لاہور میں ہر سال ماہ فروری میں سجنے والے پانچ روزہ عالمی کتب میلہ کے طالب علموں کو دو فائدے ہیں اولاً تو مختلف موضوعات پر شائع ہونے والی ہزاروں کتب کی زیارت ہوجاتی ہے، ثانیاً بڑی تعداد میں ان صاحبان علم کی قدم بوسی کا موقع مل جاتا ہے جن سے زمینی فاصلوں اور مصروفیات کی بدولت مل نہیں پاتے۔
پچھلے دو تین سال تو ہم بھی دوستوں کے ایک گروپ کیساتھ کتاب میلہ میں روزانہ حاضری دیتے رہے البتہ اس بار یہ سعادت فقط دو بار ہی حاصل کر پائے۔ دوستوں میں سے صرف نوجوان نقاد بلال حسن بھٹی دسیتاب ہو پائے۔ ملک قمر عباس اعوان دفتری مصروفیات کی بدولت کتاب میلہ کے دنوں میں اسلام آباد میں تھے جبکہ سیدمیثم زیدی اپنے دادا کی تیمارداری کیلئے ہسپتال میں،
چند احباب پروگرام بناتے اور مصروفیات کے بہائو میں آگے بڑھتے رہے۔
ایک وجہ کم حاضری کی اور ہے وہ یہ کہ مہنگائی نے جس طرح لوگوں کی مت ماری ہوئی ہے وہ بھی رونق پر اثرانداز ہوئی،
پھر بھی پانچ روزہ کتاب میلہ میں مجموعی طور پر لاکھ سوا لاکھ افراد (مرد وزن اور بچوں) نے کتاب میلہ کی رونق بڑھائی۔
اس دوران چند ادبی تقریبات کتب کی رونمائی اور مشاعرہ بھی ہوا، کتاب میلہ کی خصوصیت یہ ہے کہ پاکستان بھر کے پبلشرز کے سٹالز ایک جگہ ہوتے ہیں 30 سے 50فیصد رعایت پر کتابیں مل جاتی ہیں۔
مہنگائی اور دوسرے مسائل کی وجہ سے گو ہم بھی اس بار محض دس بارہ کتب خرید سکے، چند کتابیں پبلشرز دوستوں نے عنایت کر دیں۔ یوں طالب علم کو اگلے دو تین ماہ مزید کتب خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
امسال کے کتاب میلے میں برطانوی برصغیر کے آخری وائس رائے لارڈ مائونٹ بیٹن کے افسر تعلقات عامہ ایمن کیمل جانسن کی تنصیف ”عہد لارڈماؤنٹ بیٹن” کے چرچے رہے۔ برصغیر کی تقسیم کا برطانوی ایجنڈا لے کر وائس رائے بننے والے ماونٹ بیٹن کے عہد اور تقسیم کے دوران کی سازشوں، وارداتوں اور گھاتوں کی کہانی ہے یہ کتاب ۔۔ گو تقسیم برصغیر کے حوالے سے طالب علم کی رائے دو قومی نظریہ کے حامیوں سے قدرے مختلف ہے پھر بھی یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ایمن کیمل جانسن کی کتاب ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ
ماونٹ بیٹن اور ان کا برطانوی عملہ روزاول سے آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ محمد علی جناح کیلئے بغض رکھتا تھا۔
آخری وائس رائے اور ان کے سینئر عملے کا جھکاو جواہر لعل نہرو کی طرف صاف دکھتا ہے۔
ایک ستم یہ بھی ہے کہ کتاب کے مترجم نے بھی اپنی تلخی چھپانے کی کوشش نہیں کی حالانکہ زیادہ مناسب یہی ہوتا کہ وہ اپنی جستہ جستہ رائے نہ دیتے۔
بہرطور تقسیم برصغیر کے وقت برطانوی حکومت آخری وائس رائے، ان کا عملہ اور ہمنوا کیا سوچ رہے تھے،زمینی حقائق کیا تھے اور کیوں ماونٹ بیٹن اس خیال کو ذہن میں راسخ کر کے لندن سے دہلی پہنچے کہ برصغیر میں ہر طرف نفرت کے پھریرے لہرارہے ہیں، ان باتوں کو سمجھنے کیلئے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔
دوسری اہم کتابیں ”جو کتاب میلہ” میں طالب علموں کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہیں ان میں ”عہد مغلیہ کا پنج آب” پابلونرودا کی آب بیتی ”یادیں” برٹرینڈرسل کی ”میں مسیحی کیوں نہیں؟”
اور رواں عہد کے صاحب فہم وعلم رجحان ساز شاعر افضال احمد سید کی تصنیف ”بادۂ دوشنبہ”ہے۔
یہ کتاب بنیادی طور پر برصغیر پاک ہند کے معروف فارسی شعراء کے کلام کے انتخاب اور اُردو ترجمہ پر مشتمل ہے۔ فغانی شیرازی، میرزا جلال اسیر، کلیم کاشانی، غنی کاشمیری، غنیمت کنجاہی، ناصر علی سرہندی، شوکت بخاری، واقف لاہوری، محمد حسین اور شبلی نعمانی کے فارسی کلام میں سے انتخاب اور اس کے ترجمہ کیساتھ ان بزرگ شعراء کے مختصر سوانحی خاکوں نے کتاب کو چار چاند لگا دیئے۔
افضال احمد سید اپنے علم وحلم اورانداز بیاں کیساتھ وسیع مطالعہ کی شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا شمار اُردو ادب کے بلند پایہ اساتذہ میں ہوتا ہے۔
”بادۂ دوشنبہ” میں منتخب فارسی غزلیات واشعار سخن فہموں کیلئے رواں سال کا خوبصورت تحفہ ہیں۔
طالب علم نے کچھ مزید کتب بھی حاصل کیں پڑھ چکنے پر قارئین کو اپنے مطالعہ میں شریک کرتے ہوئے رائے بھی عرض کروں گا۔
فی الوقت تو یہ ہے کہ سالانہ بنیادوں پر لاہور سمیت مختلف شہروں میں کتاب میلوں کا انعقاد اور ان میں لوگوں کی بھرپور شرکت سے اس عام تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ کتاب دوستی کے زمانے لد گئے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ سوا ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والے شہر لاہور میں اگر پانچ دنوں میں لاکھ سوا لاکھ افراد کتاب میلہ تک پہنچ پائے تو یہ بہت زیادہ حوصلہ افزاء بات نہیں،
مگر مجھ طالب علم کی رائے یہ ہے کہ جس معاشرے میں تعلیم کو علم سمجھا جاتا ہو، وہاں اتنی تعداد کا علم وکتاب دوستی کا اظہار بھی غنیمت ہے۔
پچھلے سال اس پانچ روزہ کتاب میلہ میں دو اڑھائی لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔
اس سال یہ تعداد پچاس فیصد کم رہی، وجہ چاراور کے حالات، مہنگائی، آمدنی کے مقابلہ میں اخراجات میں اضافہ ہے تو خود حکومتی سطح پر بھی کتاب دوستی اور علم پروری کیلئے کبھی ٹھوس کام نہیں ہوا۔
یہ امر بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کتابوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں گوکہ پبلشرز حضرات کتاب میلوں میں اپنی مطبوعات نصف یا تیس فیصد کم قیمت پر فروخت کرتے ہیں پھر بھی یہ قیمتیں زیادہ ہیں۔
مثلاً اگر450صفحات کی کتاب کی قیمت پبلشر1500روپے رکھ کر نصف قیمت پر کتاب میلوں یا کتب فروشوں کو فراہم کرتا ہے تو بھی یہ بہت زیادہ ہے۔
بجا ہے کہ دوسرے شعبوں کی طرح اخراجات میں اضافے نے طباعت کے شعبہ کو بھی متاثر کیا ہے، پھر بھی اگر پبلشرز حضرات چاہیں تو قیمتوں کو اعتدال پر رکھ کر زیادہ بہتر منافع کما سکتے ہیں۔ یہاں حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ علم وکتاب دوستی کا مظاہرہ کرے،
طباعت کتب کے شعبہ کو کچھ نہ کچھ رعایت دے۔ کاغذ پر ڈیوٹی کم کرے، علمی وتدریسی کتب شائع کرنے والوں کو بجلی کے بلوں میں رعایت دے، اس طرح کے اقدامات سے پبلشروں کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ کتابوں کی قیمت کم رکھیں۔
پبلیشرز بھی یہ ظلم نہ کریں کہ150 صفحات کی کتاب ہو اور قیمت400روپے۔
کتاب دوستی کی حوصلہ افزائی سے ہی نورعلم کا فیض عام ہوسکتا ہے، علم ہوگا تو مکالمہ کو رواج حاصل ہوگا ورنہ تو تعصبات وجہل ہی ناچتے رہیں گے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ