دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہندؤ راشٹر و مسلم راشٹر۔۔۔ عامر حسینی

آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے کہ ہندوستان ہندؤ راشٹر ہوجائے جس میں مسلمانوں کی حیثیت غلاموں کی سی ہو-

مشرقی دہلی انڈیا میں شہریت کے قانون کو لیکر آر ایس ایس کے فسطائیوں نے احتجاج کرنے والوں پر جس تشدد کا آغاز کیا تھا وہ بعد ازاں باقاعدہ ہندؤ اور مسلم انتہاپسندوں کے درمیان جنگ کی شکل اختیار کرگیا اور فسادات پھوٹ پڑے- مساجد، مندر، مزارات کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں، ہندؤں کے مکانات اور دکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا-

آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے کہ ہندوستان ہندؤ راشٹر ہوجائے جس میں مسلمانوں کی حیثیت غلاموں کی سی ہو-

پاکستان میں دایاں بازو پاکستان بننے کے پہلے دن سے اس مُلک کو صرف مسلمانوں کا مُلک بنانے کی فکر میں لگا ہوا تھا- حد تو یہ ہے کہ متحدہ ہندوستان کے حامی اور خود کو ہندوستانی نیشنلسٹ کہلانے والے دیوبندی، اہلحدیث اور شیعہ کے مولوی سیاست دانوں نے بھی پاکستان بن جانے کے بعد اس مُلک کو ‘مسلم راشٹر’ میں تبدیل کرنے کے لیے زور لگانا شروع کردیا تھا-

پاکستان بننے کے فوری بعد جمعیت علمائے ہند دیوبندی نیشنلسٹ مولویوں نے پاکستان کی حمایت کرنے والی دیوبندی تنظیم جمعیت علمائے اسلام میں خود کو ضم کرلیا اور اُن نیشنلسٹ مولویوں میں سب سے نمایاں مفتی محمود، مولانا غلام غوث ہزاروی، مولانا یوسف بنوری اور دیگر درجنوں مولوی شامل تھے جنھوں نے مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا احمد علی لاہوری کے ساتھ خود کو مسلک کرلیا-

یہ جمعیت علمائے اسلام پہلے دن سے پاکستان میں اسلام و شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتی رہی اور اس نے پاکستان کے آئین کو اسلامی آئین بنانے کا مطالبہ سرفہرست رکھ لیا-

اس دوران بظاہر سیاست سے خود کو الگ رکھنے والے مفتی محمد شفیع (بانی دارالعلوم کراچی)، مولانا خیر محمد جالندھری (بانی جامعہ خیر العلوم ملتان) اور قدرے بے گانگی میں کھڑی انجمن مجلس احرار الاسلام اور اس کے قائد مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت دیوبندی علماء کی اکثریت بھی جمعیت علمائے اسلام کے مطالبے کی شد ومد سے حامی ہوگئے اور مسجد کے منابر اور درس و تدریس کے مقامات اسی کے لیے مختص ہوگئے-

مولانا شبیر احمد عثمانی خود ساختہ شیخ الاسلام پاکستان کے عہدے پر فائز ہوگئے –

پاکستان میں دیوبندی علماء کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے نیشنلسٹ مُلاں سب کے سب مسلم راشٹر کے قیام کے خواب کو عملی جامہ بنانے میں پاکستان کے حامی دیوبندی ملاں کے ساتھ ہولیے- جبکہ پہلے پاکستان کو مسلم راشٹر بنانے کے حامی دیوبندی علماء کی تعداد بہت ہی کم تھی لیکن نیشنلسٹ دیوبندی ملاؤں کے ساتھ مل جانے سے مسلم راشٹر بنانے کے دیوبندی ملاں حامی پاکستان میں زیادہ ہوگئے –

دوسری جانب دیوبندی علماء کے اس میدان میں حریف عُرف عام میں بریلوی کہے جانے والے والے علماء تھے جن میں نمایاں ترین اور دیوبندی عالم شبیر عثمانی کی ٹکر کے اور مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت کے انتہائی قریب مولانا عبدالحامد بدایونی تھے- انھوں نے بریلوی علماء کو ساتھ ملایا اور جمعیت علماء پاکستان کے نام سے ایک اور مذھبی سیاسی جماعت کی. بنیاد رکھ دی- یہ پہلے دن سے بریلوی علماء کی جماعت بنی اور اس کا مطالبہ بھی پاکستان کو ‘مسلم راشٹر’ بنانے کا تھا-

پٹھان کوٹ سے جان بچاکر آنے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی اور اُن کی جماعت، جماعت اسلامی بھی میدان میں اتری- اُس نے پاکستان میں اسلام نافذ کرنے کا مطالبہ کیا- اور یہاں تک مودودی صاحب کہنے لگے جب تک پاکستان کی ریاست اسلام نافذ نہیں کرتی اَس وقت تک اس ریاست کے کسی ادارے میں کی ملازمت جماعت اسلامی کے رکن کے لیے جائز نہیں ہے-

پاکستان بننے کے بعد سال بھر میں جمعیت اھل حدیث پاکستان بھی وجود میں آئی جس کے نمایاں علماء میں سے ایک مولانا داؤد غزنوی تھے- اھلحدیث علماء کی اکثریت بھی ہندوستانی نیشنلسٹ تھی اور کانگریس کی ہمنواء تھی – لیکن پاکستان بنتے ہی سال کے اندر اندر پاکستانی علاقوں میں ایک بھی ایسا اھلحدیث مولوی تلاش کرنا محال ہوگیا جو پاکستان کو مسلم راشٹر نہ بنانا چاہتا ہو- یہ سب بھی اسلام اور شریعت کے نفاز کے مطالبے کے ساتھ سامنے آگئے-

ہندوستان میں تقسیم سے پہلے ایک آل انڈیا شیعہ پولیٹکل کانفرنس تھی جس کا موقف ہندوستانی نیشنلزم کی حمایت تھا اُس کی جو باقیات پاکستان آئی وہ پاکستان کے حامی شیعہ علماء کے ساتھ شیر وشکر ہوئی-

اگرچہ پاکستان کے ابتدائی سالوں ایک سیاسی تنظیم تحفظ حقوق شیعہ پاکستان بنی تھی لیکن جلد ہی یہ غیر فعال ہوگئی تھی-بقول عارف الحسینی یہ سن 1960ء میں محبت شیعہ پاکستان کے نام سے سید محمد دہلوی کی قیادت میں فعال ہوئی تھی- لیکن جنرل ضیاء الحق کے زمانے سے پہلے پاکستان میں شیعہ مولویوں نے کوئی انتخابی سیاسی جماعت نہیں بنائی لیکن انھوں نے بھی پاکستان کے مسلم راشٹر بننے یا بنانے کے مطالبے کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کی حمایت کی-

اگر ہم پاکستان کے شیعہ، سنی (بریلوی، دیوبندی، اھل حدیث) علماء اور جماعت اسلامی کی قیادت کا پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے آئین اور نئی ریاست کے خدوخال پر چلنے والی سیاسی بحث پر موقف کا جائزہ لیں تو یہ سب پاکستان کے دستور کو اسلامی اور ریاست پاکستان کو مسلم راشٹر بنانے کے حامی ہوگئے تھے اور اس کے آئین اور دستور کو ‘اسلامی’ بنانے کی مہم چلا رہے تھے –

شیعہ اور سُنی (جملہ فرقوں) علماء اور جماعت اسلامی کی قیادت کے درمیان یہ اتفاق رائے بھی سال بھر میں ہمیں نظر آیا کہ وہ پاکستان کا وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کو اُن کے عہدے سے ہٹادیا جائے کیونکہ وہ قادیانی تھے- وزیراعظم لیاقت علی خان سے یہ مطالبہ کرنے والوں مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا عبدالحامد بدایونی سمیت درجنوں ممتاز علماء شامل تھے-
وزیر قانون جوگندرناتھ منڈل کو بھی ہٹانے کی قرارداد بھی لائی گئی –

دائیں بازو کے مولوی سیکشن نے اردو یا عربی کو قومی و سرکاری زبان قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا-

دیکھا جائے تو پاکستان بننے کے ایک سال بعد 1948ء تک حُکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ پر دستور سازی کو مبینہ اسلامی دستور سازی میں بدلنے کے لیے دباؤ میں اضافہ ہونا شروع ہوا-

ایک طرف ایک سال کے اندر اندر مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں، طالب علموں، کسانوں اور تعلیم یافتہ شہری درمیانے طبقے کی جانب سے بنگلہ کو سرکاری قومی زبان قرار دیے جانے کا مطالبہ اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا آئین تشکیل دینے کا مطالبہ زور پکڑگیا کہ جس کی ساخت پارلیمانی جمہوری وفاقی ہو اور آئین پاکستان سیکولر ہو-

اُس وقت کے شُمال مغربی سرحدی صوبے کی سیاست میں اہم ترین کردار ادا کرنے والے باچا خان اور اُن کی جماعت خدائی خدمتگار ہندوستانی نیشنلسٹ سے پختون نیشنلسٹ بن گئے اور انھوں نے شمال مغربی سرحدی صوبے، فاٹا اور بلوچستان کے پشتون اکثریت علاقے کو ایک وفاقی اکائی اور اُس وفاقی اکائی کو مکمل خودمختاری بنانے کا مطالبہ پیش کردیا-

یہی معاملہ بلوچستان کے بلوچ ہندؤستانی نیشنلسٹ کا نکلا وہ بھی بلوچ نیشنلسٹ ہوکر رہ گئے- اُس وقت قلات نیشنل اسمبلی تھی جس نے پاکستان میں نہ شامل ہونے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کو مسترد کردیا- بلوچ سیاست دانوں نے بھی بلوچ نیشنل ازم کو قبول کرلیا؟

کمیونسٹ پارٹی انڈیا سے جنم لینے والی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اور اس سے ہمدردی رکھنے والے جُملہ محاذ اور حلقے بھی پاکستان کو کثیر القومیتی، کثیر اللسانی مُلک بنانے اور اس مُلک میں جملہ قومیتیوں کو برابر کے حقوق دینے کا مطالبہ کیا- جبکہ دستور کی بنیادیں سیکولر رکھنے کا مطالبہ بھی سامنے آگیا-

اُس وقت وزیراعظم خان لیاقت علی خان تھے جو پنجاب میں چل رہی اقتدار کی رسا کشی میں ممتاز دولتانہ کے مقابلے میں میا‍ں افتخار الدین ممدوٹ کو سپورٹ کررہے تھے-

بظاہر پاکستان کا حکمران طبقہ جو بھاری اکثریت میں پنجابی اور اردو اسپیکنگ مہاجر اشرافیہ پر مشتمل تھا مسلم لیگ کے اندر ایک تھا لیکن ایسا نہیں تھا- اُن کے اپنے اندر اختلاف کے سبب نراجیت کا سماں تھا-

حُکمران جماعت مسلم لیگ کو دستور کے وفاقی جمہوری پارلیمانی سیکولر ہونے، صوبائی خودمختاری کو یقینی بنانے، جاگیرداری کے خاتمے کے مطالبے نے خوفزدہ کر رکھا تھا- لیاقت علی خان سمیت مسلم لیگ ک کئی سیاست دانوں کے پاس جو یوپی، سی پی، مغربی بنگال سے آئے تھے اپنا انتخابی حلقہ تک نہیں تھا-

پھر یہی مسلم لیگی حکمران طبقہ ملاؤں کے بڑھتے ہوئے سیاسی-مذھبی کردار اور مستقل طور پر اسلام اور شریعت کے نفاز کے مطالبے کی آڑ میں اقتدار پر نظریں گاڑھے رہنے نے بھی عدم تحفظ کا شکار کردیا تھا-

لیاقت علی خان سمیت حکمران مسلم لیگ کے دیگر سیاست دانوں نے دائیں اور بائیں طرف سے پڑنے والے دباؤ سے نکلنے کے لیے ‘مسلم راشٹر’ کا خواب دکھانے کا پہلا قدم اٹھایا اور وہ تھی قرارداد مقاصد 1949ء……

دستور ساز اسمبلی نے جیسے ہی یہ قرارداد منظور کی تو پاکستان کے تمام ملاؤں نے اور خاص طور پر شیعہ، بریلوی، اھل حدیث کی نمائندگی کی دعوے دار جماعتوں نے اعلان کیا کہ پاکستان ‘اسلامی ریاست’ (مسلم راشٹر) کی طرف چل پڑا –
انیس سو تہتر کے آئین تک اور اس میں مارشل لاء کی ترامیم کی شمولیت نے مُسلم راشٹر کو انتہائی تنگ اور محدود دائرے کے ساتھ مجسم و مشہود کیا-

ہندوستان میں آر ایس ایس آج جس طرح سے ہندوستانیت کے اندر سے مسلمانوں کو نکال باہر پھینکنے کی کوشش کررہی ہے، ایسے ہی ہم نے پاکستانیت اندر سے جہا‍ں غیر مسلموں کو نکال باہر کرنے کے جتن کیے-

جس وقت لاہور میں قادیانی مخالف فسادات ہوئے یعنی 1953ء میں تو اُن واقعات بارے تحقیقات کرنے کے لیے 1954ء میں اُس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر کی قیادت میں ایک ٹیم بنی جس نے اپنی رپورٹ پیش کی-
اس رپورٹ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ جب انکوائری کمیشن نے مولانا مودودی سمیت شیعہ، دیوبندی، بریلوی و اھلحدیث کے جید علماء سے پوچھا اگر ہمسایہ ملک ہندوستان مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دے، ملیچھا کہہ ڈالے تو کیا ہوگا؟ تو مودودی نے دیگر علماء کے مطابق ہندوستان کا ایسا کرنا ٹھیک ہوگا کیونکہ وہاں کی اکثریت ہندؤ ہے-

یہ جواب منیر انکوائری کمیشن رپورٹ میں جلی حروف میں درج ہے –

قرارداد مقاصد ہو یا 1956ء، 1964ء اور پھر 1973ء کے آئین میں شامل مبینہ اسلامی دفعات یہ سب کی سب خالص، شفاف مسلم راشٹر بنانے کا عمل تھی اور ہیں…. دیوبندی ‘ مسلم راشٹر’، بریلوی ‘مسلم راشٹر’، جماعت اسلامی کا ‘مسلم راشٹر’ اور پھر جہادیوں کا ‘مسلم راشٹر’ اور ایسے ہی سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کا’مسلم راشٹر’ یہ آر ایس ایس کے ‘ہندؤ راشٹر’ سے کیسے ملتا جلتا ہے؟ مسلم راشٹر کے لیے انتھک کام کرنے اور ہندؤ راشٹر کے سیوک ایک دوسرے کی طاقت ہیں-

شُمالی ہندوستان کے صوبہ دلی کے مشرقی علاقے میں لگی آگ اور فسادات پر اُن لوگوں کا حرف مذمت کہنا سوائے منافقت کے کچھ نہیں ہے جو پاکستان میں تنگ اور محدود مسلم راشٹر کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے یا رہتے ہیں #

About The Author