ترک صدر رجب طیب اردگان کی موجودگی میں ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے بتایا (خطاب کرتے ہوئے) کہ پاکستان کے لوگ ترکی سے بہت محبت کرتے ہیں
“۔ ترکوں نے چھ سو سال تک بر صغیر پاک و ہند پر حکومت کی ہے”۔
وزیراعظم کے اس تاریخ ساز انکشاف کے بعد ان کے موقف کے حامیوں ناقدوں اور منحریفین کے درمیان سوشل میڈیا ریستورانوں اور محلوں کے چوکوں پر بحث جاری ہے۔
ہمارے ایک صاحب مطالعہ دوست نے جو عمران خان کےلئے ہمیشہ سے محبت بھری عقیدت کی تبلیغ کو فرض سمجھ کر نبھا رہے ہیں، طنز کیا
: "بلاول زرداری کو زبردستی بھٹو منوانے پر تلے ہوئے لوگ بھی عمران خان کے موقف کا تمسخر اُڑا رہے ہیں”۔
آصف منظور ورک اچھے آدمی ہیں، سیاسی کارکنوں کی متروک ہوتی نسل کی نشانی ہیں‘ وسیع مطالعہ بھی ہے لیکن انصافی دوستوں کی طرح انہوں نے اس معاملے پر طنز کے تیر چلائے۔
مگر بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ کیا واقعی تاریخی طور پر وزیر اعظم کا موقف درست ہے یا یہ بھی جرمنی اور جاپان کی سرحدوں کو ملانے والی جغرافیائی تحقیق کی طرح کی پھلجڑی ہے؟۔
تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اس تحریر نویس کے لیے جناب وزیراعظم کے موقف کی تائید بہت مشکل ہے۔
رہا سوال بلاول کے زرداری یا بھٹو ہونے کا تو یقینا وہ نسلی طور پر زرداری ہی ہیں لیکن اگر وہ اپنی والدہ کی شناخت کو ورثے اور محبت کی علامت کے طور نام کا حصہ بناتے ہیں تو اس پر چیں بجبیں ہونے کی ضرورت ہے نا مذاق اُڑانے اور طنز فرمانے کی۔
بہت ادب سے عرض کروں کہ خود جناب وزیراعظم کی عمومی شناخت اور تعارف محترمہ شوکت خانم مرحومہ کی شخصیت ہے۔
ایک قابل احترام ماں جو کینسر جیسی موذی بیماری سے لڑتے ہوئے راہی ملک عدم ہوئیں۔
اس مرحومہ کے اکلوتے صاحبزادے کو ملال تھا کہ پاکستان میں کینسر کے علاج کےلئے مناسب سہولتیں(یاد رکھیں اس مرض کے علاج کےلئے سرکاری ہسپتال تب بھی موجود تھے) موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کی والدہ وفات پاگئیں۔
ماں سے محبت کو انہوں نے انسانیت کی خدمت میں تبدیل کرنے کی عملی صورت یہ بنائی کہ والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال بنانے کی ٹھان لی۔
کچھ رقم انہوں نے خود دی اور پھر ملک بھر میں تعلیمی اداروں‘ کاروباری مراکز اور سڑک سڑک گلی گلی چندہ مہم چلائی‘ لوگوں نے کرکٹ کے میدان کے اپنے ہیروں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
چندوں سے اس کی جھولیاں بھر دیں۔
اس وقت کی پنجاب حکومت نے لاہور میں اُبھرتے ہوئے پوش علاقے جوہر ٹاﺅن میں ایک وسیع قطعہ اراضی ہسپتال کےلئے تحفہ میں دیا‘
برسوں کی محنت‘ چندہ مہم اور لگن سے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال تعمیر ہو کر ایک جدید ادارہ کی صورت میں سامنے آگیا۔
ہسپتال کی تعمیر کو ہی انہوں نے اپنی سیاست کابیانیہ بنایا اور آج بھی وہ کسی بھی موضوع پر بات کر رہے ہوں تو اپنی والدہ کے نام پر عوام الناس کے چندے سے قائم کئے جانے والے اس ہسپتال کاذکر بڑے فخر سے کرتے اور کہتے ہیں، میں ہسپتال کی طرح ہی اداروں کو قابل قدر اور ممتاز بنانا چاہتا ہوں۔
بلاول کی والدہ کا صرف یہ تعارف نہیں کہ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی ہیں، وہ اپنی تعارف خود بنیں۔
والد کی گرفتاری‘ قتل کے جھوٹے مقدمے میں سزائے موت کو انہوں نے اپنی سیاسی طاقت بنایا اور جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکےخلاف پُرعزم جدوجہد کی۔
قید وبند کی سزائیں، سڑکوں پر لاٹھیاں اور دھکے کھانے کےساتھ قذافی سٹیڈیم لاہور میں پولیس کا وحشیانہ تشدد برداشت کرنے‘ سکھر سنٹرل جیل میں بدترین حالات سے گزرنے کے باوجود استقامت کےساتھ جمہوریت اور شخصی آزادیوں کےلئے ڈٹی رہنے والی بےنظیر بھٹو پاکستان کی دو بار وزیراعظم منتخب ہوئیں اور دونوں بار بالادست اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ساجھے داروں کی نفرت کا شکار بھی ہوئیں۔
27دسمبر 2007 کی ڈھلتی سپہر کے ان لمحوں میں جب وہ شام کو دستک دے رہی تھی راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر سازشوں اور دہشتگردوں کا رزق بن گئیں۔
پاکستان میں اپنے حامیوں اور مخالفوں کے نزدیک وہ ایک سیاستدان تھیں جن کی سیاست مروجہ سیاسی عمل کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا اور اپنی جماعت کے سیاسی، سماجی، معاشی پروگرام پر عمل کرنا تھا
لیکن پاکستان کے باہر کی دنیا میں ان کا تعارف سیاستدان کےساتھ ساتھ ایک صاحب علم شخصیت کاتھا۔
انہوں نے دنیا بھر کی متعدد بڑی یونیورسٹیوں میں مختلف موضوعات پر فکرانگیز لیکچرز دئیے‘ متعدد کتابیں لکھیں،
اب اگر عالمی سطح پر مختلف حوالوں سے مقبول ومحترم خاتون کا اکلوتا صاحبزادہ اپنے نسلی تعارف وشناخت کےساتھ والدہ کی شناخت کو بھی نام کا حصہ بناتا ہے تو کس قانون‘ شریعت اور سیاسی و سماجی اصول کے منافی ہے اور کیوں اسے طنز و تحقیر بنانے کا موقع انصافی دوست ہاتھ سے نہیں جانے دیتے؟
اب آتے ہیں اس بات پر کہ بر صغیر پر ترکوں نے چھ سو سال حکومت کی یا نہیں کی۔ یہ بجا ہے کہ مختلف ترک النسل خاندانوں نے مختلف اوقات میں بر صغیر پر حکومت کی لیکن یہ عرصہ چھ سو سال نہیں بنتا۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ پچھلے دو تین دن سے مغلوں کو ترک النسل بنا کر پیش کر رہے ہیں وہ صریحاً غلط ہیں، مغلوں کاخمیر صحرائے گوبی سے اُٹھا اور یہ مقام ترکی سے بہت دور ہے۔
اس حالیہ بحث میں سب سے مناسب، متوازن اور تاریخی اعتبار سے سید کاشف رضا کا موقف بجاطور پر درست ہے۔
سید کاشف رضا لکھتے ہیں
”مغل یا مغول نسلاً منگول یا تاتاری تھے۔ تاتاریوں اور ترکوں میں واضح فرق ہے‘ تاتاری موجودہ چین کے علاقے سے نکلے اور وسط ایشیاءمیں پھیل گئے، وہاں انہوں نے ترکی بھی سیکھی اور فارسی بھی، انہوں نے آگے چل کر اسلام بھی قبول کیا۔
تزک تیموری میں لکھا ہے کہ تیمور تاتاریوں کی ایک شاخ ”برلاس“ سے تعلق رکھتا تھا۔ تیمور کا والد تراغائی خان ولد بورقل پہلا برلاس ہے جو مسلمان ہوا
تیمور کی عثمانی ترک بایزید سے جنگ ہوئی تو اس نے تاتاری وترک تضادات کو خوب اُبھارا جس سے بایزید کی فوج میں تفریق پیدا ہوئی۔
اولین مغل بادشاہ (متحدہ ہندوستان کا) بابر اسی تیمور کی اولاد سے تھا اور مغل حکمران بابر کی اولاد تھے۔
بابر فارسی اور ترکی میں اشعار بھی کہتا تھا مگر جیسے فارسی جاننے کی وجہ سے وہ ایرانی نہیں ویسے ترکی زبان پر عبور کی بدولت وہ ترک بھی نہیں“۔
پیارے قارئین!
بجا کہ برصغیر یا پھر اب پاکستان کے لوگ ترکی اور ترکوں سے خصوصی اُنسیت رکھتے ہیں مگر یہ اُنسیت تاریخ اور شجرے بدلنے کی مشین ہرگز نہیں۔ وزیراعظم کے موقف سے شعوری اختلاف رکھنا کفر ہرگز نہیں
تاریخ ایک الگ مضمون ہے اور اسے اسی تناظر میں دیکھنے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ