پہلے پہل کبھی کبھی کوئی خبر ملتی تھی، فلاں اخبار میں تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے، یونین وہاں مظاہرہ کرتی تھی، مالکان تنخواہیں ادا کر دیتے تھے۔ کہیں سے کوئی نکالا گیا تو اس کے لیے کہیں نہ کہیں جگہ بن جاتی تھی لیکن پھر اس تبدیلی کو آنا تھا۔
جن مالکان نے چیخ چیخ کر پی ٹی آئی کی تبدیلی کے نعرے لگائے، ان کے سٹیج کی زینت بنے آج وہ ہی سب سے زیادہ رو رہے ہیں۔
کہتے ہیں میڈیا انڈسٹری کے حالات بہت خراب ہیں، چھانٹیاں کرنے لگے، تنخواہوں میں کٹوتی کر دی، پھر بھی نقصان ہے کہ پورا نہیں ہو رہا۔
پہلے صحافتی تنظیمیں نامعلوم افراد کے تشدد، اغوا اور قتل کے بعد صحافی کے لیے مظاہرہ کیا کرتی تھیں بڑا بھرپور مظاہرہ ہوتا تھا۔ آج کل تنظمیوں کے کئی ٹکڑے ہو چکے ہیں مظاہرے بھی تین روز میں تین مختلف جگہوں پر ہوتے ہیں لیکن نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔
آج کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز میں تین ماہ سے دس ماہ تک کی تنخواہیں بقایا ہیں۔ کہیں کو ئی فیاض مارا جاتا ہے تو کبھی ملک رضوان کی خبر آتی ہے۔ عابد راہی کو اپنی محنت کی کمائی مانگنے کے لیے دفتر کی سیڑھیوں پر بیٹھنا پڑتا ہے پھر بھی اسے قسطوں میں تنخواہ ملتی ہے۔
کام تو قسطوں میں نہیں کیا تھا پھر تنخواہ کیوں تاخیر سے ملے وہ بھی قسطوں میں؟۔ مالک مکان، سکول والے، کریانہ والے تو اپنی رقوم قسطوں میں نہیں لیتے۔ مالک مکان کو تو اس بات سے غرض نہیں کہ تنخواہ چھ ماہ سے نہیں ملی، اسے تو ہر ماہ پانچ تاریخ کو کرایہ چاہیئے۔
بجلی اور گیس والے میٹر اتارتے وقت ذرا رعایت نہیں کرتے کہ چلو جب تنخواہ مل جائے تو بل جمع کرا دینا۔ دودھ والا تو پیسے ملنے پہ ہی دودھ دے گا، پٹرول پمپ والا کبھی بھی ادھار پہ پٹرول نہیں دے گا، سکول والے تو فیس نہ ملنے پہ اسمبلی میں بچے کو ذلیل کر دیتے ہیں۔
کریانہ والا بھی کیا کرے، اسے بھی تو دکان میں سامان ڈلوانا ہے، اسے کیا غرض ہے کہ رپورٹر نے کتنی ایکسکلوزو ایک ماہ میں دی ہیں، کسی کیمرہ مین نے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر لاجواب شاٹ بنائے اسے کیا؟۔
ایک قائمہ کمیٹی اجلاس میں سی پی این ای کے نمائندہ محترم خوشنود علی خان صاحب نے کہا کہ میڈیا مالک اور صحافی کا رشتہ باپ بیٹے کا ہوتا ہے۔ میں نے وہاں ہاتھ جوڑ کے ان سے کہا کہ یہ کیسا باپ بیٹے کا رشتہ ہے کہ باپ امریکا کی سیریں کرتا پھرے اور بیٹا بھوک سے بلک رہا ہو؟۔
یہاں صورتحال ایسی ہے کہ وہ مالکان جنہیں نقصان کا دعویٰ ہے وہ ایک اخبار سے دو اخبار، ایک چینل سے چار چینل کھول بیٹھے ہیں مگر کہتے ہیں کہ نقصان میں ہیں۔
پیمرا میں نئے چینلز کے لائسنس کی نیلامی کے موقع پر جب بول ٹی وی نے انٹرٹینمنٹ لائسنس کے لیے بولی دی تو میں نے کھڑے ہو کے اس کی مخالفت کی۔
میں نے کہا جو چینل آج بھی نکالے گئے ملازمین کی چھ چھ ماہ کی تنخواہوں کا مقروض ہے، موجودہ ملازمین کو بھی چار ماہ سے تنخواہ نہیں دے سکا تو اسے نیا لائسنس لینے کا بھی کوئی حق نہیں کہ وہ لائسنس پہ چھ کروڑ خرچ کرے لیکن ملازمین کو تنخواہیں نہ دے۔
نوائے وقت کی زبردستی کی لے پالک مالکن رمیزہ نظامی کے بارے میں واقفان حال کہتے ہیں کہ اس نے پاکستان سے اربوں روپے نکال کے بیرون ملک سرمایہ کاری کی ہے یعنی منی لانڈرنگ ہوئی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں بلکہ یہ لکھنے والے سینئر صحافیوں کو ایف آئی اے سے گرفتار کرا دیا۔
یہاں نصرت جاوید، طلعت حسین جیسے اینکرز نکالے گئے کیونکہ وہ تبدیلی کے گن نہیں گا رہے تھے۔ مطیع اللہ جان، فیصل شکیل بھی کشتی کا بوجھ سمجھ کے اتار دیئے گئے لیکن وہ جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں تھا بس تبدیلی آئی رے گاتے تھے وہ کامیاب تجزیہ کار بنے بیٹھے ہیں۔
کل ہمارے بہت ہی پیارے دوست فصیح الرحمن خان کی موت کی خبر نے بھی پتھر دلوں پہ اثر نہیں کیا، جنگ اخبار میں خبر لگی کہ جنگ گروپ سے وابستہ سینئر صحافی فصیح الرحمن انتقال کر گئے جبکہ سوشل میڈیا کے مطابق فصیح الرحمن جیسا قابل صحافی سات ماہ سے بیروزگار تھا، اپنی جائیداد اور جمع پونجی بیچ کر گزارا کر رہا تھا۔
ایسے جید صحافی کو اگر ایسے دن دیکھنے پڑیں جہاں اسے تنگ و تاریک گلی میں دھکیل دیا جائے اور اسے راستہ دکھائی نہ دیتا ہو تو پھر سمجھ لیں کہ تباہی اس صنعت کا مستقبل بن گئی ہے۔
یہاں مالکان کے خلاف بات کرنے پر بھی سزا ملتی ہے، خبردار کوئی بھی مالکان کے خلاف آواز نہ اٹھائے کیونکہ یہ سب سیٹھ ایک مٹھی کی طرح متحد ہیں جبکہ ہم ورکرز اتنے تقسیم ہیں کہ ایک تنظیم کسی ورکر کے لیے مظاہرہ کرے تو دوسری تنظیم مالکان سے اظہاریکجہتی کرنے پہنچ جاتی ہے۔ تیسری ہلکی سی آواز میں نعرہ لگاتی ہے زندہ ہے صحافی زندہ ہے۔
چوتھی اور پانچویں تنظیم کو ابھی اپنے کاروبار سے فرصت نہیں اس لیے خاموشی میں ہی عافیت جانتی ہیں۔ ایک ایک کر کے ہمارے بہت ہی قابل ساتھی بیروزگار ہو رہے ہیں کچھ نہیں ہوتا۔
جس روز مالکان کے اشتہارات بند ہوئے تو دیکھئے گا کچھ تنظیمیں وزارت اطلاعات کے سامنے دھرنا دیں گی کیونکہ ورکر ساتھی تو برے حالات کے عادی ہیں مالکان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیئے۔ ملک رضوان، فیاض علی اور فصیح الرحمن اگر مرتے ہیں تو مر جائیں۔ مالکان مرے تو انڈسٹری کو نقصان پہنچے گا۔
کاش ان لیڈران کو سمجھ آ جائے کہ ان کی لیڈری ورکرز کے دم سے ہے ورکر نہیں رہیں گے تو کس کے لیڈر بنیں گے؟۔ باقی ہم سب اپنے ساتھیوں کا پرسہ ایک دوسرے کو دیتے رہیں گے اور یہ نعرہ بھی جاری رہے گا۔۔ زندہ ہیں صحافی زندہ ہیں چاہے وہ روز مرتے رہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور