نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

باقی سب خیر اے…!رؤف کلاسرا

اگر صحافی اس کا طبلہ بجاتا رہے تو وہ ٹھیک ہے‘ لیکن اگر ایک دفعہ بھی کوئی خبر دے دی تو پھر وہ قابلِ اعتبار نہیں رہے گا

پچھلے دنوں پی ٹی آئی کے ایک وزیر دوست سے طویل ملاقات رہی ۔ اس سے دوستی کی وجہ سیاسی یا صحافتی نہیں ‘اس لیے دوستی بچی ہوئی ہے ورنہ میرا پچھلے بائیس سال کا رپورٹنگ کا تجربہ یہ کہتا ہے کہ سیاسی لوگ اس وقت تک صحافیوں سے دوستی کا ناٹک کرتے ہیں جب تک وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں۔ ہر وقت آپ کو بھائی بھائی کہہ کر پکاریں گے‘ لیکن جونہی اقتدار میں جاتے ہیں ‘ان کی آنکھیں ماتھے پر چڑھ جاتی ہیں اور پھر وہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کا رعب‘ دبدبہ برداشت کیا جائے۔ ہم دیہاتی لوگ جلدی اس چکر میں آجاتے ہیں کہ فلاں وزیر ہمارا دوست ہے‘ حالانکہ وہ وزیر کسی کا نہیں بس دو تین چیزوں کا دوست ہوتا ہے‘ ایک تو وہ پارٹی قائد جس نے اسے وزیر بنایا ہوتا ہے‘ وہ ہر وقت اس کے گیت گاتا رہے گا ۔ آپ ٹی وی چینلز پر ہر پروگرام میں دیکھیں کہ ہر دو منٹ بعد وہ وزیراعظم کی تعریفیں شروع کرے گا‘ پارٹی قیادت کو سلام پیش کرے گا اور پھر مسلسل وہ انہی کی تعریفوں میں پورا پروگرام گزاردے گا۔ اسے علم ہے کہ پورا جہان ناراض ہو جائے‘ لیکن کسی صورت وزیراعظم یا پارٹی قائد کو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا‘ وہ وزیر یہ دیکھتا ہے کہ کون سا اینکر یا صحافی اس کی شان میں قصیدے پڑھ سکتا ہے۔

اگر صحافی اس کا طبلہ بجاتا رہے تو وہ ٹھیک ہے‘ لیکن اگر ایک دفعہ بھی کوئی خبر دے دی تو پھر وہ قابلِ اعتبار نہیں رہے گا۔ یہ لوگ وزیر بن کر ہر وقت یہ توقع رکھتے ہیں کہ ان کی خوشامد کی جائے اور ان کے پروٹوکول کا خیال رکھا جائے۔ میں نے اب تک دو وزیروں کو دیکھا جو وزیر بن کر بھی ظرف میں رہے۔ وہ نواب یوسف تالپور اور اسحاق خاکوانی ہیں۔ پھر وزیر یہ خیال رکھتے ہیں کہ ان کا کسی ایسے صحافی کے ساتھ میل جول نہ ہو جو حکومت یا وزیراعظم کی گڈ بکس میں نہ ہو۔ اس صحافی سے یہ فاصلہ رکھیں گے کہ کہیں رپورٹ ہوگیا تو ان کیلئے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ یوں میرے ساتھ ہر دفعہ یہی ہوتا ہے‘ جب کوئی نئی حکومت آتی ہے تو اپوزیشن کے دنوں کے دوست سیاستدان فوری طور پر راہ بدل لیتے ہیں۔ ہم پہلے سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ تم روٹھے ہم چھوٹے کیونکہ رپورٹر کو سوٹ کرتا ہے کہ وزیر یا طاقتور لوگ اس سے ناراض رہیں اور وہ کھل کر اپنی خبریں فائل کرتا رہے؛ تاہم اس دوست کو داد دینا پڑے گی کہ پی ٹی آئی میں ہونے کے باوجود اب بھی کھلے عام مل لیتا ہے اور گپ شپ لگا لیتا ہے ۔ میں نے دو تین دفعہ ملنے سے انکار کیا کہ میری وجہ سے کہیں اسے نقصان نہ ہو‘ اگر وہ میرا خیال کرتا ہے تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ اس کا خیال کروں ‘ لیکن وہ الٹا ناراض ہوگیا کہ چھوڑو یار اب بندہ ذاتی تعلقات بھی سیاسی اختلافات کی وجہ سے ختم کر بیٹھے۔
خیر‘ ملتے ہی پوچھنے لگے کہ کیا خبریں ہیں؟میں کوشش کرتا ہوں زیادہ سیانا نہ بنوں اور چپ کر کے سنوں کہ اندر کھاتے کیا خبریں چل رہی ہیں ۔وہ وزیر کہنے لگے: سب بہترین ہے‘ اس وقت خان صاحب سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں ۔اتنی مشکلات کے باوجود ان کا ستارہ عروج پر ہے‘ یہی دیکھ لیں کہ پوری اپوزیشن غیر فعال ہو چکی ہے۔ نواز شریف اور شہباز شریف لندن میں ہیں‘ زرداری کراچی میں پڑے علاج کرا رہے ہیں۔ سب بڑے سیاسی لیڈر احسن اقبال‘ شاہد خاقان عباسی اورسعد رفیق جیل میں ہیں۔ عسکری ادارے بھی خان صاحب کے ساتھ ہیں‘ کہیں سے کوئی تھریٹ نہیں ہے۔وہ جس مٹی میں ہاتھ ڈالتے ہیں سونا بن جاتی ہے۔یہی دیکھ لو کہ سعودی عرب اور ملائیشیا والا ایشو تھا‘ وہ کتنے اچھے طریقے سے ہینڈل ہوگیا ۔ترکی اور ملائیشیا ناراض تھے تو انہیں منانے پہلے خود ملائیشیا چلے گئے اور ان کو اپنی مجبوریاں سمجھائیں تو وہ مان گئے‘رہ گیا ترکی تو اس کے صدر کو بلا کر عظیم استقبال کرا کے اسے بھی راضی کر لیا۔ عالمی سطح پر خان صاحب سے بہتر ڈپلومیسی اور کون کرسکتا ہے؟
میں نے کہا :اس کے علاوہ کیا چل رہا ہے؟ تو کہنے لگے: باقی ستے خیراں ہیں بس اسمبلی میں کچھ چلتا رہتا ہے۔ جو ایم این ایز ہیں وہ اس چکر میں ہیں کہ وہ چیئر مین سٹینڈنگ کمیٹی لگ جائیں کہ چلیں ایک سرکاری گاڑی مل جائے گی۔چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی اس چکر میں ہیں کہ کسی طرح وہ پارلیمانی سیکرٹری لگ جائیں تو گاڑی کے ساتھ ایک دفتر اور کچھ سٹاف بھی مل جائے گا ‘ جبکہ پارلیمانی سیکرٹری سمجھتے ہیں کہ وہ وزیر بن کر بہتر پرفارم کریں گے۔وزیروں کو دیکھیں تو ان کا آپس میں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے۔ جو سلیکٹڈ وزیر ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ الیکٹڈ وزیروں کو کیا پتہ کہ حکومت اور سیاست کیا ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو سیریس نہیں لیتے۔ میں نے پوچھا: یہ سلیکٹڈ کون کون ہیں؟ وہ بولے: حفیظ شیخ‘ رزاق دائود‘ ارباب شہزاد اورعشرت حسین ۔
وہ کہنے لگے: پرانے پی ٹی آئی والے نوجوان وزیروں کو سنجیدہ نہیں لیتے کہ انہی نے ہی حکومت میں سارا ماحول خراب کیا ہوا ہے۔ ان کے فیصلوں کو پارٹی بھگت رہی ہے۔پی ٹی آئی کے اندر سینئر اور جونیئر وزیروں میں علیحدہ گروپس ہیں۔ سینئرز میں پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی‘ اعجاز شاہ ‘ شفقت محمود اورعمر ایوب جیسے لوگ شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کہ نوجوان وزیروں کو سیاست کا کیا علم ‘ جبکہ نوجوانوں کا گروپ جس میں مراد سعید‘ علی محمد یا آفریدی شامل ہیں ان کا اپنا مزاج ہے۔ دوسری طرف ایم این ایز ہاؤس میں آنے کو تیار نہیں‘ جس وجہ سے کورم کا مسئلہ پیدا ہورہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جناب ہم لوگوں نے ماریں کھائیں‘ دھرنے میں بیٹھے‘ بائیس سال محنت کی اور اب اقتدار پی ٹی آئی کے سلیکٹڈلے اڑے ہیں۔ ان لوگوں نے نہ عوام کا سامنا کرنا ہے اور نہ ہی ووٹ لینے ہیں‘ سب بوجھ تو ہم پر ہے‘ جبکہ حفیظ شیخ ‘ رزاق دائود‘ ندیم بابر اورارباب شہزاد جیسے لوگ اپنا بیگ اٹھا کر چلتے بنیں گے ‘ عوام کے غضب کا سامنا تو ہم نے کرنا ہے اور سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا منہ لے کر عوام میں جائیں‘ کیونکہ ہر جگہ ہم پر سخت تنقید ہورہی ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔
وہ دوست پھر بولا: لیکن عمران خان کی خوش قسمتی چیک کرو ‘تمام وزیر ان کے وفادار ہیں ۔ وفاداری میں سب کے نمبرز پورے ہیں۔ بس کارکردگی کا نہ پوچھو‘ لیکن ٹرانسفر پوسٹنگ میں یہ پورے نمبرز لے رہے ہیں۔ وہ بولا : اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ خان صاحب نے پچھلے اٹھارہ ماہ عثمان بزدار صاحب اور محمود خان صاحب کے ساتھ نکال لیے ہیں ۔ بزدار کے پنجاب اور محمود خان کے خیبر پختونخوا میں ہوتے ہوئے بھی وہ آرام سے حکومت کررہے ہیں اور کہیں سے خطرہ نہیں۔ یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟
میں نے کہا: یقینا یہ خوش قسمتی کی نشانی ہے کہ ہر کام سیدھا جارہا ہے ‘اگرچہ سیانے کہتے ہیں کہ بندے کو ٹھوکر اسی وقت لگتی ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ سب کام ٹھیک چل رہا ہے۔ دوست کہنے لگا: آپ میڈیا کے لوگ ویسے ہی ہر وقت خان صاحب کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ‘ورنہ خان صاحب اس وقت طاقت اور قسمت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔دوست بولا کہ بس ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے۔ باقی تو سب خیر اے۔ میں چونک پڑا اور پوچھا :خیریت؟
وہ بولا: باقی سب کچھ اعلیٰ چل رہا ہے‘ اتحادی بھی اپنی کینڈے پر آگئے ہیں‘ وزیر بھی مزے کررہے ہیں‘ بچ بچا کر ایک احساس پروگرام ہے جسے ہر دو ہفتے بعد ہم کہیں نہ کہیں تقریر یا تقریب کر کے بیچ دیتے ہیں ‘اگرچہ وہ بھی ہم سے پوری طرح بک نہیں پا رہا ‘ لیکن بس ایک معمولی سا مسئلہ ہے۔
میں نے کہا وہ کیا ؟ وہ بولا: بس عوام کی مہنگائی سے چیخیں نکل رہی ہیں ورنہ تو سب خیر ہے‘ خان صاحب کی خوش قسمتی کا ستارہ عروج پر ہے۔
میری ہنسی چھوٹ گئی ۔ وہ دوست ناراض ہوا اور بولا: کیا ہوا ؟
میں نے کہا: کچھ نہیں بس ویسے ہی‘ سب خیر اے کا سن کر ایک لطیفہ یاد آگیا۔
برما کے محاذ پر ہندوستانی فوجی کو گھر سے خط ملا کہ تمہاری منگیتر نے بھاگ کر شادی کرلی ہے‘بابا پچھلے ماہ فوت ہوگئے ہیں ‘ اماں بیمار ہیں‘ گھر میں اکیلی بھینس جو بچوں کے لیے دودھ دیتی تھی‘ چوری ہوگئی ہے اور پرسوں بارش میں گھر کی چھت بھی گر گئی ہے۔
باقی سب خیر اے..

About The Author