ضلع رحیم یار خان 13فروری 2020کو ضلعی ہیڈ کوارٹر کے شہر رحیم یار خان کے ماڈل تھانہ سٹی اے ڈویژن میں ایک ایف آئی آر نمبری124بٹہ 20اندراج ہوئی. صوبہ سندھ کے شہری حاجی چندن عرف عبدالعزیز ولد نہال قوم مہر سکنہ خان گڑھ ضلع گھوٹکی نے ایس ایچ او کو دی جانے والی درخواست میں لکھا ہے کہ وہ 11فروری سے اپنی زوجہ کے علاج معالجہ کے لیے تحسین ہسپتال رحیم یار خان میں موجود تھا.
ان کی 15,16سالہ بیٹی مریم بھی ان کے ساتھ موجود تھی. 12,13فروری کی درمیانی شب اپنی بیٹی مریم کے رونے کی آواز پر جب میں نے بیدار ہو کر دیکھا تو مسمیان ڈاکٹر ظفر اور اس کے دو ملازم، 2کس جن کو سامنے آنے پر شناخت کر سکتا ہوں میری بیٹی کو نشہ آور ادویات دیکر اغوا کرکے لے جانے کی کوشش کر رہے تھے.وغیرہ وغیرہ
محترم قارئین کرام، واقعہ سچا ہے یا جھوٹا?. یا دائیں بائیں اوپر نیچےجو بھی حقائق ہیں مجھے قومی امید ہے کہ ایس ایچ او اسد اللہ مستوئی اور ان کے ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی کی موجودگی میں یقینا تفتیش و تحقیق درست اور پوری ہوگی.
وطن عزیز میں ہم سب جانتے ہیں کہ ایف آئی آر کی تحریر، گواہ اور دیگر ضروری قانونی تقاضے کیسے تکیمل پاتے ہیں.ہسپتال کے اندر پیش آنے والا یہ واقعہ انتہائی باعث شرم ہے. ہم سب کے لیے فکر کا مقام ہے. ہمارے ہسپتالوں کے حالات کہاں تک پہنچ چکے ہیں. ہم کب تک پردہ پوشی کرتے رہیں گے.
شیخ زاید ہسپتال میں لیڈی ڈاکٹر پر جنسی حملے ایک پرائیویٹ ہسپتال کے ملازم کا ڈاکٹر کے ہاتھوں قتل کے واقعات ابھی ہمارے ذہنوں میں موجود اور تروتازہ ہیں.
اللہ بہتر جانتا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ کی حقیقت کیا ہے یا کیا ہوگی یا کیا ہو سکتی ہے. شہر کے اندر ہسپتال کے اندر سے ڈاکٹر اور اس کے ملازمین کی مدد سے نوجوان لڑکی کو نشہ آور ادویات دے کر اغوا کرنا. کیوں، کس کے لیے، کس قیمت پر.ذہن گھوم جاتا ہے لیکن اس طرح کے کیسز کو تحمل اور باریک بینی کے ساتھ غیر جانبدارانہ دیکھنا از حد ضروری ہے.
اس کے لیے طرفین کے معاملات اور کردار دونوں کا جائزہ لینا پڑے گا. ہسپتالوں سے نومولود بچوں کے اغوا اور بچوں کے ادل بدل کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں.
جیبیں خالی کرنے والے ڈکیٹ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ جنسی بھیڑیے ڈاکٹروں کے ہاتھوں لٹنے والوں کے واقعات بھی پیش آتے ہیں. اکثر لوگ عزت بچانے کے خوف کے تحت خاموشی اختیار کر لیتے ہیں. سرکاری اورپرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج معالجہ کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو رہا ہے.
بعض پرائیویٹ ہسپتالوں کے کمرے محفوظ ترین جگہ کے طور پر عیاشی کے لیے بھی بک ہوتے ہیں.ماضی میں رحیم یار خان میں نوجوان نرسز اور لیڈی ڈاکٹرز کے ساتھ بھی جنسی ہراسگی کے کئی واقعات منظر عام پر آئے ہیں.منفی سوچ کے حامل ڈاکٹروں کی ویسے تو بہت ساری قسمیں ہیں لیکن ان میں دو بڑی قسمیں ہیں. جن میں ڈکیت ڈاکٹر اور ٹھگ ڈاکٹر شامل ہیں.
ان دونوں کی ذیلی قسمیں بھی ہیں. جن کی خصوصیات، کردار اور طریقہ ہائے واردات میں فرق ہے. خیر چھوڑیں فی الوقت ہمیں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.
سابق وزیر اعلی سندھ کے گاوں خان گڑھ کے حاجی چندن کے آگے پیچھے کو میں نہیں جانتا.حقائق کا گلہ گھونٹنا انصاف کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے. میرا خیال ہے کہ ایف آئی آر کے اندر چھپی ایف آئی آر کچھ اور کہنا چاہ رہی ہے. جسے نہیں کہنے دیا جا رہا.
جہاں عزت غیرت دار لوگوں کو خاموشی پر مجبور کرتی ہے وہاں غیرت بھی انہیں خوب جھنجھوڑتی ہے. کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور کرتی ہے. اگر بات صرف اغوا کی ہے تو پھر ہسپتال کا ڈاکٹر اور اس کے ملازمین کرایہ کے سہولت کار ہیں. ان کے پیچھے اور ملزمان، مجرمان چھپے ہوئے ہیں. غالبا امکان نوجوان لڑکی کے ساتھ زبردستی جنسی درندگی کا لگتا ہے.
جس کے لیے نشہ آور ادویات کا سہارا لیا گیا ہے. پولیس کو چاہئیے کہ لڑکی کا مکمل میڈیکل چیک اپ کروایا جائے.پولیس اس کیس کو عام نہ سمجھے. دونوں صورتوں میں یکسوئی کے ساتھ کیس کی تفتیش و تحقیق کو غیر جانبداری سے آگے بڑھائے. عوام کو بھی منظر عام پر آنے والے ایسے کسیز کی حقیقت اور نتائج سے آگاہ کیا جانا چاہئیے. اصلاح معاشرہ اور کنٹرول جرائم کے لیے یہ ضروری ہے.ڈاکٹری ایک مقدس اور خدمت کا عظیم پیشہ ہے.
کون لوگ ہیں جو اپنی اور اس پیشے کی عظمت کو داغدار اور خراب کرنے پر تلے ہوئےہیں.ایسے بدکردار اور کالی بھیڑوں کو سپورٹ نہیں کرنا چاہئیے. اگر دیکھا جائے تو مریض اور ڈاکٹر کا باہم رشتہ ماں اور بچے کا بنتا ہے. ڈاکٹر کو مسیحا کے لقب سے کیونکر نوازا گیا ہے.ڈاکٹرصاحبان کبھی کبھی اپنے قیمتی ترین ٹائم میں سے وقت نکال کر اس پر بھی غور کر لیا کریں. ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کو چاہئیے کہ وہ غیر جانبدارانہ ٹرائل میں ہرگز رکاوٹ نہ بنے.
صرف اور صرف حق اور سچ کا ساتھ دیا جائے.اگر ڈاکٹر ظفر نے اغوا میں سہولت کاری کی ہے یا بچی کے ساتھ زبردستی کا کھیل کھیلا گیا ہے دونوں صورتوں میں ملوث ملزمان کو سزا ملنی چاہئیے.حاجی چندن خان مہر کو ایف آئی آر میں چھپے ہوئے راز کو کھل کر بیان کر دینا چاہئیے.یاد رکھیں سچ اور حقیقت کو زیادہ دیر دبایا اور چھپایا نہیں جا سکتا.
لوگوں کے منہ بند کرنا اور ان کی سوچ کو قید کرنا بھی نامکمن ہے. زیادتی جو، جیسے اور جتنی ہو سکتی تھی ہو چکی ہے. اب مزید نہیں ہونے چاہئیے. سچ کو چھپانا بھی زیادتی اور ظلم ہے. سچ کا ساتھ نہ دینا بھی زیادتی اور ظلم ہے.
خان گڑھ ضلع گھوٹگی سندھ کی بچی ہماری بچی ہے. حق اور سچ کی حد تک ہم ان کا بھر پور ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں. ظالم کوئی بھی ہو وہ سفاک اور ظالم ہے اس سے کیا رشتہ، اس کا کیا احساس اور لحاظ. معاشرے کا گند ایسی سوچ اور ایسے کردار و عمل سے ہی ختم ہو سکتا ہے.
معاشرتی برائیاں معاشرے کو اندرونی طور پر کھوکھلا کرنے کے بعد معاشرے کا بیرونی حلیہ اور چہرہ بھی خراب کرنے کی طرف تیزی سے پھیل رہی ہیں.پولیس سے انصاف کی امید رکھنے، پولیس کے ارباب اختیار سے انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر طبقے ہر فرد کو خود بھی انصاف کی راہوں پر چلنا ہوگا. دین اسلام نے ہمیں مکمل ضابطہ حیات فراہم کیا ہے. ہر معاملے میں رہنمائی کے لیے سیرت اور کردار و عمل موجود ہے. ہم خود فریبی اور گمراہی کی زندگی کو ترک کرکے ہی انسان اور انسانیت کے علمبرداروں کے قافلے کا حصہ بن سکتے ہیں.یاد رکھیں شیطانیت اور حیوانیت کی ظاہری یا در پردہ سپورٹ کرنا بھی شیطانیت اور حیوانیت ہی ہے.
ہم اچھی شہرت کے حامل ڈی پی او منتظر مہدی اور ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ مذکورہ بالا واقعہ کی مکمل چھن بین کر کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کاروائی عمل میں لائیں گے.سول سوسائٹی کے سماجی سوچ کے حامل حضرات انجمن فلاح مریضاں کی طرح انجمن تحفظ مریضاں اور تحریک تحفظ مریضاں کے قیام پر بھی غور کریں. کیونکہ ہسپتالوں کے اندر مریضوں کے ساتھ چھیڑ خانی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر اس کی ضرورت محسوس ہونے لگی ہے.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر