نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

برتن دھونے والے ارب پتی لوگ ۔۔۔گلزار احمد

میرا خیال ہے پہلے لوگوں کو جسمانی طور پر غلام بنا کر کام لیا جاتا تھا اب لوگوں کو جسمانی اور ذھنی دونوں محاذ پر غلام بنا دیا گیا ہے۔

امریکہ کے امیر ترین ارب پتی بل گیٹ اور اس کی بیوی Melinda gates روزانہ رات کو اپنے کچن کے گندے برتن اکٹھے مل کر دھوتے ہیں اور وہ دونوں یہ کام 25 سال سے کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ میاں بیوی کا مل جل کر گھر کا کام کاج کرنا شادی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔

بد قسمتی سے ہم جس قوم کے وارث ہیں وہ نوکروں کی فوج ظفر موج رکھ کر خوش ہوتی ہے اور 110 ارب ڈالر کے مقروض ہونے کے باوجود یہ سلسہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ہندوستان پر 764 سال مسلمانوں کی حکومت رہی اور ان کے محلات میں سیکڑوں لوگ بادشاہ اور ملکہ کی خدمت پر معمور ہوتے تھے اور یہ چلن اب تک جاری ہے۔

اگرچہ بادشاہت ختم ہو گئی لیکن حکمرانوں کی عادتیں ان بادشاہوں سے بھی بُری ہیں۔ ایک بادشاہ سلامت کے متعلق لکھا ہے کہ وہ نوکروں سمیت قلعے میں محصور تھے اور دشمنوں نے قلعے کو گھیر رکھا تھا۔دشمن قلعے کی دیوار پر چڑھ گیے اور اندر داخل ہونے لگے تو محل کے اندر کھلبلی مچ گئی اور نوکر جان بچانے کے لیے بھاگنے لگے۔

بادشاہ سلامت سے نوکروں نے کہاں جلدی سے بھاگ جایے دشمن محل کے اندر پہنچ چکے ہیں۔بادشاہ سلامت نے جواب دیا کہ میرا جوتا پہنانے والا نوکر بلاو تاکہ جوتا پہن کر بھاگ سکوں حالانکہ جوتا پہنانے والا نوکر پہلے ہی فرار ہو چکا تھا چنانچہ بادشاہ سلامت جوتا پہنانے والے نوکر کا انتظار کرتے رہے اور دشمن کے سپاہی بادشاہ کے سر پر پہنچ گیے اور اس کا تلوار سے سر قلم کر دیا۔

ہمارے برصغیر کے نوابوں کے بچے جب انگلستان پڑھنے جاتے تو اپنے ساتھ باورچی اور دو تین مزید نوکر ساتھ لے کر جاتے اور ان کے بھاری اخراجات برداشت کرتے کیونکہ خود کام کرنا عار سمجھا جاتا تھا۔ وقت بدل گیا مگر اب بھی ہمارے طور طریقے نہیں بدلے۔

ہمارے امراء اور حکمرانوں کے گھروں آج بھی ماسیاں کپڑے اور برتن دھونے کے لیے ہایر کی جاتی ہیں اور کھانا پکانے کے لیے خاساماں علیحدہ گاڑی کے لیے ڈرائیور اور دفتروں میں چاے پکانے کے لیے نائیب قاصدوں کی فوج ہوتی ہے۔ میرا بچپن کچھ بہت پسماندہ دیہات میں اور کچھ کالجوں اور باغوں کے شھر لاہور گزرا۔

پھر قسمت نے تیس غیرممالک دیکھنے کا موقع دیا۔ جب دیہات میں تھا تو اکثر لڑکے اپنے مویشیوں کا گھاس کھیتوں سے کاٹ کر لاتے اور کھیتی باڑی میں ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ۔جب ہم سکول جانے لگے اور میٹرک پاس کیا تو ہم میں بعض لڑکوں نے گاے کا گھاس کاٹنے سے یہ کہتے ہوے انکار کر دیا کہ اب ہم پڑھ لکھ گیے ہیں اس لیے لوگ کیا کہیں گے سر پر گھاس کی گڈی لے کر جا رہا ہے۔ اب یہ تعلیم تو نہ ہوئی جہالت ہوئی ۔

بعض لڑکے کالج یا یونیورسٹی تک گیے نوکری ملی تو ہمیشہ کے لیے گاوں چھوڑ کر شھروں میں آباد ہو گیے اور ماں باپ کو بڑھاپے میں بے یار و مددگار گاوں چھوڑ دیا کیونکہ اب ان کا معیار زندگی بلند ہو چکا تھا۔

ہمارے ہاں خواندگی کی شرح میں کمی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ گاوں کے لوگ اپنے بچوں کو اس لیے زیادہ تعلیم حاصل کرنے نہیں دیتے کیونکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔

ہمارے سکولوں میں نہ اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے نہ کیرکٹر بلڈنگ پر توجہ بس رٹو توتے بناے جا رہے ہیں اور ایک معاشرتی آداب واخلاق سے عاری نسل تیار کی جا رہی ہے جو جانوروں کی طرح صرف اپنا سوچتی ہے۔

اب سوشل میڈیا ۔فیس بک۔واٹس ایپ اور انٹرنیٹ نے تو گھر کے لوگوں کو اجنبی بنا کے رکھ دیا ہے نہ وہ کھیل نہ کھیل کے میدان بس ہر بندہ سر جھکا کے اپنے موبائیل فون کو دیکھ رہا ہے ہر چیز کے استعمال کا وقت ہوتا ہے مگر موبائیل ہر وقت چمٹا رہتا ہے۔

میرا خیال ہے پہلے لوگوں کو جسمانی طور پر غلام بنا کر کام لیا جاتا تھا اب لوگوں کو جسمانی اور ذھنی دونوں محاذ پر غلام بنا دیا گیا ہے۔

About The Author