صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی اور دیگر درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ہے ۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رُکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے آج بھی اپنے دلائل جاری رکھے ۔ انہوں نے کہا یہ سپریم جوڈیشل کونسل کی زمہ داری ہے جج کے کنڈکٹ کا جائزہ لے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا پہلے ہمیں کیس کا بتا دیں، بظاہر تو مقدمہ ٹیکس کا لگتا ہے،گزشتہ روز بھی ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ ہمیں کیس پر فوکس کرنا ہے، کس لفظ کی کیا تعریف ہے یہ مقدمہ نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو برطانیہ کی جائدادیں گوشواروں میں ظاہر کرنا چاہیے تھیں،
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ دکھا دیں کہ اہلیہ کے اثاثے دراصل معزز جج کے اثاثہ ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا حقائق کا جائزہ جوڈیشل کونسل نے لینا ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا ریفرنس سے پڑھ کر بتا دیں الزام کیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر ریفرنس میں 2 الزام ہیں،ریفرنس میں جو الزام ہیں انکی انکوائری کونسل نے کرنی ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا جج کیخلاف جو الزام ہے وہ واضح ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ بتا دیں کہ ریفرنس کے لیے مواد کس طرح اکھٹا ہوا؟
اٹارنی جنرل نے کہا یہ بڑا اہم سوال ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ بڑا بنیادی سوال ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا اگر جسٹس قاضی فائز عیسٰی گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر کر دیتے تو کیا ریفرنس دائر کرتے؟
اٹارنی جنرل نے کہا گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر کر دیتے تو ریفرنس نہ بنتا۔ گوشواروں میں پراپرٹی ظاہر نہ کر کے مس کنڈکٹ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جائدادیں تسلیم کر لی ہیں۔
جسٹس فیصل عرب نے کہا میں اگر کوئی پراپرٹی ظاہر نہ کروں تو کیا میرے کیخلاف ریفرنس دائر ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے کہا ہم پراپرٹی کی خریداری کے ذرائع کو بھی دیکھ رہے ہیں، عدالت کے تمام سوالوں کا تفصیل سے جواب دوں گا۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کیا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو قانون کے مطابق پراپرٹی ظاہر کرنی چاہیے تھی؟
اٹارنی جنرل نے کہا ریفرنس میں جو الزام ہیں انکی انکوائری کونسل نے کرنی ہے،
جسٹس منیب اختر نے کہا اسکا مطلب ہے پراپرٹی ظاہر نہ کر کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کیا پراپرٹی پر جواب لیے بغیر ریفرنس بنایا جا سکتا ہے؟ میں سمجھنے سے قاصر ہوں آپ کیا کہہ رہے ہیں، سب سے پہلے مس کنڈکٹ پر بات کریں،بتا دیں پراپرٹی ظاہر کرنا کیوں ضروری ہے؟
فاضل جسٹس نے مزید کہا درخواست گزار کے وکیل نے اپنا مقدمہ ریفرنس بنانے سے بھیجنے تک محدود رکھا۔یا پہر آپ یہ کہہ دیں کہ درخواست پر سماعت کا ھمارا دائرہ اختیارنہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا مس کنڈکٹ کے ساتھ منی لانڈرنگ کا مقدمہ بھی ہے،جوڈیشل کونسل ریفرنس پر جج کو شوکاز نوٹس جاری کردے تو کوئی عدالت مخالفت نہیں کر سکتی،شوکاز کا مطلب ہے جوڈیشل کونسل ریفرنس پر احتساب کرنے جا رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سب سے پہلے مقدمے کے حقائق بتا دیں،آپ عدالتی حوالہ جات پڑھ رہے ہیں،جب تک حقائق ہمارے سامنے نہیں ہوں گے آپکے عدالتی حوالہ جات کو پذیرائی کیسے ملے گی؟
اٹارنی جنرل نے کہا جج کے حوالے سےحقائق بھی بیان کر دوں گا، سب سے پہلے عدلیہ اور ججز کے لیے اقدار کو پڑھنے دیں،کونسل نے جج کیخلاف ابتدائی کارروائی کی اور نوٹس جاری کیا ۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا جن غیر ملکی حوالہ جات کا ذکر کیا گیا انکا اطلاق کدھر کریں؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا درخواست گزار نے بدنیتی کا الزام لگایا،ہمیں یہ بتا دیں کہ 2010 کے عدالتی فیصلے سے اختلاف کیس کریں؟ ٹیکس کے معاملے کی انکوائری کے بغیر ریفرنس بنا دیا۔ کیا کوئی شخص اپنی اہلیہ اور بچوں کے غیر ملکی اثاثوں پر قابل احتساب ہے؟
بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کیا یہ ایک ایف آئی آر ہے یا صدارتی ریفرنس ہے؟صدارتی ریفرنس ٹھوس مواد پر ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کے سوالات کے آئندہ تاریخ پر جواب دونگا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا جج کی اہلیہ اور بچوں سے جواب مانگے بغیر ریفرنس بنا دیا،
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا مس کنڈکٹ کی بات کریں،یہ اثاثہ جات کا مقدمہ ہے ۔
اٹارنی جنرل نے کہا تین جائیدادیں خریدنے کے لئے پیسہ ملک سے باھر گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا قانون اور مروجہ طریقہ کار کے مطابق متعلقہ لوگوں سے سوال کریں۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالت کے سوالات کا جواب دونگا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا چلیں آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ایسٹس ریکوری یونٹ کا کام تھا کہ آپ کو قانون بتاتا۔ آپ تیاری کے بغیر عدالت آگئے ہیں۔ آپ ھمارا وقت خوبصورتی کےساتھ ضائع کررہے ہیں کل آپ نے اتنی کردی ہے۔۔۔غیر ملکی اثاثوں کے حوالے سے قانون موجود ہے۔ وہ قانون بتائیں۔ اس قانون کا اطلاق ججز پر ھوتا ہے یہ بھی بتا دیں۔ یہ دلائل کا طریقہ کار نہیں،تحریری طور پر اپنے دلائل دیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا تحریری دلائل نہیں دے سکتا،
یہ بھی پڑھیے: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال
عدالت نے سماعت کے آخر میں حکم دیا کہ اٹارنی جنرل نے بینچ کے حوالے سے گزشتہ روز کچھ بیان دیا،اٹارنی جنرل اپنے بیان کے حوالے سے مواد عدالت میں پیش کریں،اگر اٹارنی جنرل کو مواد میسر نہیں آتا تو تحریری معافی مانگیں،امید کرتے ہیں مطلوبہ دستاویزات پیش کی جائیں گی،۔
یہ بھی پڑھیے: صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسی کی درخواست پر سماعت کا احوال
کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور