ذوالفقارعلی بھٹو جیل میں موت کے انتظار میں اک کتاب لکھتے تھے۔” اگر مجھے قتل کیا گیا” ! یہ کتاب نثر میں شاعری ہے۔ اوریانا فلاچی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھٹو نے کہا کہ سیاست کرنے کو آدمی کے سینے میں شاعری کی لگن ضروری ہے! بھٹو انسان تھے اور ان کی ذات خامیوں سے پاک نہ تھی کہ انسان ایک جدلیاتی مخلوق ہے اور احسن اور اسفل کی جدلیات کے تابع ہے ۔پاکستانی سیاست کاروں میں تحسین اور تنقیص کے پہلو موجود تھے، ہیں اور رہیں گے۔سیاست مگرزندگی کے گیسو سنوارنے کا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ سیاستدان کا کام خوشی اور خوشحالی کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔زندگی اور آزادی کی حفاظت اور خوشی کی تخلیق، کے علاوہ سیاست کار_ عبث ہے۔خوشی، حسن و زیبائی کا ثمر ہے۔ جبکہ شاعری جذبوں کو قافیے، ترتیب اور ردم سے جوڑ کر حسن کی تخلیق کرتی ہے ! Rythmical Creation of Beauty شاعری ہے.زندگی ، شاعری اور سیاست کی تثلیث کے زاویے ناپنے کا خیال احمد شاملو کی نظم "شاعری زندگی ہے” پڑھ کر آیا۔لیکن احمد شاملو سے پہلے شام کے شاعر نزار قبانی کی ایک نظم جو سراسر حسن ہے، ساری محبت ہے۔ نزار قبانی عرب دنیا کے تضادات آشکار کرتا ہے اور انقلاب کو رومان آشنا کرتا ہے وہ جو فیض احمد فیض نے اردو شاعری کو دیا ، قبانی نے زیادہ intensity کے ساتھ بیسویں صدی کے آخری نصف میں عرب شاعری کو دیا۔وہ انقلاب کو محبت کی خلعت_ فاخرہ پہناتا ہے محبت کو آسماں کرتا ہے:
مجھے جب محبت ہوتی ہے
تو لگتا ہے میں وقت کا شہنشاہ بن گیا ہوں
زمین اور جو کچھ بھی اس میں ہے، میری ملکیت بن چکا ہے
اور میں گھوڑے پر سوار سورج کی سیر کو نکل کھڑا ہوتا ہوں
انسان کو شمس و قمر کی تسخیر زندگی کی تاریک شب کو منور کرنے کا استعارہ ہے اور شاعر یہی کام کرتے ہیں ! وہ زمین کی گرد کو آسمان کر تے ہیں۔فارسی کے عظیم شاعر ابولقاسم فردوسی نے کہا:
ز گرد_ ستوراں در آں پہن دشت
زمیں شش شدو آسماں ہشت گشت
ایسی متحرک تصویریں زندگی کو آسماں کرتی ہیں!ایران کے انقلابی شاعر ، احمد شاملو زندگی کی زلفوں کو سنوارنے کا خواب دیکھتے تھے، جیسے رضا عشقی کی روح ان میں حلول کر گئی ہو اور وہ مدائن کے قبرستان اور تہران میں زندگی کی بہار دیکھنے کا خواب دیکھتے ہوں۔ شاملو 2000 میں فوت ہوئے۔گویا انھوں نے بادشاہ کی آمریت اور ملا کی بادشاہی کو دیکھا۔ وہ کمیونسٹ تھے اور پیشے کے اعتبار سے پروفیسر اور مدیر تھے، صحافی اور سیاست کار بھی! ایک سال قید رہے مگر شاعری کو زندگی کو حسین تر بنانے کے خواب سے جوڑے رکھا ! 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد اس کی مایوسی اور مشکلات میں اضافہ ہوا اور اس کے خیال میں ایرانی سماج ایک بند گلی میں آ گیا تھا۔ احمد شاملو کی نظم ” تاریک گلی کے کونے میں ” اس کرب کی آئینہ دار ہے جو شاعر کی قسمت ہوا:
عجب زمانہ ہے نازنین / وہ تمھارا منہ سونگھتے ہیں/ کہ تم نے مجھے کہہ نہ دیا ہو/ میں تم سے پیار کرتی ہوں / وہ تمھارا دل سونگھنا چاہتے ہیں/ عجب زمانہ ہے نازنین/ اور وہ عشق کو/ تاریک بند گلی کے کونے میں کوڑے مارتے ہیں/ عشق کو ہمیں سیاہ گوشوں میں چھپانا ہوگا/ مکار راہداریوں میں/ سرد کونے میں/ وہ شعرو نغمہ کو نذر _ آتش کرکے / آگ جلاتے ہیں/ سوچنا بھی خطرے سے خالی نہیں ہے/ عجب زمانہ ہے نازنین/ وہ جو آدھی رات کو تمھارے دروازے پر دستک دیتے ہیں/ تمھارا چراغ توڑنے کو آتے ہیں/ ہمیں روشنی کو چھپانا ہوگا/ وہاں قصاب ہیں/ جو ہر گزرگاہ کے کونے پہ کھڑے ہیں/ آہنی گولے اور زہر آلود چھرے لئے/ عجب زمانہ ہے نازنین/ لبوں پہ تبسم ، زباں پر ترانوں کو وہ کاٹ دیتے ہیں/ ہمیں اپنا شوق چھپانا ہوگا/ قناری کو بھوننے کے لئے/ وہ سوسن و یاسمین سے آگ جلاتے ہیں/ عجب زمانہ ہے نازنین/ فتح کے نشے میں بدمست شیطان/ ہمارے دستر خوان عزا پہ بیٹھا ہے/ ہمیں تاریک گوشوں میں اپنے خدا کو چھپانا ہوگا/
عجب زمانہ ہے نازنین!!!!
دوسری نظم شاعر کے مزاحمتی کردار کا تعین کرتی ہے کہ شاعری مخلوق کے لئے جنگ کا سامان ہے۔پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹتا ہے:
شاعری زندگی ہے ! /ابتدا میں شاعر کی شاعری کا موضوع
زندگی نہ تھا /وہ اپنی فکر کے آسمان پر شراب و ثواب لکھتا تھا /وہ خیال ہی خیال میں محبوبہ کی زلف کا اسیر تھا/حالانکہ دوسرے لوگ
ایک ہاتھ میں جام اور دوسرے میں زلف_ یار لئے /مستی میں ارض_ جدا پر نعرہ زن تھے
جب شاعری کا موضوع اس کے سوا کچھ نہ تھا /تو اس کے شعر کی تاثیر بھی اس کے سوا کچھ نہ تھی/جنگ کے زمانے میں اس سے کام نہیں لیا جاتا تھا/
کسی پاگل جن کو
خلق_ خدا کے راستے سے نہیں ہٹایا جا سکتا تھا/یعنی اس کے وجود کا کوئی اثر نہ تھا/اس کے ہونے نہ ہونے سے کچھ فرق نہ پڑتا تھا/آج کی شاعری کا موضوع/ کچھ اور ہے /آج شاعری مخلوق کے لئے آلہء جنگ ہے/ شاعر خود بھی تو مخلوق کے جنگل کی شاخ ہے/ کسی اور کے باغ کا سنبل و یاسمن نہیں /آج کا شاعر مخلوق کے درد_ مشترک سے غافل نہیں ہے /وہ عوام کے ہونٹوں سے مسکراتا ہے/ لوگوں کی امید اور نا امیدی کو اپنی ہڈیوں میں پروتا ہے /آج کل شاعر کو اچھا لباس زیب_ تن کرنا چاہیئے/ پالش کئے ہوئے جوتے پہننے چاہئیں/اور پھر شہر کی مصروف ترین جگہ پر جا کر
قافیہ، وزن اور مضمون کو ایک ایک کرکے /سڑک کی بھیڑ سے الگ کرنا چاہئیے /”میرے عزیز ہم شہر، میرے ساتھ آ/میں پچھلے تین روز سے دربدر ہوں”/
” مجھے؟ حیرت ہے! شاید آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے!” /” نہیں میری جان، یہ مشکل ہے: میں اپنے تازہ شعر کے وزن کو دور سے پہچان لیتا ہوں”/کیا کہا؟ وزن_ شعر "/” سنو دوست۔۔/میں وزن، قافیہ اور شعر گلیوں میں تلاش کرتا ہوں/میرا ایک شعر معاشرے کا ایک فرد ہے” /اب وہ وقت آگیا ہے/ کہ شاعر مخلوق کو معقول جواب دے /(اس منطق سے جو شاعری کا خاصہ ہے )/کہ وہ پوری رغبت سے اس کے کام آئے /ورنہ اس کی تمام محنت ضائع ہو جائے گی/اب وزن مل گیا ہے /اور الفاظ کی تلاش کا مرحلہ ہے /ہر لفظ شوخ و دلآرام دوشیزہ ہے/
وزن پا لیا/اب شاعر کو مناسب الفاظ ڈھونڈنے چاہئیں/ یہ کام مشکل اور تھکا دینے والا ہے/مگر اس سے گریز نہیں /وزن شعر اور اس کی بیوی دوشیزہ لفظ اگر
ہم مزاج اور ہم رنگ نہیں ہوں گے/ تو لا محالہ ان کی زندگی کا حاصل اچھا نہیں ہوگا /میرے اور میری بیوی کی طرح /میں وزن تھا اور وہ دوشیزہء لفظ /موضوع_ شعر بھی
محبت کے لبوں کی جاوداں پیوستگی تھا ۔۔
/اگر چہ ہمارے بچوں کا تبسم ہمارے شعر میں بڑی خوشی سے سنا جاتا تھا /لیکن کیا فائدہ !!/سیاہ و سرد لفظوں نے شاعری کو مرثیے سا منحوس احساس دیا ! /وزن بھی ٹوٹ گیا / شعر بے معنی و بے ثمر ہوا /اور شاعر پر تھکن طاری ہوئی/ہاں، بات لمبی ہو گئی/اور اس تکلیف دہ زخم کا منہ بھی کھل گیا ۔۔۔۔/ہم نے کہا /آج کے شاعر کا نصب العین زندگی ہے !/یہ زندگی کا کرشمہ ہے کہ شاعر
شاعری کے آب و رنگ سے/ نقش پر نقش بناتا چلا جاتا ہے/ وہ شعر کہتا ہے/ اور بوڑھے شہر کے زخموں پر ہاتھ رکھتا ہے/ رات سے روشن صبح کی بات کرتا ہے/ وہ شعر کہتا ہے/اور شہر اور مٹی کے درد کی تجسیم کرتا ہے/اپنے نغموں سے اجڑی روحوں کو آباد کرتا ہے/ وہ شعر کہتا ہے/ اور تھکے ہارے دلوں کو شوق سے سرشار کرتا ہے /وہ شعر کہتا ہے/ اور اپنے عہد کے انسان کا افتخار نامہ لکھتا ہے ، /فتح زماں کی تفسیر کرتا ہے!/ لفظ و معنی کی بحث بھی/ شعر کا مقصود نہیں/
اگر شاعری زندگی ہے/
تو ہم اس کی تاریک ترین آیت میں بھی /عشق و امید کی گرمی محسوس کرتے ہیں /اس نے اپنی زندگی کے گیت کو /خون میں ڈبو کر لکھا ہے/اور اس نے اپنی زندگی کی گونج کو سکوت کے پیرائے میں،/اگرچہ زندگی کا قافیہ/موت کے جان لیوا وار کے سوا کچھ نہیں/ لیکن۔۔۔۔ دونوں طرح کے شعروں میں/ہر موت کا مطلب /زندگی ہے !!
ایران میں انتخاب ہو رہا ہے!! مگر ایران سے امریکہ اور بھارت سے برطانیہ تک سیاست اور حکومت نثر میں ہو رہی ہے۔ پرانے کردار نئے چہرے لگا کر بورنگ ناٹک کھیلتے ہیں۔ لا یعنی ڈرامے میں خلق_ خدا اور شاعروں کا کوئی کردار نہیں!!
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ