اخبار نویس اسی معاشرے میں جیتے بستے ہیں۔ دوست احباب’ خونی رشتے’ تعلق داریاں سبھی دوسرے انسانوں کی طرح ہوتی ہیں’ ذاتی پسند ونا پسند بھی۔
واجب یہ ہوتا ہے کہ خبر’ تجزیہ و تحریر میں زمینی حقائق کی بنیاد پر حرف جوڑے جائیں۔
ہماری نسل کے اخبار نویسوں کی اکثریت ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شعور کی منزل پر پہنچی۔
تب ملک کے طول وعرض میں ایشاء سرخ وسبز کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ ایک طرف دمادم مست قلندر کا الاپ تھا تو دوسری طرف مرشد مرشد سید مودودی کے نعرے۔ دونوں کے درمیان میں بھٹو دے نعرے وجن گے کا بلند الاپ تھا
عجیب اتفاق ہے کہ میرے والد جماعت اسلامی میں اور بڑے بھائی (میں ہمیشہ سے انہیں بھیا ابو کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کرتا ہوں) اسلامی جمعیت طلبہ کے ہمنوا تھے۔ والدہ مرحومہ صوفی سنی مسلک کی بلند پایہ عالم تھیں۔
ایک ایسا خاندان جس کے پرکھوں میں دیندار ہی دیندار تھے یعنی اینٹ اُٹھاو نیچے سے ایک مولانا برآمد ہوتا تھا۔
مذہبی شہرت کے حامل خاندان میں جنم لینے کے باوجود آزادروی نے خاندانی روایات اور خاندان میں موجود عقیدوں سے الگ دنیا بنانے بسانے کی راہ پر لگا دیا۔
اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان سے دوریاں بڑھتی گئیں، ثانیاً یہ فائدہ ضرور ہوا کہ روائیتی بزرگ فروشی کی بجائے محنت مشقت سے تعمیر ذات کا سفر شروع کیا۔
آج بھی جب نصف صدی پیچھے کے ماہ وسال کو یاد کرتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے۔
کیسے خاندانی روایات، عقیدوں کی دنیا اور سیاسی پسند ونا پسند سے یکسر مختلف راہ اپنا لی۔
البتہ اس امر پر خوشی ہے کہ کبھی اپنے فیصلوں اور مرضی سے زندگی بسرکرنے پر افسوس نہیں ہوا۔
1973ء میں کراچی کے ایک اخبار میں بچوں کا صفحہ بنانے (ترتیب وتدوین) کی ملازمت سے شروع ہوئی قلم مزدوری 47سال بعد بھی جاری ہے۔
پچھلی صدی کی ساتویں دہائی میں صحافت نظریہ سازی تھی۔
آپ دائیں بازو کیساتھ ہیں یا بائیں بازو کے ہر دو صورتوں میں شخصی احترام’ دلیل’ مکالمہ اور مطالعہ اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا۔
یہ کافر کافر’ غدار’ مشرک’ یہود وہنود کا ایجنٹ والے چکڑ چھولے 1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے حامیوں نے فروخت کرنے شروع کئے۔
تمہید طویل ہوگئی اس کیلئے معذرت، عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پیپلز پارٹی یا اے این پی کیلئے خیرخواہی کاجذبہ ان دونوں جماعتوں کی ترقی پسند فہم کی بدولت ہے۔
بلا شبہ دونوں سے بعض غلطیاں بھی ہوئیں، ان غلطیوں کی نشاندہی پر ان جماعتوں نے کبھی تلواریں نہیں سونت لیں جیسے ہمارے ہاں کی مذہبی جماعتیں، جنرل ضیاء کے دور میں بننے والی مسلم لیگ جو اب ق اور نون لیگ میں تقسیم ہے یا پھر 2012ء سے نئی اُٹھان کیساتھ منظم کروائی جانے والی تحریک انصاف کے دوست تنقید کرنے والوں پر سونت لیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے بہت سارے دوستوں کو شکوہ رہتا ہے کہ میڈیا ان کی جماعت اور قیادت کیساتھ انصاف نہیں کرتا۔ ان کی خدمت میں ہمیشہ عرض کرتا ہوں
جب تک صحافت نظریہ سازی کا ادارہ تھا قلم مزدوروں کی اکثریت ترقی پسند فہم کیساتھ استقامت سے کھڑی ہوئی۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا جائزہ لیجئے’
قومی اتحاد اور جماعت اسلامی کے حامی اخبار نویس معاشرے کو مشرف بہ اسلام کرنے کے ضیائی پروگرام کے جذباتی ترجمان تھے،
مقابلتاً ترقی پسند فہم والے صحافیوں نے اس دور میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور کوڑے کھائے
پیپلز پارٹی کا میڈیا سے شکوہ کسی حد تک درست ہے
لیکن اس کی قیادت اور پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ ان کے ادوار میں قلم مزدوروں کے مسائل کو کم کرنے کیلئے کیا اقدامات ہوئے۔
ثانیاً یہ کہ 1988ء ‘1993ء اور پھر بی بی کی شہادت کے بعد 2008ء میں ملنے والے اقتدار کے برسوں میں پی پی پی کی حکومتیں جن صحافیوں پر ”مہربان” رہیں وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔
ویسے تو مہربانیوں کا فیض پانے والے 2008ء سے 2013ء کے درمیان بھی فیض پیپلز پارٹی سے پاتے اور صحافت فراہم کردہ رپورٹوں پر کرتے تھے۔
اب بھی ان میں سے بعض کی سابقہ سرپرست اداروں کیساتھ ناراضگی کسی اُصول ضابطے پر نہیں بلکہ اس زعم کا ٹکرائو ہے کہ ”یہ چند” ملکی سیاست کے منظرنامے پر اثرانداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں
جبکہ ان کے سابق مہربانوں کا خیال یہ ہے کہ رجحان سازی ان کے ایجنڈے کے مطابق ہوتی ہے۔
پچھلے چند برسوں سے ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے وہ یہ کہ جو بھی نون لیگ کی مخالفت کرے وہ ریاستی اداروں کا لے پالک ہے۔
سبحان اللہ! جب بعض ریاستی ادارے نون لیگ کو نجات دہندہ بنا کر پیش کروانے کی مہم چلوا رہے تھے تب کیا تھا؟۔
اسی طرح تحریک انصاف والوں کے نزدیک ہر وہ صحافی جو ان کی جماعت اور حکومت کا کسی بھی طور ناقد ہے وہ لفافہ صحافی ہے۔
نون لیگ بھی یہی سوچتی کہتی تھی، اب تحریک انصاف کا بھی یہی خیال ہے۔
میں ان دونوں سے متفق نہیں نا اس بات کے حق میں ہوں کہ تنقید کرنے والوں کو جواب میں گالی دی جائے’ ان کی کردارکشی کی جائے کیونکہ اگر ہم اس بات کو مان لیتے ہیں کہ تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے لفافہ صحافی ہیں تو پھر جو صحافی اس کی حمایت کر رہے ہیں وہ کیا ہیں؟۔
میری دانست میں کسی سیاسی جماعت یا حکومت کی حمایت ومخالفت کفر واسلام یا حب الوطنی وغداری جیسے معاملات ہرگز نہیں۔
نون لیگ کے دور میں بھی ہم یہ عرض کرتے تھے کہ الزامات لگانے کی بجائے حکومت معاملہ عدالت میں لے جائے آج بھی یہی عرض کرتا ہوں کہ اگر حکومت کے پاس ثبوت ہے کہ ان کے ناقدین کہیں سے ”کچھ لے کر” ان کی مخالفت کرتے ہیں تو ثبوت لے کر عدالت میں جائے،
دودھ کادودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر بہت سارے بگاڑوں’ کمزوریوں اور دوسرے مسائل کے باوجود میری رائے یہ ہے کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی غنیمت ہیں۔
اس غنیمت کہے جانے کے عوض ”مال غنیمت” میں سے کچھ حصہ نہیں ملتا ہاں یہ شخصی پسند وناپسند کا معاملہ ہے۔
پنجاب سے تعلق رکھنے والا میڈیا اور کچھ دوسرے دوست جب ان دونوں جماعتوں کی بھد اُڑاتے ہیں تو ہمیشہ یہ عرض کرتا ہوں متبادل کیا ہے؟۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اس ملک میں جماعتیں کیسے بنتی ہیں’ یا کیسے جماعتوں کو توڑ کر نئی جماعت بنوائی جاتی ہیں
یہ سب کے سامنے ہے۔
نون لیگ کیسے بنی’ پھر ق لیگ یا 2012ء کے اکتوبر میں تحریک انصاف میں جان کس نے ڈالی۔
سب روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
ہر کس وناکس کو اپنی پسند وناپسند کی بنیاد پر حمایت یا مخالفت کا حق ہے
مگر قلم مزدوروں کو زمینی حقائق نظر انداز نہیں کرنے چاہئیں۔
غیرجانبداری نہیں حضور!
( کیونکہ غیر جانبداری درحقیقت منافقت کا نقاب ہے )
قلم مزدوری اعتدال’ توازن اور معروضی حالات میں درست فہم کی متقاضی ہوتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ