فاروق طارق، لال خان، رنگ اللہی سمیت درجن بھر لوگ ایسے تھے جنھوں نے مل کر 1989ء میں پاکستان پیپلزپارٹی میں لیفٹ کی روایت کے احیاء کے لیے جدوجہد گروپ پاکستان کی تشکیل کی اور اس گروپ کی پہلی کانگریس میں بطور مبصر میں بھی شامل تھا- جدوجہد کے نام سے رسالہ شروع ہوا جس کی پیشانی پر لکھا ہوتا تھا ‘پاکستان پیپلزپارٹی میں سوشلزم کی آواز’ – اس رسالے اور پارٹی پبلیکیشنز نے پاکستان میں اشتراکی اور مارکس واد نظریات اور نعروں کو نوجوانوں میں پھر سے مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا-
کامریڈ فاروق طارق کے بقول ‘لال خان’ پہلے ایک مشترکہ دانشور آنہ، کتابی اور مضمون نگاری پر مشتمل کاوشوں کے لیے تجویز کیا گیا ایک قلمی نام تھا لیکن بعد ازاں جب فاروق طارق، شعیب و دیگر ساتھی الگ ہوئے تو یہ نام ڈاکٹر تنویر گوندل کے ساتھ ہی چسپاں رہ گیا-
سٹرگل گروپ پاکستان /جدوجہد ایک ایسے وقت میں پنجاب سے ابھرا جب پاکستان میں ترقی پسند دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کی بہت بڑی تعداد میں گورباچوف کی گلانوسٹ، پرسٹرائیکا کا بڑا چرچا تھا اور پاکستان میں لیفٹ سیاست روبہ زوال تھی، کلاسیکل مارکسی نظریات کو لبرل ازم اور نیولبرل ازم کی قربان گاہ پر قربان کیا جارہا تھا- پی پی پی کی لیفٹ شناخت کے ساتھ سیاست کرنے والے سیاسی کارکنوں کی تعداد میں کمی آرہی تھی اور پی پی پی کو دائیں سمت کی طرف دھکیلنے اور تھیچر ازم اور ریگن ازم سے محبت کا اظہار شدید سے شدید تر ہوتا جارہا تھا-
پاکستان میں سیاسی معشیت کے میدان میں عالمی مالیاتی اداروں کے ماہرین معشیت کے لہجوں میں فتح کا طنطنہ تھا اور ڈاکٹر محبوب الحق کے پیش کردہ نظریات کی پوجا کا عمل جاری و ساری تھا-
ایک کلیشے اُن دنوں میں عام عقیدہ بنکر رہ گیا تھا کہ ریاست کا کردار بس ایک ریگولیٹری ایجنسی کا ہے اور اس کا کوئی تعلق نہ تو سرمایہ کی پیداوار سے ہے اور نہ سماجی و سروسز سلیکٹرز کو چلانا ہے- معشیت کی بیماری کا علاج بس نجکاری ہے-
پی پی پی اور بھٹو معشیت کی تباہی، صعنتی ترقی کے زوال پذیر ہونے اور قومیائے گئے اداروں کی بربادی کے سب سے بڑے زمہ دار تھے-
ایسے میں اشتراکی بنیادوں پر منصوبہ بند معشیت، سوشلزم کے قابل عمل ہونے کے لیے مضبوط اور ٹھوس دلائل اور مارکسی خیالات کو عوام تک پہنچانے میں جدوجہد گروپ کے رسالے، کتابیں اور کتابچوں کی اشاعت اور اسٹڈی سرکلز کے ازسرنو آغاز نے کافی اہم کردار ادا کیا-
نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹ جانے، دیوار برلن کے گرجانے اور مشرقی یورپ میں کمیونسٹ ریاستوں کے خاتمے کے بعد پاکستان میں امریکی سرمایہ دارانہ بلاک کی طرف سے فوکویاما کی طرف سے لکھی جانے والی کتاب ‘ تاریخ کا خاتمہ’ نے نیولبرل سرمایہ داری کے حامی دانشوروں اور پروپیگنڈا سازوں کو پاکستان میں یہ کہنے کا جواز فراہم کیا ریاست کا اشتراکی ماڈل قصہ پارینہ اور ازکار رفتہ ہوگیا ہے – پی پی پی اور نیپ کی باقیات بلوچستان اور کے پی کے میں پارلیمانی سیاست کرنے والے دھڑوں کی مرکزی قیادت کے اندر بھی اسے قبول عام حاصل ہوا-
دوسری جانب دائیں بازو کی مذھبی بنیاد پرست جماعتوں نے سموئیل پی ہنگٹن کے ‘تہذیبوں کا تصادم’ کو آسمانی سچ مان کر اشتراکیت کے ہمیشہ کے لیے خاتمے کا اعلان کیا-
جدوجہد گروپ کے تحت سامنے آنے والی روایت نے ان دونوں چیلنجز کا فکری و نطریاتی سطح پر بھی جواب دیا اور ورکنگ کلاس کو منظم کرنے کے لیے ٹریڈ یونین، کسانوں کے کسان رابطہ کمیٹیوں، طالب علموں اور نوجوانوں کے لیے نوجوان محازوں کی تشکیل کا عملی کام بھی کیا- اس دوران سامنے آنے والا لٹریچر ان چیلنجز کے جوابات دینے کے لیے کافی مددگار ثابت ہوا-
اگرچہ خود فار لیفٹ کے اپنے اندر سوویت یونین اور مشرقی کمیونسٹ بلاک میں رائج نظام کے بارے میں بحث نے جنم لیا، بیوروکریٹک ریاست، سٹیٹ کیپٹل ازم اور ساتھ ساتھ پہلی بار ٹراٹسکائیٹ ازم اور اسٹالن ازم کی بحث شروع ہوئی-
جدوجہد گروپ میں بھی تقسیم ہوئی اور پھر ڈاکٹر لال خان کا گروپ طبقاتی جدوجہد کہلانے لگا اور یہ طبقاتی جدوجہد ڈاکٹر لال خان کی زندگی کے آخری عشرے میں بڑی تقسیم کا شکار ہوا اور اس سے الگ ہوکر ‘ریڈ ورکرز فرنٹ’ بن گیا-
پاکستان میں مارکس واد سیاست کا احیاء اور ایسے ہی پی پی پی کو دوبارہ 68-69 کی انقلابی تحریک سے جنم لینے والی روایت سے جوڑنے کا خواب دونوں کی ڈاکٹر لال خان کی زندگی میں شرمندہ تعبیر نہ ہوئے- مگر اُن سے نظریہ اور عمل کی تربیت پانے والے کئی سو کیڈر اس ملک میں موجود ہیں جو اپنے اپنے محاذ پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں-
میں اُن کا کبھی براہ راست شاگرد نہیں رہا لیکن اُن کے ساتھی کامریڈ فاروق جن سے ایک لمبے عرصے کے بعد اُن کی صلح ہوئی سے میں نے کافی کچھ سیکھا- بہت سی تکنیکی مہارتیں خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مہارت کے ابتدائی اسباق کامریڈ فاروق طارق سے ہی لیے جو میری صحافتی، ادبی، سیاسی زہنی مشقت کو ضبط تحریر میں لانے اور اُسے پھیلانے میں ممد و معاون ثابت ہوئے-
ڈاکٹر لال خان سے مجھے سو اختلافات تھے اور میں اُن کا کئی معاملات میں سخت ناقد بھی تھا لیکن اُن کے دانشورانہ اور عملی جدوجہد و مساعی کا ہمیشہ اعتراف کرتا رہا اور اسی بنیاد پر وہ سرخ سلام کے مستحق ہیں
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر