گزشتہ روز یونائیٖٹڈ بک سنٹر ڈیرہ اسماعیل خان میں بڑی نادر کتابوں کی لاھور سے نئی کھیپ آئی ۔چونکہ سنٹر کے مالک لطیف صاحب کا اپنا مطالعہ بڑا وسیع ہے اس لیے وہ اردو اور انگریزی کی ڈھونڈ کر اچھی کتابیں لاتے ہیں اور ڈیرہ کے صاحب ذوق انتظار میں ہوتے ہیں اور جلد کتابیں بک جاتی ہیں۔
کچھ کتابیں میرے ذوق کی تھیں جو میں نے خرید لیں۔ ایک کتاب کا نام
freedom at midnight
نصف شب کی آزادی ہے۔ یہ کتاب ایک امریکی سکالر لاری کولنس Larry collins اور فرانسیسی شخص ڈامینک لیپری Dominique Lapierre نے مل کر ہندوستان کی آذادی پر لکھی ہیں۔ آج میں اپنے دوستوں کو بتاتا ہوں کی کتاب کیسے لکھی جاتی ہے ؟
ان دونوں سکالرز کو اس کتاب کی تصنیف کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ انہوں نے لندن کے اخبار ٹایمس Times میں اشتہار دیا کہ جن لوگوں نے 1940 سے 1947 تک ہندوستان میں کام کیا ہے وہ اپنے پتے سے ہم کو مطلع کریں۔
جواب میں ان کو دو ہزار خطوط ملے۔انہوں نے ان تمام لوگوں کے پاس اپنی ٹیم بھیج کر انٹرویو لیے اور رپورٹ تیار کی۔ انہوں نے ہندوستان۔پاکستان۔اور برطانیہ کے تین سفر کیے اور مختلف تاریخ جاننے والوں سے بارہ ہزار انٹرویو تیار کیے۔
ان کی تحقیق ۔دستاویزات اور انٹرویو کے کاغذات کا وزن ایک ٹن سے زیادہ تھا۔مگر ان کے فرانس کے دفتر میں ان کو اس طرح ترتیب سے رکھا گیا کہ ان کی خاتون سیکریٹری کسی مخصوص کاغذ کو ایک منٹ میں نکال سکتی تھی۔
اب انہوں نے کتاب لکھنا شروع کی۔نصف حصہ کالنس نے انگریزی میں لکھا اور بقیہ نصف لیپری نے فرانسیسی زبان میں لکھا۔ہر ایک دوسرے کے لکھے ہوے کو دیکھتا اور بے رحمانہ تنقید کرتا۔جب دونوں مطمئن ہو جاتے تو آخری مسودے کو ایک مقامی کسان کی بیوی کو پڑھنے کے لیے دیتے۔
اگر خاتون یہ کہتی کہ میں ٹھیک سے سمجھ نہ سکی تو وہ فرض کر لیتے کہ ابھی کچھ غلطی ہے اور اس حصے کو دوبارہ لکھتے۔ آخری ایک سال انہوں نے روزانہ اٹھارہ گھنٹے کام کیا اور اس طرح اپنی کتاب تیار کی۔ مصنف نے یہ تفصیل بتاتے ہوے ایک انٹرویو میں کہا۔
We lived like hermits and we produced…Freedom at midnight.
جس کامطلب ہے کہ ہم نے رہبانوں کی طرح زندگی بسر کی اور پھر ہم نے اپنی کتاب فریڈم ایٹ مڈ نائیٹ تیار کی۔
یاد رکھیں دنیا میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں اور بڑا کام سرانجام دیتے ہیں جو وقت کے مطابق علمی قابلیت رکھتے ہوں اور اپنی کارکردگی پر پوری محنت اور مستعدی کا ثبوت دیں۔ انڈیا کے ایک مصنف راجہ مہندر پرتاپ نے سو سال پہلے ایک کتاب لکھی۔پریم دھرم
The relegion of love.
راجہ مہندر پرتاپ 1919 میں آذادی پسندوں کے ایک وفد کے ساتھ لینن سے ملنے روس گیا۔ اس نے ملتے ہی لینن کو یہ کتاب پیش کی ۔لینن نے اس کتاب کو ہاتھ میں لیتے ہوے کہا وہ اس کتاب کو پہلے ہی پڑھ چکے ہیں۔
پرتاپ نے لینن سے حیران ہو کے پوچھا آخر یہ کتاب آپ کو کہاں سے ملی؟۔لینن نے بتایا کہ پچھلی شام جب وہ لینن کے سیکرٹری سے ملاقات کا وقت لینے آے تھے تو کتاب کا ایک نسخہ سیکرٹری کو دیا تھا۔ سیکرٹری نے آپ کا تعارف کراتے ہوے مجھے یہ کتاب دکھائی میں نے وہ کتاب اس سے لے لی اور رات کو پڑھ ڈالی کہ کل کے دن وہ جس شخص سے ملنے والا ہے اس کے خیالات کا مجھے پیشگی اندازہ ہو جاے۔لینن روس کا بانی تھا اور وہ غیر معمولی صلاحتیوں کا حامل آدمی تھا۔
اس کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور اس نے چار زبانیں سیکھ رکھی تھیں جن میں انگریزی۔رشین۔جرمن۔اور فرانسیسی زبانیں شامل تھیں اور وہ ان زبانوں میں بیک وقت گفتگو کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ مطالعے کے شوق کا یہ عالم تھا کہ دنیا کا مصروف ترین حکمران ہونے کے باوجود ایک غیر معروف ہندوستانی کی کتاب اس نے راتوں رات اس لیے پڑھ ڈالی کہ کل وہ جس شخص سے ملنے والا ہے اس کے خیالات کا پہلے سے اندازہ ہو جاے۔
آج کل ہمارے ملک میں نہ تو کتابیں لکھنے پر اتنی محنت کی جاتی ہے نہ مطالعہ کے شوقین رہے اور کتابیں الماریوں میں جلتی بلتی رہتی ہیں۔ بقول اقبال ہم علم کی ترویج سے تو گیے اب صرف؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں۔
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ