مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے گنڈبل گاؤں میں سکیورٹی فورسز نے تلاشی مہم شروع کر دی ہے۔
ذرائع کے مطابق عسکریت پسندوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع ملنے پر پولیس، سی آر پی ایف اور فوج کی 14 آر آر نے مشترکہ طور پر علاقے کو محاصرے میں لیا ہے اور تلاشی کاروائی شروع کر دی ہے۔
گاؤں کے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں۔
مزید تفصیلات کا انتظار ہے۔
کشمیری خواتین کا یوم مزاحمت کا دن
مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پراستعمال کیاجاتاہے
مقبوضہ کشمیر میں1989سے اب تک گیارہ ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی
آسیہ اندرا بی سمیت متعدد خواتین غیر قانونی طورپر جیلوںمیں نظربند ہیں
سرینگر ،
کشمیری خواتین کا یوم مزاحمت اتوار کو لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف منایا گیا۔
مقبوضہ کشمیر کے جڑواں دیہات کنن اور پوش پورہ میں بڑے پیمانے پر عصمت دری اور تشدد سے بچ جانے والوں کی جدوجہد سے متاثر ہوکر 2014 کے بعد سے ہر سال ، اس دن کو کشمیری خواتین کے مزاحمتی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
1991میں 23اور24فروری کی درمیانی شب انڈین آرمی نے وادی کشمیر کے کنن اور پوش پورہ گاوں میں سرچ آپریشن کے دوران مبینہ طور پر 23 سے 100 کشمیری خواتین کا گینگ ریپ کیا تھا۔اورمردوں کے ساتھ بھی بے دردری سے جسمانی تشددکیاگیا۔
کنن اور پوش پورہ سے بچ جانے والوں کی تین دہائیوں سے جاری جدوجہد مقبوضہ جموں و کشمیر میں خطے میں ہندوستانی ریاست کے تنظیمی اور ساختی تشدد کے خلاف جاری وسیع جدوجہد کا ایک حصہ ہے۔
اس دن کے سلسلے میں ، ایک سترہ سالہ کشمیری لڑکی نے اپنے پیغام میں کہا کہ
ہم تحریک آزادی کے دوران اپنے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور جب تک آزادی حاصل نہیں ہوگی، نہیں رکیں گے۔
القمرآن لائن کے مطابق 2013میں مشہور وکیل اور ہیومین رائٹس اکٹوسٹ پرویز امروز کی نگرانی میں خواتین نے جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ میں ایک پی آئی ایل رٹ دائر کی جب،
ہائی کورٹ نے ان کی شناخت مانگی تو پچاس عورتوں نے اپنا نام واپس لے لیا۔فوج نے نومبر 2013میں کپوارہ کورٹ میں اس کیس کو بند کرنے کے لیے ایک رٹ دائر کی جس کو کورٹ نے خارج کر دیا۔ اس کے بعد فوج نے بڑے ہتھکنڈے استعمال میں لائے اور کنن اور پوش پورہ میں دھماکہ بھی کرایا تاکہ یہ لوگ ڈر کے مارے اس کیس کو واپس لے لیں مگر ایسا نہیں ہوا ۔
مئی 2014میں ہائی کورٹ کی جانب سے ایک حکم صادر ہوا جس میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ اس کیس کو خوددیکھے گی کیونکہ پولیس اس کیس کی تفتیش میں پوری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ہائی کورٹ نے کہا کہ اس کیس کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی
جو اس کیس کی تفتیش میں رکاوٹ پیداکرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرے گی۔یہ چوبیس سالوں کے بعد واقعی ان لوگوں کے لیے فتح تھی جو اس کیس کو چوبیس سالوں سے ایک سٹیٹ اور طاقت کے خلاف بہادری کے ساتھ لڑتے آرہے تھے۔
اس لیے 23فروری 2013کو پہلی بار یوم مزاحمت خواتین کشمیر منایا گیا جو ہر سال اب منایا جاتا ہے ۔القمرآن لائن کے مطابق اسی دن ڈی سی یاسین نے اس کیس کی حقیقت سب کے سامنے رکھ دی تھی۔ ڈی سی یاسین کی رپورٹ سچائی پر مبنی ہے جس کو وقتافوقتا مسترد کیا گیا ہے۔
مقبوضہ کشمیرمیں کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروںکی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں ۔
ذرائع نے اس دن کے حوالے سے جاری کردہ اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںجنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے دوہزارتین سو (2300)سے زائد خواتین کو شہید کیا ۔جنوری 2001سے اب تک کم سے کم670خواتین شہید ہوئیں۔
1989 میں علیحدگی پسندجدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ 1989ء سے اب تک 22,905 خواتین بیوہ ہوئیںجبکہ بھارتی فوجیوںنے 11,140خواتین کی بے حرمتی کی۔
ذرائع کے مطابق کشمیری مزاحمتی رہنماوں اور انسانی حقوق کے گروپوں نے ہمیشہ سانحہ کنن پوش پورہ اجتماعی عصمت دری اور سانحہ شوپیاں سمیت خواتین کے خلاف عصمت دری ، قتل اور انسانی حقوق کی پامالی کے دیگر واقعات کی غیر جانبدار تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
فروری 1991 میں کپواڑہ کے کنن پوش پورہ میں بھارتی فوجیوں نے 100 سے زائد خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری کی جبکہ دو خواتین آسیہ اور نیلوفر کو مئی 2009 میں شوپیاں میں وردی میں بھارتی اہلکاروں نے اغوا کیا ،
زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کے بعد قتل کردیا جبکہ گذشتہ سال جموں کے علاقے کٹھوعہ میں 9 سالہ بچی آصفہ کی بھارتی پولیس اور ایک ہندو پجاری نے اجتماعی عصمت دری کی تھی۔
ذرائع کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے ۔
ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ذرائع کی رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ
کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو "کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر” قرار دیا ہے۔
فوجیوں کے کچھ انٹرویو زکے دوران اس سوال پرکہ انہوں نے مقامی کشمیری خواتین سے زیادتی کیوں کی ، کچھ نے جواب دیا کہ کشمیری خواتین خوبصورت ہیں۔ دوسروں نے کہا کہ یہ غیر فیملی اسٹیشن ہے۔ ایک سپاہی نے جواب دیا کہ اس نے بدلے میںایک کشمیری خاتون کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ "ان کے مردوں نے اس کی برادری کی خواتین کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کیا۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں ۔ ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اورافراء شکور سمیت کم سے کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی ۔
آزادی پسند رہنمائوں آسیہ اندرابی ، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین پر نظربند ہیں۔ ذرائع کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔
‘کیا آپ کو کنن پوشپورہ یاد ہے؟ ‘
کشمیری خواتین کی مزاحمت کی داستان
پانچ کشمیری خواتین کی دردناک سانحہ پر کتاب
سرینگر،
مقبوضہ جموں و کشمیر کے شمالی ضلع کپواڑہ کے کنن اور پوشپورہ علاقوں میں 29 برس قبل یعنی 23 اور 24 فروری 1991 کی درمیانی شب کے دوران فوج نے مبینہ طور متعدد خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔
23 فروری 1991 کی رات کو فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز کے اہلکاروں نے آپریشن کے دوران شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے دو دیہات کنن اور پوش پورہ کو محاصرے میں لیا تھا اور کئی خواتین کے ساتھ اجتماعی طور جنسی زیادتیوں کا ارتکاب کیا تھا۔
ذرائع کے مطابق بھارتی فوج نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ تمام الزامات بے بنیاد تھے لیکن 2013 میں مصنفین افرا بٹ اور نتاشا راتھر سمیت 50 خواتین کے ایک گروپ نے اس معاملے کی تحقیقات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی۔
اس کے بعد دوبارہ سے تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا اور کشمیر ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
کشمیر میں 1991کا سال انتہائی کربناک تھا جب بھارتی مرکزی حکومت نے عسکریت پسندی کے خلاف ایک سخت گیر مہم شروع کی تھی۔ اس مہم کے دوران،
مشتبہ بستیوں میں رات کے دوران محاصرہ کیا جاتا تھا اور مرد و خواتین کو شناختی پریڈ اور گھروں کی تلاشی کے مراحل سے گزارا جاتا تھا۔
ذرائع کے مطابق 2016 میں پانچ کشمیری خواتین کارکنان نے اس دردناک سانحہ پر ایک کتاب لکھی جو کنن اور پوش پورہ علاقوں کی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی روداد پر مبنی ہے۔
یہ کتاب ‘کیا آپ کو کنن پوشپورہ یاد ہے؟ ‘دہلی میں مقیم زبان پبلشرز نے شائع کی تھی اور کتاب کو جے پور لٹریچر فیسٹیول میں باضابطہ طور پر جاری کیا گیا تھا۔
228 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں اجتماعی جنسی زیادتی کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں اور اس پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے کہ ‘کشمیر میں کس طرح جنسی زیادتی کو جنگ اور شدت پسندی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔
القمرآن لائن کے مطابق ‘اس کتاب میں پولیس تفتیش، متاثرہ افراد کے طبی ریکارڈ اور اس معاملے پر سول سوسائٹی کے نظریات کے ریکارڈ موجود ہیں۔کنن پوش پورہ سانحہ ایک تلخ حقیقت ہے جو کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ درج رہے گی۔
پریس کونسل آف انڈیا کے اس وقت کے سربراہ بی جی ورگھیز نے ایک متنازع رپورٹ میں فوج پر لگے الزامات کی تردید کی تھی لیکن کشمیر کے اس وقت کے ڈویژنل کمشنر وجاہت حبیب اللہ نے خواتین کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں کہا کہ
یہ مبالغہ آمیز ہوسکتے ہیں لیکن بعید از حقیقت نہیں ہیں۔گزشتہ برس کپوارہ کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سید محمد یاسین نے بھی کہا تھا کہ
انہوں نے واردات کے بعد جب ہر دو دیہات کا دورہ کیا تو متعدد خواتین نے انہیں بتایا کہ مسلح فوجیوں نے انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری