دلی کے ایک ماریہ بادشاہ کا نام دلو یا ڈھلو تھا سو اس عالم میں روزگار شہر کا نام دلی ہوا۔ایک خیال یہ ہے کہ دلی ، دہلیز سے ہے کہ یہ شہر جہاں مے یا موت زندگی کا درماں رہا، گنگا کے میدان کی دہلیز پہ ہے۔ایک قصہ یہ ہے کہ اننگ پال دوم نے شہر میں ایک مینار ناگوں کے بادشاہ کے سر پہ بنانا شروع کیا،کہ اس کے خاندان کی سلطنت کو ہمیشگی ہو۔ شک ہوا کہ جگہ کے تعین میں غلطی ہوئی ہے تو اس نے مینار اکھاڑ دیا ، پر دیکھتا ہے کہ مینار کی بنیادوں پہ سانپ کا خون ہے۔ کہتے ہیں کہ اننگ پال کی ڈھل مل یقینی سے دلی کا نام ہے۔ وجہ تسمیہ جو بھی ہو ، دلی، شاعروں کا ہے۔میر نے کہا:
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
ذوق دکن میں قدر_ سخن پر دلی کی گلیوں کو ترجیح دیتے ہیں:
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدر_ سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
بشیر بدر کے ہاں دلی، دل کی ویرانی کا استعارہ بن گیا ہے:
دل کی بستی پرانی دلی ہے
جو بھی گزرا ہے اس نے لوٹا ہے
"دربار_ اکبری”میں مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں:” دلی عجب مقام ہے۔ کون سا سر ہے کہ ہوائے حکومت رکھے اور وہاں پہنچ کر تخت پر بیٹھنے کی ہوس نہ کرے”۔ہریانہ کے 51 سالہ اروند کجری وال دوسری بار انتخاب جیت کر دلی کے تخت پر بیٹھے ہیں۔وہ مکینیکل انجنیئر ہیں اور آئی آر ایس میں جائنٹ کمشنر کی نوکری چھوڑی تو ” پری ورتن” نام سے این جی او بنا کر شفافیت کے حق میں اور بدعنوانی کے خلاف کام شروع کیا۔ انا ہزارے کو گرو مان کر کرپشن کے خلاف مہم میں شامل رہے ، 2012 میں عام آدمی پارٹی بنائی اور جھاڑو نشان لیا۔ فروری 2020 کے ریاستی انتخاب میں دلی کی جنتا نے دوسری بار ان کو سرخرو کیا ہے۔ان کا تعلق سورج ونشی اگر وال جاتی سے ہے۔ اگر وال تاجر ہیں اور مہاراجہ اگر سین کی پشت سے ہیں ۔اگر سین بادشاہ نے دنیا میں تاجروں کی پہلی سلطنت قائم کی تھی اور رحم کی وجہ سے جانوروں کی قربانی کا انکار کیا تھا۔کرجی وال میں ہریانہ والوں کا grit اور حوصلہ ہے۔ 2013 میں اسے پہلی کامیابی ملی لیکن اس کے پاس اتنی اکثریت نہ تھی کہ وہ اپنے وژن پر عمل کر سکتا تو اس نے اقتدار سے چمٹنے کی بجائے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور 2015 میں 70 کے ایوان میں 68 نشستیں جیت کر وزیر_ اعلی بن عام لوگوں کی خدمت میں جت گیا۔2020 کا انتخاب اس نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتا ہے اور 70 کے ایوان میں 62 نشستیں لی ہیں۔ بی جے پی کو صرف 8 اور کانگریس کو کوئی نشست نہیں ملی۔ امیت شاہ اور یوگی ادتیاناتھ کی زوردار مہم اور نریندر مودی کا کرشمہ بے کار گیا ۔ کجری وال میں آخر کیا گن ہے کہ وہ دلی والوں کی آنکھ کا تارا ہے اور incumbency کی مشکلات کے باوجود اس نے مودی کی جماعت اور کانگرس دونوں کو مات دے دی ہے!
کجری وال کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اس کے نزدیک سیاست لوکل اور زمینی ہوتی ہے اور دوسرا، سیاست نوسربازی نہیں، خدمت کا نام ہے! ان کی پیشرو کوئی حکومت وہ کام نہ کر سکی جو اس نے کر دکھائے۔وہ بتاتا ہے کہ پانچ سالوں میں اس نے1281 کالونیوں میں سڑکیں اور نالیاں بنوائیں۔950 کالونیوں میں سیور بچھایا۔ 500 کالونیوں میں پانی کی پائپ لائن ڈلوائی۔ پانی مفت کر دیا۔ بجلی کے دو سو یونٹ فری کر دئیے۔سرکاری سکولوں میں بہتری لایا۔ہسپتالوں میں دوائی اور ٹیسٹ مفت ہونے لگے۔مزدور کی کم سے کم اجرت 8 ہزار سے تیرہ ہزار روپے ہو گئی۔ریاست کا ریونیو 30 ہزار کروڑ روپے سے 60 ہزار کروڑ روپے کر دیا اور یہ ٹارگٹ ٹیکس کی شرح 12 فی صد سے کم کر کے 5 فیصد کر کے کیا گیا۔وزیر اعلی تاجروں کے پاس جا انھیں بتاتا رہا کہ اگر آپ نے نیکیاں کمانی ہیں تو دلی سرکار کو ٹیکس دیں اور سرکار ان پیسوں سے بچوں کو پڑھائے گی اور آپ کو نیکیاں ملیں گی۔بجلی، پانی، صحت اور دوسری سہولیات کی مفت یا رعایتی فراہمی سے ہر خاندان کو 60 ہزار روپے کی سالانہ بچت ہوئی اور دلی کے پچاس لاکھ خاندانوں کی جیبوں میں 30 ہزار کروڑ روپے آگئے جن کی وجہ سے معیشت کا پہیہ تیز ہوا اور لوگوں نے اسے پانچ سال کی ایک اور ٹرم دے دی۔ان حکومتی اقدامات کا تعلق اچھی حکومت سے ہے اور ہندوتوا اور نفرت کا کاروبار کرنے والے امیت شاہ اور ان کے نعرے باز کرشماتی لیڈر نریندر مودی کو ایک اچھی حکومت نے چاروں شانے چت گرایا ہے!
دلی میں بی جے پی کی نیا ڈبونے میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی تنگ نظر سیاست ، شاہین باغ کے طویل احتجاج اور 370 اے ختم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کی جدلیات نے ایسے حالات پیدا کر دئیے تھے جن کے سامنے نریندر مودی کا کرشمہ بے کار تھا۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ہندوستان کو سیکولرازم راس ہے۔ اکبر_ اعظم نہ کہ جنرل ضیاء اور نریندر مودی !! لوگ اچھی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔پوجا پاٹ اور مذہبی رسومات کا تعلق فرد کے عقیدے، سرشاری اور عبادات سے ہے ۔ ریاست سے نہیں!کہ مذہب ریاست کا نہیں، فرد کا دائرہ کار ہے۔ریاست کا کام تمام مذاہب کا احترام اور مذہبی آزادی کو یقینی بنانا ہوتا ہے!تقسیم کے بعد پاکستانی ریاست نے غلو کیا!!ہم بھارت کو سیکولر دیکھنا چاہتے تھے اور خود بنیاد پرستی کی دلدل میں اتر گئے اور نقصان اٹھایا۔اب پانسہ پلٹا ہے، تو بھارت مذہبی انتہا پسندی کی بھنور میں دھنستا چلا جا رہا ہے اور پاکستان رفتہ رفتہ اعتدال اور مذہبی رواداری کی راہ پر گامزن ہے!
دلی میں شاہین باغ کا احتجاج 15دسمبر سے مسلسل جاری ہے اور بھارت کے لکھاری، ادیب، طالب علم، خواتین ،حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں اور این جی اوز شہریت ایکٹ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن مودی سرکار اپنی ضد پہ قائم ہے۔ پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کو توڑنے یا شکست دینے کا جتن کرتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ یہاں چھوٹی ریاستیں آپس میں لڑتی تھیں اور باہر سے مدد طلب کر کے جل گندا کرتی تھیں ۔ سوچئے کہ دو ہمسائے نہیں سنبھلتے تو بہت سی چھوٹی پیہم برسر پیکار ریاستیں کتنی بڑی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں۔ بھارت کو ہندوتوا سے خطرہ ہے، پاکستان سے نہیں! پاکستان کو اسلام ٹوٹنے سے نہیں بچا سکا تھا نہ ہندو ازم بھارت کو بچا پائے گا۔ خوشی اور خوشحالی کے علاوہ لوگوں کو اکٹھا رکھنے کا کوئی نسخہ ایجاد نہیں ہوا۔کجری وال کی جیت نریندر مودی اور عمران خان اور عثمان بزدار کے لئے ایک پیغام ہے کہ مقامی سطح پر لوگوں کے لئے سہولیات اور آسانیاں، سستی بجلی، صاف اور فری پانی، سیوریج، صفائی، ریڈ راج( Raid Raj) اور خوف سے نجات ، اچھی تعلیم اور مفت دوا کے علاوہ سیاسی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں ہے۔ بے جی پی کی سیاست کا زوال طے ہے کہ اس کی بنیادوں میں بنیاد پرستی ہے! بے بہرہ لوگ جو فیض کی نظم ” ہم دیکھیں گے” کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ نظم 1979 میں لکھی گئی تھی جب فیض صاحب بیروت میں جلا وطن تھے۔ پاکستان میں جنرل ضیاء کی خدائی تھی۔ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی جھول گئے تھے۔ روس افغانستان میں گھسا تھا ۔ ایران میں انقلاب آیا تھا۔بیروت میں سول وار تھی اور خانہ کعبہ پر قبضہ چھڑانے کو گولی چلی تھی۔زمین تھر تھر کانپتی تھی! 1983 اور 1984 میں فیض صاحب سے لاہور میں تھے اور ان سے یادگار ملاقاتیں ہوئیں، یقین کیجئے کہ وہ رومانوی انقلابی کسی کا دشمن نہ تھا!1985 میں ضیاء نے خواتین کے ساڑھی پہننے پر پابندی عائد کی اور 85 میں ہی اقبال بانو نے کالی ساڑھی پہنے پچاس ہزار کے مجمع میں نظم گائی تو جمہوریت پسندوں اور انقلابیوں کا ترانہ ہوئی۔ جب یہ نظم ضیاء پہ گراں تھی اور اب مودی کو ناگوار ہے! انالحق کے نعرہ کا مطلب یہ کہ ہم سب حق ہیں اور سدا موجود ہیں کہ منصور صوفی شاعروں کی poetics میں مزاحمت کی علامت ہیں! اور فیض،جدید اردو شاعری میں انقلاب کا استعارہ ہیں۔اس لئے فیض کی حق بات ناگوار ہے !
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
ہمارے سیاست کاروں کے لئے کجری وال کی جیت کا پیغام یہ ہے کہ سیاست مقامی اور زمینی ہوتی ہے، آسمانی یا لا مکانی نہیں، عوام کے دکھوں کا مداوا ہی سیاست و سیادت ہے اور مسیحائی میں دیر سے مسیحا مرتے ہیں اور لوگ سمجھتے ہیں کہ مرض لادوا ہے :
وقت نے دی ہے تمھیں چارہ گری کی مہلت
آج کی رات مسیحا نفسا! آج کی رات
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ