تھا کہ شاہ بابا کی بجائے مائرہ خان یا میرے پاس تم ہو کی مہوش یعنی عائزہ خان پہ زورِ قلم صرف کرو۔ "تن من” کی مراد پاؤ گے۔ شہرت اور رنگینیاں یوں تمہارا پیچھا کریں گی جیسے پولیس شریف آدمی کا کرتی ہے۔ اب میری اتنی جرات و ہمت کہاں کہ جنابِ مَن کو جواب دے سکوں۔ کیونکہ مجھے ادراک ہے کہ گلزار صاحب کی چھٹی حِس ہر وقت اپنے مکمل یونیفارم میں ہوتی ہے۔ یہ اپنی اس حِس مخصوصہ کی بدولت اپنی گلی کے کونے والے گھر کے پچھلے کمرے میں بیٹھے صاحب کے چھینکنے کی آواز سن کر”الحمدللہ "کہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور” نعوذ باللہ "کو اپنی گلی کے آخری گھر تک روشنی کی سی رفتار سے پہنچا نے کا ہنر بھی رکھتے ہیں۔ اب کوئی صاحب ِادب غلط نہ سمجھے کہ ان کے علاقے میں تو سید ارشاد شاہ اور حفیظ گیلانی صاحب کے گھر ہیں۔” اور بھی گھر ہیں مریالی میں انکے سوا "
گلزار احمد کا سجیلا بچپن گاؤں کے ماحول بیتا۔ بے نیازی سے لاہورمیں رنگین جوانی گزاری اور اسی دوران ریڈیو پاکستان سے منسلک ہو کر پاکستان کے مختلف شہروں سمیت دنیا کے تقریبا تیس سے زیادہ ممالک کی یاترا بھی ان کے نامہ اعمال میں درج ہے۔ بقول شخصے کے یورپ کی بعض ایسی جگہوں پر بھی تحقیق کے لیئے جا چکے ہیں جہاں جانے سے سب کا وضو تو ٹوٹ ہی جاتا ہے لیکن کچھ محقیقین پہ غسل بھی فرض ہو جاتا ہے۔ بہرحال ریٹائرمنٹ کے بعد اب ایسی تحقیق کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ نوجوانی سے پھسل کر جوانی میں گرنے سے ہی ان کے گل بوٹے نکھر کر مکمل گلزار بن گئے تھے۔ انکے دیرینہ دوست ابوالمعظم ترابی صاحب انکی عہد بزرگی کی سر توڑ تحقیق کے باوجود صرف ایک ہی بات جان پائے کہ ”مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا“۔اب یہ کوئی نہ سمجھے کہ وہ اس بیان کی تائید میں اپنی جیب سے یونانی دواؤں والا رنگین اشتہار نکال کے ابوالمعظم ترابی صاحب کو دکھانااپنا فرض سمجھتے ہیں۔
بہرحال شکر گزاری میں اب ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مزاج میں رومانویت، تندی، اور ہمت میں شباب ہے۔ ریڈیو پاکستان کے نیوز سیکشن کی چکی میں پستے پستے اب اتنے پختہ ہو چکے ہیں کہ گرمی سردی بہار خزاں میں یکساں موج میں رہتے ہیں خود مست رہتے ہیں، مگر دوسروں کو کبھی کبھی مشتعل بھی کرتے رہتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو انکی فیس بک کی پوسٹیں اور روزانہ کے کالم پڑھ کے دیکھ لیں۔ اگر آپ کو کشادہ پیشانی پر عمودی طور سے گرتے سیاہ بالوں کی کچھ لٹوں والا، خبردار قسم کی مونچھیں اورایک دلآویز مسکراہٹ لبوں پر سجائے انسان پہ نظر پڑے تو پہچان جایئے کہ یہ گلزار احمد خان ہیں۔ آنکھوں میں بلا کی سنجیدگی و متانت کے باوجود پورے چہرے کا اگر جائزہ لیا جائے تو شرارت اور معصومیت کے شرارے پھوٹتے نظر آتے ہیں۔ اُن کے چہرے سے عموماً یہ عیاں نہیں ہو پاتا کہ وہ کیا کہنے والے ہیں یا کیا کرنے والے ہیں۔ ہاں دوسروں کے چہرے پڑھنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ چہرہ جو بچپن میں شاید گول تھا اب کتابی چہرہ تو نہ بن سکا لیکن قلمی چہرہ ضرور بن گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہرگز نہیں بلکہ ایک بند کتاب کی طرح ہیں۔ وہ بھی ایسی بند کتاب کہ جسے کھولنے کے لئے پاسورڈ کی ضرورت پیش آتی ہے۔خود اختیار کردہ کم خوراکی نے انکی صحت ہمیشہ اچھی رکھی ہے۔ ہر شے کھاتے ہیں اور ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ پرہیزنامی کسی شے کا ان کی زندگی میں کوئی وجود ہے تو بس صرف یہ کہ پرہیز سے پرہیز کرتے ہیں۔ علاقے کی مرغوب شے یعنی نسوار سے اور سگریٹ سے میں نے انہیں کبھی شغف کرتے نہیں دیکھا۔لیکن یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ جوانی اور لاہور کی حَسین گلیوں کی سیر کے دوران کے ٹو، قینچی اور بگلا مارکہ سگریٹ نہ پھونکے ہوں۔
نصابی کتب کے علاوہ لڑکپن میں“چترالی رسالے“ سے مطالعے کا آغا ز کرنے والے گلزار احمد صاحب کے مطالعے کا اب یہ حال ہے کہ یونائیٹیڈ بک سنٹر اور مفتی محمود کتب خانے کی تقریبا تمام کتب کھنگال چکے ہیں۔ دیگر زبانوں کے تراجم تو ان کا پسندیدہ کھاجا ہیں۔ دن کے اجالا ہو یا رات کی تاریکی، مطالعہ جاری رہتا ہے۔ بجلی نہ ہو تو قدیمی لالٹین جلا لینا اور عینک ٹوٹ جائے تو ایک شیشے والی عینک ہاتھ سے آنکھ پہ ٹکا کر کتاب بینی میں فرق نہ آنے دینا ان کا معمول ہے۔ ایک ملاقات کے دوران بڑے جذباتی انداز میں کہنے لگے۔ یار عمرانی! ایک مقامی شاعر کی کتاب آج پڑھی ہے۔ سوال کیا کہ کیسی لگی شاعری؟ کہنے لگے ”نوے گرام کے کاغذ پہ بیس گرام کی شاعری چھپی ہے۔“۔
یہ حقیقیت ہے کہ گلزار احمد کا قلم ہمیشہ حق کی سر بلندی کے لیئے ہی اٹھتا ہے۔ چاہے ریا کاری، قبضہ گیری، چمچہ گیری، نا انصافی، ظلم، لاقانونیت، رشوت، عصبیت، منشیات اور جہالت سے لے کر گندہ پانی، جعلی دودھ، غلیظ خوراک، گدھوں کے گو شت کی ترسیل ہو یا ہاتھ کی صفائی تک کوئی بھی موضوع ہو۔ ببانگ دہل لکھ دیتے ہیں۔ جب بہت اکتا جائیں تو ماضی کے تاریخی آثار میں آباد اپنے گاؤں نما شہر یا شہر نما گاؤں چاہ ملک یا مریالی کی گلی محلوں میں نکل جاتے ہیں جس کے ایک طرف شیر شاہ سوری کی بنائی“ ادبی باؤلی”ہے اور دوسری طرف ادب کا جی ٹی روڈ گزرتا ہے۔ (میرا اشارہ حفیظ گیلانی صاحب یا سید ارشاد کی طرف نہیں)
بقول شخصے! گلزار صاحب حُسن پرست بھی بلا کے ہیں۔ بچپن میں بھی اگر کسی بزرگ خاتون کی گود میں ڈالا جاتا توآنکھیں چہرے پہ ہی ٹک جاتیں۔جوانی میں مدھوبالا اور نورجہان ترجیحات میں شامل تھیں۔ اب تو یہ حِس اور بھی نکھر گئی ہے۔ اب عالیہ بھٹ اور تاپسی پُنوں اولین ترجیع ہیں۔ اسی حِس کی وجہ سے مویشی بھی خود ہی خریدنے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ چُن کر ایسی حَسین بکری خرید کر لائے کے مریالی کے تمام بکرے دل تھام کر رہ گئے۔ مریالی والے شکایت لے کر آئے کہ انکی بکری کی وجہ سے ہمارے بکرے دودھ کی نہر کھودنے کا سوچ رہے ہیں۔ حُسن پرست اور لب و لہجہ کیونکہ شروع ہی سے شیریں اور چاشنی سے بھرپور تھا ان کی اسی خاصیت کی بنا پر ان کو ایک بار شکار پر ساتھ لے جایا گیا تو پرندوں کے حُسن سے اتنے متاثر ہوئے کہ خالی ہاتھ ہی لوٹ آئے۔
گلزار احمد خان سے میری دوستی بظاہر پرانی نہیں مگر محبتوں کو قریب آنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ ایسی خوبصورت چیزوں کو دل کے شیلف پر سجانے میں کتنا وقت چاہیے؟۔ سو تھوڑے ہی عرصے میں گلزارصاحب کے اتنا قریب آچکا ہوں کہ وہ میرے اندر سرسراتی ہوئی چاپ بھی سن سکتے ہیں۔ اکثر و بیشتر ڈیرہ میں میری آمد کے بعد ادباء و صحافیوں کو اپنے "بُھورے” میں اکھٹا کر کے "پکوڑا پارٹی‘ ’یا ثوبت یاراں دی کے نام سے تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں۔ امید ہے اس تحریر کے بعد بھی یہ تقریبات جاری رہیں گی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر