محمد عظیم شاہ بخاری
کسی بھی قوم کی پہچان، اس کی شناخت اس قوم کی ثقافت کے بغیر ادھوری ہے۔ ثقافت ہماری زندگیوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
دنیا کی کسی بھی قوم کو اْس کی زبان اور دیگر ثقافتی اقدار سے پہچانا جاتا ہے۔ زبان صرف ایک ذریعہ ابلاغ ہی نہیں بلکہ یہ ثقافت کے اہم بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ اس کے بغیر ثقافتیں ادھوری ہیں۔ زبان ہماری زندگیوں کا وہ اہم حِصہ ہے جس سے ایک طرف تو ہم اپنے خیالات دوسروں تک بہ آسانی پہنچا سکتے ہیں جب کہ دوسری طرف اسی کی بنیاد پر ہم مختلف قوموں، گروہوں اور قبیلوں کی انفرادی شناخت کو پرکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہماری ثقافت، زبان پر اثرانداز ہوتی ہے تو وہیں دوسری طرف زبان بھی ثقافت پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ غرض یہ دونوں آپس میں منسلک ہیں۔
اس وقت دنیا میں کم و بیش 6500 کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں کچھ زبانیں تو صفحۂ ہستی سے مکمل طور پر مٹ چکی ہیں جب کہ کئی زبانوں کے بولنے والے ہزاروں بلکہ سیکڑوں میں ہیں۔ ہمارے ملک پاکستان میں بھی قسم قسم کی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں مختلف قومیں اور زبانیں ایک ملک میں رنگ برنگے گل دستے کی طرح اکٹھی رپتی ہیں۔ پاکستان کی خوب صورتی کے رنگ ان ہی ثقافتی پہلوؤں میں چھپے ہوئے ہیں۔
وطنِ عزیز میں تقریباً 65 سے 70 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ پاکستان کی قومی زبان اردو جب کہ سرکاری زبانیں اردو اور انگریزی ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی علاقائی زبانوں میں پنجابی، سندھی، سرائیکی، پشتو، بلوچی اور براہوی شامل ہیں۔ جب کہ شیناء، کشمیری، ہندکو اور بلتی زبانوں کا شمار چھوٹی علاقائی زبانوں میں کیا جاتا ہے۔ ان زبانوں کے علاوہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں کئی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں بہت سی زبانوں کے متکلمین کی تعداد محض ہزاروں میں ہے۔ وجود کے خطرات میں گھری یہ زبانیں زیادہ تر ہند-فارس اور ہند-یورپی زبانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
پاکستان کے علاقے چترال کے بارے میں نارویجین زبان داں پروفیسر جارج مورگیسٹرن کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ پوری دنیا میں لِسانی تنوع کے لحاظ سے سب سے زیادہ زرخیز ہے۔ اِس چھوٹے سے خِطے میں کھووار کے علاوہ دس مادری زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں کالاشہ، یدغا، پالولہ، نورستانی، دامیلی، گواربتی(ساتر)، بروشسکی، واخئی، کیرغیز اور پشتو شامل ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زبانوں کا اپنا کوئی رسم الخط نہیں ہے۔ صرف چترال ہی نہیں، پاکستان کے بیشتر علاقے زبانوں کے لحاظ سے خاصے مالامال ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چار مختلف لِسانی خاندانوں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہند یورپی (اردو، پنجابی، سرائیکی، سندھی، پشتو وغیرہ)، دراوڑی (براہوی)، چینی تبتی (بلتی و زنسکاری) اور بروشسکی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہنزہ کی بروشسکی ایسی زبان ہے جو دنیا کی کسی اور زبان سے نہیں ملتی، اس لیے لامحالہ اسے بھی ایک الگ خاندان قرار دینا پڑے گا۔ دوسری جانب یہاں عربی، فارسی اور یغور سمجھنے اور بولنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔
پاکستان میں بولی جانے والی 74 میں سے درجنوں زبانوں کے سر پر معدومی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ کم از کم ایک زبان ‘بدیشی’ ایسی ہے جس کے بولنے والے صرف 3 افراد زندہ بچے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم ہے اور وہ آس پاس کی دوسری زبانوں کے غلبے تلے دب کر ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
یہ تعداد محض اندازے ہیں جو اکثر و بیشتر مغربی ماہرینِ لسانیات نے برسوں دور دراز پہاڑی علاقوں میں کام کر کے اخذ کیے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کے پاس سرکاری سطح پر اس ضمن میں کوئی اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔
چترال کی کھووار اور دوسری زبانوں کی ترقی و ترویج کے لیے چترال کے ایک شہری رحمت عزیز صاحب نے ایک شان دار قدم اٹھایا اور 1996 کراچی میں کھووار اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ زبانوں کی یہ تنظیم نہ صرف کھووار بلکہ کئی دوسری چھوٹی بڑی زبانوں میں مختلف کتابوں کے تراجم کر رہی ہے۔ اس اکیڈمی کو چترال اور ملک کی دیگر مادری زبانوں کے لیے ایک ”مضبوط سہارا” کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔
آیر؛
آیر یا آئر ہند-یورپی لسانی خاندان کی ہند-ایرانی شاخ سے نکلی زبان ہے جس کے بولنے والے قیام پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں کافی تعداد میں موجود تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد آیر زبان بولنے والے جو ہندو تھے وہ ہندوستان میں رہ گئے اور مسلمان پاکستان آ گئے۔ پاکستان میں آیر بولنے والے زیریں سندھ اور خصوصاً حیدرآباد میں رہتے ہیں۔ کھوار اکیڈمی کے مطابق اِس زبان کی اِرتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنتِ دہلی اور مغلیہ سلطنت کے دوران ہند زبانوں پر فارسی، عربی اور ترکی کی اثر سے ہوئی ۔ اس زبان کے بولنے والوں کی کل تعداد اب 150 کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
آیر (بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے ) دُنیا کی تمام زبانوں میں آخری نمبر پر ہے۔ یہ پاکستان کے زیریں سندھ اور ہندوستان کی ریاست گجرات میں اپنی آخری سانسیں لے
باگڑی ؛
دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی باگڑی زبان ، زبانوں کے ہند یورپی خاندان کی ”راجستھانی-مارواڑی” شاخ سے تعلق رکھتی ہے جس کے زیادہ تر بولنے والے بھارتی صوبے پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں یہ زُبان بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع میں بولی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے پنجابی زبان کا ایک لہجہ مانتے ہیں لیکن بھارت میں یہ اقلیتوں کی تسلیم شدہ زبان ہے۔ اس کے کُل بولنے والوں کی تعداد اندازً 20 لاکھ ہے لیکن پاکستان میں اس کے بولنے والے بیت کم تعداد میں ہیں ۔
باگڑی کا نام ”باگڑ” سے نکلا ہے جو شمال مغربی بھارت اور مشرقی پاکستان کے ریتلے علاقوں کے لیئے بولا جاتا ہے۔ بار ( جیسے ساندل بار ) باگڑ کی ہی بگڑی ہوئی شکل ہے۔
بدیشی ؛
بدییشی زبان صوبہ خیبر پختونخوا کی وادی چیل اور بشگرام میں بولی جاتی ہے بلکہ یوں کہا جائے ”بولی جاتی تھی” تو زیادہ مناسب ہو گا۔ تقریباً معدوم ہوچکی اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 2018 میں صرف 3 تھی۔ احباب کے نظرِ کرم سے یہ زبان اب ہم میں نہیں رہی۔
براہوی ؛
شمالی دراوڑی زبانوں سے تعلق رکھنے والی یہ زبان پاکستان میں صرف وسطی بلوچستان کے اضلاع کوئٹہ، قلات، خضدار، مستونگ، بولان، نصیرآباد اور سندھ کے کچھ علاقوں (لاڑکانہ اور نواب شاہ کے اضلاع ) میں بولی جاتی ہے۔ اس کے بولنے والے ایران، افغانستان اور ترکمانستان تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس زبان کے بولنے والے قریباً 40 لاکھ کے قریب ہیں۔
براہوئی ایک قدیم ترین زبان ہے، جو ہر نئے سیکھنے والے کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ برطانوی دور میں انگریزوں نے برصغیر کی تقریباً زبانیں سیکھ لیں لیکن جب براہوئی زبان کے بارے میں کسی انگریز سے پوچھا گیا تو اسنے ہاتھ کھڑے کر دیئے ۔ یہ زبان بہت وسیع علاقے میں بولی جاتی ہے۔ کوئٹہ سے لیکر ایران کی سرحدوں تک اور حب چوکی تک یہ زبان بولی جاتی ہے۔ جیسے یہ زبان جتنے بڑے علاقہ میں بولی جاتی ہے اسی طرح یہ اتنی ہی غیر معروف ہے۔ کراچی کی طرف حب چوکی کے بعد کوئی اس زبان کے بارے کچھ نہیں جانتا۔ اس زبان میں تحقیق کی اشد ضررت ہے۔
سندھ میں رہنے والے براہوئی خود کو”بروہی” جبکہ بلوچستان، افغانستان اور ایران میں براہوئی بولنے والے بلوچ کہلاتے ہیں۔
براہوئی زبان میں اس وقت کئی رسالے و جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ لیکن تلار کے نام سے ایک ہفت روزہ 2004 سے مکمل تسلسل کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ موجودہ دور میں تلار براہوی زبان کا واحد معیاری جریدہ ہے۔
بلتی ؛
چینی-تبتی قبیلے کی لداخی بلتی شاخ سے تعلق رکھنے والی بلتی زبان پاکستان کے شمالی علاقے بلتستان اور کشمیر کے علاقوں کارگل اور لہہ میں بولی جاتی ہے۔ ہراموش سے کارگل اور قراقرم سے دیوسائی تک کا سارا علاقہ بلتی زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کچھ دیہاتوں کی زبان شینا ہے لیکن اس میں بھی بلتی زبان کے کافی الفاظ شامل ہیں۔ یوسف حسین آبادی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے 1990 میں ”بلتی زبان” نامی کتاب لکھ کر اس زبان کی ترویج کے لیے کام شروع کیا۔ بھر 1995 میں انہوں نے قرآن پاک کا بلتی زبان میں ترجمہ بھی کیا۔
آج بلتستان میں اس زبان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور وفاقی حکومت سمیت گلگت بلتستان حکومت نے اس زبان پر کوئی خاص تحقیقی کام نہیں کیا ہے جسکی اشد ضرورت ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال اور شمالی علاقہ جات کی معدوم ہونے والی جن زبانوں کو بچانے کے لیےیونیسکو سے اپیل کی ہے ان زبانوں میں بلتی بھی شامل ہے۔ بلتی زبان بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ ہے۔
بروشسکی ؛
بروشسکی وہ زبان ہے جو نگر، ہنزہ ، اشکومن اور یاسین کی بروشو قوم بولتی ہے۔ بولنے والوں کی ایک قلیل تعداد سرینگر میں رہائش پزیر ہے۔ یہ واحد زبان ہے کہ جس کا کوئی خاندان یا قبیلہ نہیں ہے اس لیئے اسے ”آزاد زبان” یا جداگانہ زبان کہا جاتا ہے۔ اس زبان کو بروچسکی ، بُروشکی ، کھاجونہ اور بروشاس کے ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ زبان بہت قدیم زبان ہےجس کی ابتدا کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ بروشسکی لکھنے سے زیادہ بولی جاتی ہے اور ابھی تک اس زبان میں کوئی قابلِ ذکر کام منظرِ عام پر نہیں آیا۔
کہا جاتا ہے کہ بروشسکی زبان کا آبائی وطن گلگت بلتستان کا شمالی علاقہ ہے جو پامیر کوریڈور سے منسلک ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد 90000 کے قریب ہے۔ کھوار اکیڈمی نے اس زبان کے حروف تہحی، بلتی قاعدہ اور اس زبان کے لیے یونی کوڈز بھی بنائے ہیں۔
بھایا ؛
صوبہ سندھ میں حیدرآباد، میر پور خاص اور کھپرو میں اوراُس کے آس پاس بولی جانے والی بھایا زبان اب صرف چند سو افراد کی زبانوں پر ہے۔ ہند یورپی گروہ کی یہ زبان سخت خطرے میں ہے جس کو بچانے کے لیئے حکومتِ پاکستان اور حکومتِ سندھ دونوں کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
پارکری ؛ پارکری زبان جسے ”پارکری کولی” بھی کہا جاتا ہے سندھ کے جنوب مشرقی سرحدی علاقوں تھرپارکر اور نگر پارکر میں بولی جاتی ہے۔ ہند یورپی خاندان کی یہ زبان مارواڑی اور گجراتی سے ملتی جلتی ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ 250،000 ہے۔ جنوبی صحرائے تھر کی یہ زبان بھارتی سرحدی علاقوں میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس کے متکلمین کی تعداد لگ بھگ دو لاکھ سے ڈھائی لاکھ تک ہے۔
پالولہ ؛ پالولہ زبان، جسے پھالولہ، ڈنگریکوار اور عشیریتی بھی کہا جاتا ہے پاکستان کے ضلع چترال کی وادی عشیریت، بیوڑی، شیشی اور کلکاٹک میں بولی جاتی ہے اور چترال کی باقی زبانوں کی طرح ہند یورپی قبیلے کی داردی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ زبان دیر میں بولی جانے والی کلکوٹی اور افغانستان میں بولی جانے والی ساوی زبان سے ملتی ہے اور اس کے مُتکلمین کی تعداد 10،000 تک ہے۔ اس زبان کے حروف تہجی وضع کیے جاچکے ہیں اور اس کے ادب کو محفوظ کرنے کا بیڑا بھی کھوار اکیڈمی نے اٹھایا ہوا ہے۔ ”فرنٹیر لینگویج انیشیٹیو” کے نام سے ایک ادارہ پھالولہ بولنے والوں کو تربیت دے رہا ہے۔ پالولہ بولنے والوں نے 2004 میں ”انجمنِ ترقئ پالولہ” کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے جو پالولہ زبان میں تحقیق کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ اسکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عشریت کے سکولوں میں بھی یہ زبان پڑھائی جا رہی ہے۔
توروالی ؛ کوہستان اور سوات کے اضلاع میں بولی جانے والی اس زبان کا تعلق بھی داردی زبانوں سے ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ 85،000 ہے۔ یہ زبان توروالی لوگوں کی زبان ہے جو مدین سے آگے وادئِ اپرسوات کے پہاڑوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے دو لہجے ہیں۔ بحرین اور چالی/چھالی ۔
جدگالی ؛ ہند ایرانی زبانوں سے تعلق رکھنے والی یہ زبان جدگال قبیلے کی زبان ہے جو پاکستان اور ایران میں پائے جاتے ہیں۔ جدگالی زبان سندھی زبان کا اسلوب ہے جو لاسی سے ملتی جلتی ہے۔ اسکے بولنے والوں کی تعداد ابھی تک نامعلوم ہے۔ 2004 کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں جدگالیوں کی تعداد 15600 تک تھی۔
اس زبان میں کوئی تحریر کوئی کتاب ابھی تک منظرِ عام پر نہیں آئی۔
دامیلی ؛ دامیلی ایک داردی زبان ہے جو ضلع چترال کی وادی دومیل میں بولی جاتی ہے۔ اس کے لگ بھگ 5،000 متکلمین ہیں۔ وادی دومیل یا دامیل دریائے چترال کی مشرقی سمت میں دروش سے دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ دامیلی اب بھی کچھ دیہاتوں میں بولی جاتی ہے اور روزمرہ کی زندگی میں بچے بھی سیکھتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ پشتو کو دوسری زبان کی حیثیت سے بولتے ہیں اور کچھ کھوار اور اردو بھی بولتے ہیں۔ آپ اس کے بولنے والوں کی تعداد سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ زبان کس حد تک معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
دھاتکی ؛ دہاتکی جسے تھری بھی کہا جاتا ہے سِندھ کے صحرا تھر پارکر کی زبان ہے جو زبانوں کی راجستھانی و مارواڑی شاخ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ بھارت کے علاقوں جیسلمیر اور بارمر سمیت سندھ کے ضلع تھر پارکر اور اُس سے مُتصل قریبی علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ 1947 میں بہت سے تھری بولنے والے بھارت جا بسے تھے اور آج اندازً اس کے بولنے والوں کی تعداد لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ ہے۔ اِس زبان کو صرف تھر واسیوں اور وہاں کے لوک فنکاروں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔
سانسی ؛ پاکستان میں صرف 30،000 لوگ سانسی کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جو زیادہ تر خانہ بدوش ہیں اس لیئے سانسی زبان کسی مخصوص خطے کی زبان نہیں ہے۔ اس کے بولنے والوں کی زیادہ تعداد ہندوستان میں رہائش پزیر ہے۔ یہ زبان پنجابی، ہندی اور مارواڑی زبان کے قریب خیال کی جاتی ہے۔ عنقریب یہ زبان بھی وطنِ عزیز سے ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
شیناء ؛ شیناء زبان ایک قدیم زبان ہے جس کا تعلق ہند یورپی خاندان کے ”داردی” قبیلے سے ہے۔ شینا زبان اب زیادہ تر شمالی علاقہ جات میں ہی بولی جاتی ہے اور اسکے بولنے والوں کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ اِس زبان کے بولنے والے دریائے سندھ کے بالائی حصوں ،اس کے معاون دریائوں کے کناروں ،کشن گنگا ،دراس، استور، گلگت، ہنزا، نگر میں آباد ہوئے۔ شیناء بولنے والوں کا تمام علاقہ بشمول گلگت ،ہنزا، نگر،چلاس، ہراموش، دریل ،استور، غزر وغیرہ پاکستان کے زیر انتظام ہے جبکہ کِشن گنگا، دراس، تلیل ،گریز اور لداخ کے بروکشت قبیلے کا علاقہ ہندوستان کے زیر انتظام ہیں۔
موجودہ دورمیں شینا زبان بھی اپنی آخری سانس لے رہی ہے۔ ابھی تک اس زبان کا کوئی ایک رسم الخط باقاعدہ طور پر موجود نہیں ہے ۔ اگر اہلِ زباں اب بھی نہ جاگے تو آنے والی نسلیں انہیں شاید کبھی معاف نہیں کریں گی۔ سال 2017 میں گلگت بلتستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی میں مادری زبانوں کے تحفظ کے لیے شیناء زبان کو تدریس میں شامل کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ پھر حکومت اور انتظامیہ کی سر پرستی میں دو روزہ قومی ادبی میلہ بھی منعقد ہوا جو واقعی قابلِ داد ہے۔ قرآنِ مجید کا شیناء زبان میں سب سے پہلا ترجمہ جناب شاہ مرزا صاحب نے کیا ہے جن کا تعلق گلگت کے علاقہ جلال آباد سے ہے۔ امید ہے کہ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت اس زبان کی ترقی کے لیئے بر وقت اقدامات کرے گی
ہزارگی ؛ فارسی زبان سے مطابقت رکھنے والی یہ زبان پاکستان اور افغانستان کی ہزارہ کمیونٹی کی زبان ہے جس کا تعلق ہند یورپی زبانوں سے ہے۔ فارسی اور ہزارگی زبان میں بنیادی فرق صرف لہجے کا ہے۔ یہ تقریباً بائیس لاکھ لوگوں کی زبان ہے جس میں ترکی اور منگول زبانوں کے کچھ الفاظ بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ اور ہزارہ ڈویژن میں بولی جانے والی اس زبان کی ترقی کے لیئے ابھی تک کوئی خاص کام نہیں کیا گیا۔ لیکن ملک دشمن عناصر کی طرف سے ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں کے بعد ہزارگی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور ہزارگی ایک مضبوط زبان کے طور پر اُبھر رہی ہے۔
کالامی ؛ کالامی زبان، جسے گاوری اور کالام کوہستانی بھی کہا جاتا ہے ہند یورپی زبانوں کے کوہستانی قبیلے سے تعلق رکھتی ہے جو داردی کی شاخ ہے۔ یہ پاکستان کے ضلع سوات کے شمالی علاقے سوات کوہستان اور دیر بالا کی وادئ اپر پنجکوڑہ میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس زبان کو مادری زبان کے طور پر بولنے والے قریباً ساٹھ سے ستر ہزار کے درمیان ہیں جو ایک قلیل تعداد ہے۔ سوات کے علاقے کالام میں یہ زبان اکثریتی آبادی کی زبان ہے جس مناسبت سے اِسے کالامی زبان کہا جاتا ہے۔ کھوار اکیڈمی نے چترال، سوات اور شمالی علاقہ جات کی جن معدوم ہونے والی زبانوں کو بچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے ان زبانوں میں کالامی بھی شامل ہے۔ حکومتی سطح پہ اس زبان کی ترقی کے لیئے کوئی خاص قدم ابھی تک نہیں اٹھایا گیا ہے۔
کالاشی ؛ کالاش یا کالاشہ ایک داردی زبان ہے جو پاکستان کے بالکل شمال میں ضلع چترال کی وادئ کالاش کے علاقوں بریر، بمبوریت اور رومبر میں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کو بولنے والوں کی تعداد لگ بگ 5 ہزار ہے جو کالاش قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ ماہرین اسے پاک افغان باڈر کے قریب آباد نورستانیوں کی ہم آہنگ قریبی زبان سمجھتے ہیں۔ کالاشہ کالاش کی زبان ہے جو کوہِ ہندوکش میں آباد ایک قبیلہ ہے۔ چترال میں جن چھوٹی زبانوں کو خطرات لاحق ہیں ان میں کالاشہ زبان سرِ فہرست ہے۔ کالاشہ بولنے والے اب کھوار بولنے کو ترجیع دینے لگے ہیں اگر یہی صورت حال جاری رہی تو کالاشہ زبان ختم ہو جائے گی۔ اچھی خبر یہ ہے کہ کالاش میں حروف تہجی ایجاد کیے جاچکے ہیں اور کالاشہ ادب کو بھی محفوظ کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے کیلاش اور اسکی ثقافت کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے دیا ہے اب امید کی جا سکتی ہے کہ معدومیت کے خطرے سے دوچار اس زبان کو بچانے کی عملی کوششوں کا آغاز کیا جائے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ