نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گڑ توں مٹھی ماں بولی ۔۔۔ عفت حسن رضوی

ہم اردو بولنے والوں کو اچھی بریانی بنانے کے علاوہ اور بھی بہت سے زعم ہوں گے لیکن یہ اہل زبان ہونے کا غرور کم از کم میری دانست میں بالکل بےجا ہے۔

ہم اردو بولنے والوں کو اچھی بریانی بنانے کے علاوہ اور بھی بہت سے زعم ہوں گے لیکن یہ اہل زبان ہونے کا غرور کم از کم میری دانست میں بالکل بےجا ہے۔

صاحب ذوق افراد سے معذرت کے ساتھ، میرے حساب سے تو ہر وہ شخص جو منہ میں زبان رکھتا ہے اہل زبان ہے۔ اب چاہے اس زبان سے کھلی ڈلی پنجابی کے بول نکلیں یا کسی بھی ماں بولی کے۔

اس اہل زبان یعنی اردو سپیکنگ ہونے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ہم  نے زندگی کے 25 سال میمن کمیونٹی میں گزار دیے لیکن مجال ہے جو میمنی یا گجراتی زبان سیکھ پائے ہوں۔

ادھر جو میمن بچے ہمارے دوست بنے وہ بڑے اتراتے ہوئے کہتے تھے کہ ممی پپا گھر میں میمنی زبان نہیں بولنے دیتے۔ خیر یہ اپنی زبان سے کترانے کا خبط پنجاب میں بھی عام ہے۔ یہاں بھی اکثر والدین بہت ناز سے بتاتے ہیں کہ ان کے بچے پنجابی نہیں بولتے۔

اب ہم اردو بولنے والوں کا غم  بھی سن لیجیے۔ گھر میں اردو، باہر اردو، ٹی وی پہ اردو، ڈراموں میں اردو۔ چار جانب اردو کا بول بالا ہی ملا، سو ہم جو ماں کی گود سے اردو سنتے آئے اب تک اردو پر ہی ٹکے رہے۔ سکول میں سندھی لازمی پڑھی مگر بولنا نہیں آئی۔ کانوں نے کراچی کے تاجروں کی زبان یعنی گجراتی بھی بہت سنی مگر بولنا نہیں آئی۔ اسلام آباد ہجرت کی تو کشمیری، پوٹھوہاری، سرائیکی اور پشتو سننے کو ملی۔ اردو بولنے والوں کو یہ زبانیں بولنا تو کیا سن لیں تو سمجھنا بھی دشوار ہے۔

یہاں تک کہ میں نے سپریم کورٹ میں وکلا کی اکثریت کو پنجابی زبان میں باتیں کرتے سنا۔ اب یہ عالم ہے کہ میں کبھی شوق شوق میں پنجابی بولنے کی کوشش کروں کوئی لفظ سندھی اور کوئی لفظ کشمیری کا مل جاتا ہے۔ سننے والے تو مسکرا دیتے ہیں لیکن میں اپنی اس بولی کو مختلف زبانوں کی مکس پلیٹ کہتی ہوں اور اسے بولنے سے باز نہیں آتی۔

جنہیں اپنی زبان بلوچی یا براہوی بولنے میں عار ہے یا پھر اگر کوئی پشتو بولنے والا اپنے بچوں کو پشتو سکھانے میں تردد کا شکار ہے، وہ  مجھ سے پوچھے کہ کیسے بہت چاہتے ہوئے بھی میں جب پنجابی بولنا چاہتی ہوں تو میری زبان لکنت کا شکار ہو جاتی ہے۔

پتا نہیں کن بے وقوفوں کو اپنی ماں بولی پہ شرمندگی ہے، انہیں معلوم ہی نہیں کہ مادری زبان بولنے سے شرمانا ایسا ہی ہے جیسے کہ انسان اپنی ماں کا تعارف کراتے ہوئے شرمائے یا اپنی شناخت جھٹلائے۔

وہ بول جو اپنی ماں سے سیکھتے ہیں ساری عمر زبان سے لپٹے رہتے ہیں، پھر چاہے زبان کی نوک کو ذرا ٹیڑھا کر کے اس پر انگریزی کا لہجہ لانے کی ہزار کوشش کرو، گلا صاف کر کے لاکھ جرمن بن جانے کی پریکٹس کرو، ماں بولی اپنی جھلک دکھلا دیتی ہے۔

کچھ ہماری جسمانی ساخت بنانے میں بھی قدرت نے ماؤں کے ساتھ مل کر کاری گری دکھا رکھی ہے۔ ہمارے گلے اور زبان کی ساخت ہماری بولی کے الفاظ، لہجے اور انداز کی مناسبت سے بنتے ہیں۔ بہت سی زبانوں میں حلق سے آواز نکالتے ہیں، کہیں الفاظ کرخت ہیں مگر لہجہ نرم اور کہیں جملوں کی ادائیگی میں ناک حلق اور زبان کا بیک وقت استعمال ہے۔

غم و غصے میں ماں کی بولی یاد آتی ہے، جب درد سے سینہ پھٹتا ہے تب مادری زبان بولی جاتی ہے، ہم ارادے باندھتے اور خود سے باتیں اپنی مادری زبان میں کرتے ہیں۔ وہ پاکستانی جو پردیس سدھار گئے وہ بھی گواہی دیں گے کہ ان کے خواب میں کہیں نا کہیں وہ اپنی ماں بولی ہی سنتے ہوں گے۔

بندہ دنیا کی زبانیں سیکھ لے لیکن مغلظات بکنے کا جو مزہ اپنی ماں بولی میں ہے وہ کسی میں نہیں۔ اب یہ نہ کہنا کہ ہماری ماں نے ہمیں گالیاں نہیں سکھائیں۔ کوئی بھی ماں اپنے بچے کو گالیاں دینا نہیں سکھاتی، یہ تو بس آ جاتی ہیں۔

ایسا نہیں کہ مائیں اپنے بچوں سے ہمیشہ میٹھی میٹھی ٹافیوں کی سی زبان میں بات کرتی ہی،ں بچے کو اپنی اماں سے گالیاں بھی پڑتی ہیں اور حسب حال مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو دور سے جوتی کھینچ کے بھی مار سکتی ہیں۔

میری ایک دوست کچھ عرصہ قبل امریکہ شفٹ ہوئی، فرفر انگریزی بولتی ہے مگر عجب ہی شکوہ کر ڈالا۔ کہنے لگی کہ یار عجیب سی مشکل ہے، محرم میں ایام عزا کے پورے 10 دن گزر گئے یہاں تک کہ یوم عاشور کی مجلس عزا میں بھی گریہ نہ کر سکی کیونکہ یہاں مجالس انگلش میں پڑھی جاتی ہیں۔

اسے سن کر رقت و گریہ تو دور کی بات دماغ فوکس ہی نہیں ہوتا۔ وہ بولے جا رہی تھیں کہ مجھے اسلام آباد کے اس ادبی فیسٹیول کا خیال آیا جہاں مادری زبانوں کا جشن منایا جا رہا تھا اور کچھ احساس کمتری کے مارے سیشن ختم ہونے کے بعد منہ ٹیڑھا کر کے خود نمائی کے لیے انگلش بول رہے تھے۔

گیت سنگیت، راک پاپ میوزک، شاعری، منقبت، نوحے مرثیے، حمد و نعت اپنی ماں بولی میں ہوتے ہیں تو دل میں اتر جاتے ہیں۔ یہ سب ہمارے لطیف جذبات کے ترجمان ہیں اور جذبوں کی ترجمانی کوئی انٹرنیشنل نمبر ون یا نمبر ٹو لینگویج نہیں اپنی مادری زبان کرتی ہے۔

جیسے انگریزی زبان دنیا کی قوموں سے جُڑے رہنے کا ذریعہ ہے، جیسے اردو پاکستان میں مختلف زبان بولنے والے پاکستانیوں کو آپس میں جوڑنے کا وسیلہ ہے ایسے ہی ہماری مادری زبانیں ہمیں اپنی نسل، اپنی اصل، اپنی شناخت بھولنے نہیں دیتیں۔ اس لیے کسی اتراتی شکل کے صاحب یا صاحبہ کے کہنے میں نہیں آیے گا، اگر تو اللہ نے آپ کو زبان دی ہے تو اپنی ماں کی بولی بولیں اور دماغ کی گرہیں کھولیں۔

About The Author