نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دلی دل والوں کی (قسط12)۔۔۔ عباس سیال

راجکمار ملک میری ا س بات سے متفق تھے کہ اس قسم کی آتش بازی چاہے دیوالی کے موقع پر ہو یا شب برا ت کی مناسبت سے ہو

دیوالی کے تاریخی، مذہبی اور ثقافتی پس منظر میں جھانکنے کے بعد ملک صاحب نے دیوالی کے فلسفے پر بھی روشنی ڈالی۔یہ تیوہار دراصل اندھیرے پر روشنی، برائی پر اچھائی، مایوسی پر امید، غمی پر خوشی،شکست پر فتح،تنگدستی پر خوشحالی، بیماری سے شفا ، صحت و تندرستی اور خوش بختی کاعلامتی نشان ہے، جو نئے چاند کی پہلی رات منایا جاتا ہے۔

چائے کے ساتھ فلسفیانہ گفتگو ختم ہوتے ہی راجکمار کا راج نامہ جاری ہوا۔” اُٹھ اَج تیکوں میانوالی آلاں دی شان ڈِکھاﺅں“۔ہم دونوں باہر نکل کر گھومنے پھرنے لگے۔کالونی کی ساری کوٹھیاں دلہن کی طرح سجی سنوری ایک دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔ اردگرد جلتے دیوں سے پھوٹنے والی مسرت و انبساط کی روشنی نے پوری کالونی کے مکینوں کے چہرے ہی نہیں گلیوں کے تاریک کونے کھدروں کو بھی روشن کر دیا تھا۔چلتے چلتے ہم میانوالی نگر کے بڑے مندر کے سامنے پہنچ گئے ۔مندر کی بیرونی عمارت نیلی پیلی روشنیوں سے جگمگا رہی تھی، داخلی دروازے کو بھی جلتی بجھتی لڑیوں سے سجایا گیا تھاجبکہ منڈیروں پر مٹی کے دیے روشن تھے، جن کے گرد شرارتی بچے منڈلا رہے تھے۔کئی لوگ مندر کے اندر آ جا رہے تھے،اسی دوران مٹی کے دیوں سے بھرے اسٹیل کا تھال اٹھائے کوئی خاتون مندر میں داخل ہوئیں۔میانوالی نگر کے مندر میں بہت سے خاندان جمع تھے، جن میں سے اکثریت سرائیکی برادری کی تھی۔

مندر کا اندرونی جائزہ لینے کے بعد ہم دونوں باہر نکل آئے۔ اردگرد کی گلیوں میںچراغاں تھا،یوں لگتا تھا جیسے آسمان کے تارے توڑ کر یہاں سجا دئیے گئے ہوں۔ہر طرف لوگوں کا رش تھا۔ڈھول کی تھاپ پر منچلوں کی ٹولیاں تھیں اور ساتھ چلتے فائر کریکرز ،تتلی پٹاخے ، راکٹ پٹاخے ، چاکلیٹ پٹاخے،چائنہ ماچس،ٹخ ٹخ کرتی آتشیں لڑیاں ،گولہ بم، انار بم اور آسمان کے اوپر قلانچیں بھرتی شرلیاں۔

مجھے زندگی میں پہلی بار اتنی وافر مقدار میںآتش بازی دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔خالی جوس کے ڈبے کو زمین پر رکھ کر زور سے پاﺅں کی ضرب سے پٹاخے کی آواز پر خوش ہونے والے،پلاسٹک کے خالی لفافے میں پھوک بھر کر ڈز کرنے والے، شلواریں پھونک کر نہروں اور دریاﺅں میں تیرنے والے ہم جیسے دیہاتیوں کیلئے اس قسم کی آتش بازی واقعی حیرت کا باعث تھی۔

”کوکلے چھپک جمعرات رات آئی ہے ، جیہڑا آگے پیچھے ڈیکھے اُوندی شامت آئی ہے“۔واقعی آتش بازی کی جمعرات اردگرد پھوٹنے والے پٹاخہ بموں اور شرلیوں سے خود کو بچانے کیلئے آگے پیچھے کی بجائے سائیڈ پر کھڑے ہو کر تماشہ دیکھنا ضروری تھا، کہیں واقعی ہماری شامت نہ آجائے ۔

راجکمار ملک میری ا س بات سے متفق تھے کہ اس قسم کی آتش بازی چاہے دیوالی کے موقع پر ہو یا شب برا ت کی مناسبت سے ہو ، یہ پیسے کے ضیاع کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی اور شور شرابے کاسبب بنتی ہے اور میں واقعی ملک راجکمار کے اس فلسفے سے مکمل متفق تھا کہ اندھیرا مٹانے کیلئے ایک دیا کافی ہوتا ہے ، بشرطیکہ ا س کے اندر عقیدت کا تیل شامل ہو۔

میانوالی نگر میں دیوالی کی رات کان پھاڑتے پٹاخوں کی ڈز ڈز ، بارود کو تیلی دکھاتے ہی ان سے نکلتی روشنیوں کے فوارے ، آتشیں لڑیوں کی جھمکارکے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر خوشیاں مناتے لوگوں کو ناچتا گاتا چھوڑ کر ڈاکٹر صاحب سے رخصت لی اور میانوالی نگر سے باہر نکل آیا۔ اردگرد کی آلودہ فضا میں چلتے آٹو رکشے کے اندر بیٹھا میں ملک راجکمار کی باتوں پر غور کر رہا تھا کہ دیپاولی کی روشنی دراصل بدی کی قوت پر نیکی کے غلبے کا استعارہ ہے۔واقعی اس میں کوئی شک نہیں کہ روشنی سچائی اوراندھیر ا گمراہی ہے، مگر۔ رام کیونکر نیکی کا پیامبر، راون کیسے بدی کا مجسمہ۔ صرف مسلمان کیونکر حملہ آور ،ہندو کیسے سن آف سائل؟؟؟

اس قسم کی سوچ پرتحفظات رکھنا ایک عام سی بات ہے مگر ہمارے اندر کے خوف نے کبھی ہمیں اتنی جرا ¿ت نہیں دی کہ ہم اِن تحفظات کو زبان پر لا سکیں۔ رام ایشور کا اوتار،نیکو کار۔ راون شیطان، گناہگار ۔ابن قاسم نجات دہندہ، راجہ داہر سیاہ کار۔ آئیے تاریخ کے پھڑپھڑاتے صفحے کھولتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اندرکیا لکھا ہے۔

الزام لگتا ہے کہ بھارت کے مسلمان حملہ آور ہیں تو اعلیٰ ذات کے ہندو پھر کہاں سے ٹپکے ؟ کیا یہ آریاو ¿ںکی اولاد نہیں؟۔برصغیر کا سارا خطہ اصل میں دراوڑوں(کول، بھیل، سنتھال اور بے شمار مقامی قبائل اور نسلوں) کا مسکن تھا جنہیں باہر سے آئے آریاﺅں نے خون میں نہلایا اور انہیں مشرقی و جنوبی برصغیر کے دور دراز اور دشوار گزار جنگلوں اور گھاٹیوں میں پناہ لینے پرمجبور کر دیا ۔ رامائن کہتی ہے کہ یہی آریا قوم بعد میں زمین اور اقتدار کی ہوس میں خود آپس میں گتھم گتھا ہو گئی تھی ، لہٰذا اِس تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں اور ہندوﺅں میں فرق اتنا سا ہے کہ مسلمان جدید حملہ آور، ہندو قدیم حملہ آورہیں۔ رام ایودھیا کا آریا نسل حکمران جس نے جنوبی ہند (لنکا)کے دراوڑی نسل راون کو شکست دے کراُس کی سرزمین پر قبضہ کیا تھا ،بعدازاں آریا لٹریچر نے اس جنگ کو مقدس بنا کر اس میں سیتا کا اغوا، ہنومان اور لکشمن کی وفاداری وغیرہ شامل کر کے اسے ایک اسطورہ بنا دیا تھا۔

گوری رنگت کا حامل باہر سے آئی مارشل ریس( آریائی حملہ آور قوم )کا نمائندہ رام فاتح ٹھہرا۔ کالا کلوٹا،بدشکل، دراوڑی نسل کا راون شکست خوردہ بنا۔ اِسی خطے کامقامی راجہ داہر ظالم اور زیرو ، عرب سے آیا اِبن قاسم ہیرو اور نجات دہندہ۔ سرحد کے دونوں جانب بسنے والے ہندو ہو ںیا مسلمان، یہ ہماری جینز میں شامل ہے کہ ہم گوری چمڑی ، آریائی رنگت کو برتری ،فتح اور حکمرانی کی علامت سمجھتے ہیں اور کالی، دراوڑی شکل کو کمتری، شکست خوردگی اور غلامی کا نشان سمجھا جاتا ہے ۔ گورے لوگ نیک ، پرہیزگار، نجات دہندہ اور عظیم تر ۔کالے دراوڑ شیطان صفت ، سفاک، فاسق وفاجر ۔شاید یہی وہ سوچ ہے کہ جس کے بل بوتے پر غیر مقامیوں نے برصغیر کے چپے چپے پر راج کیا اور مقامی آدی واسیوں کے حصے میں ہمیشہ شکستیں آئیں۔

یہ بھی پڑھیے:دلی دل والوں کی(قسط 11)۔۔۔ عباس سیال

جاری ہے


مصنف کا تعارف

نام:  غلام عباس سیال

 تاریخ پیدائش:  دس جنوری 1973
 مقام پیدائش:  ڈیرہ اسماعیل خان
 تعلیم:  ماسٹر کمپیوٹر سائنسز، گومل یونیو رسٹی، ڈیرہ اسماعیل خان 1997
ٍ  ماسٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنیٹ، سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا2009
 ڈپلومہ اِن جرنلزم، آسٹریلین کالج آف جرنلزم2013
 عرصہ 2005ء سے تاحال آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم۔
کتابیں
 ۱۔ خوشبو کا سفر    (سفرنامہ حجا ز)  دوبئی سے حجاز مقدس کا بائی روڈ سفر۔  اشاعت کا سال 2007۔
پبلشر: ق پبلشرز، اسلام آباد۔
۲۔  ڈیرہ مُکھ سرائیکستان (موضوع:  سرائیکی صوبے کے حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان شہر کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی اہمیت)۔ اشاعت کا سال 2008،   پبلشر: جھوک پبلشرز، ملتان۔
 ۳۔  گُلی کملی کے دیس میں (موضوع: صوبہ سرحد کے پرامن شہر ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں اَسی، نوے کی دھائی کا آنکھوں دیکھا حال)،سن اشاعت  2010: پبلشر: ق پبلشر، اسلام آباد
۴۔  کافر کوٹ سے قلعہ ڈیراول تک  (سفرنامہ)  ڈیرہ اسماعیل خان کے تاریخی مقام کافر کوٹ سے بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، ملتان، بہاولپور اور چولستان کے قلعہ ڈیراول تک کا سفر۔  سن اشاعت  2011۔ پبلشر:  جھوک پبلشرز، ملتان
۵۔  ذائقے فرنٹئیر کے (تقسیم ہند سے قبل صوبہ سرحد کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے کھانوں پر ہندی میں لکھی کتاب کا اردو ترجمہ) ۔  یہ کتاب مارکنگ پبلشرز، کراچی  سے بیک وقت ہندی، اردو میں شائع ہوئی تھی۔ دائیں طرف اردو، بائیں طرف ہندی تھی اور دراصل اس کتاب کی مصنفہ پُشپا بگائی تھیں، جن کا بچپن ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا تھا اور وہ تقسیم کے بعد دہلی ہجرت کر گئی تھیں۔ انہوں نے ہندی زبان میں ڈیرہ اسماعیل خان کے لذیذ کھانوں پر کتاب لکھی تھی اور ان کی موت کے بعد اس کے بیٹے اتل بگائی  جو  بنکاک میں  مقیم ہیں اور یو این او میں  جاب کرتے ہیں۔  انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کی کتاب کو اردو، ہندی دونوں زبانوں میں چھپوانا چاہتے ہیں۔ ہندی نسخہ انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔ سڈنی میں ایک بزرگ  ہندو  شری لچھمن ٹُھکرال نے ہندی سے اردو ترجمعہ کرنے میں پوری مدد کی تھی اور پھر  اتل بگائی نے کتاب کو  کراچی سے چھپوایا تھا۔کتاب کو چین کے انٹرنیشنل بُک فئیر میں  امن کے مشترکہ ایوارڈ (پاکستان و ہندوستان)  سے نوازا گیا تھا۔ سال اشاعت 2013،  ناشر:  مارکنگز پبلشنگ کراچی
۶۔  جو ہم پہ گزری۔   (موضوع:  پاکستان ٹیلی ویژن کی نامور فنکارہ عظمیٰ گیلانی کی زندگی اور ان کے کیرئیر پر لکھی کتاب، جسے اباسین آرٹ کونسل پشاورکے 2013-2014  کے ادبی ایوارڈ(تحقیق و تالیف کے جسٹس کیانی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا)۔سن اشاعت: جنوری 2014۔ پبلشر: ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۷۔  برٹش عہد 1893 ء  میں کمشنر ڈیرہ اسماعیل خان مسٹر ٹکر کے لکھے ہوئے گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان کا اردو ترجمعہ۔
اشاعت  2015  ۔   ناشر:  ق پبلکیشنز، اسلام آباد
۸۔  انگریز محقق  ٹی ڈبلیو ایچ ٹولبوٹ کی لکھی کتاب  دا  ڈسٹرکٹ  آف ڈیرہ اسماعیل خان  ٹرانس انڈس 1871،   کا اردو ترجمعہ۔  اشاعت  2016۔   پبلشر: سپتا سندھو  پبلکیشنز، ڈیرہ اسماعیل خان
۹۔  دِلی دل والوں کی (سفرنامہ دِلی)   سڈنی سے نئی دہلی تک کا سفر۔  اشاعت  اگست2018۔
پبلشر:  ق  پبلکیشنز، اسلام آباد

About The Author