دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جگ لُٹیرے۔۔۔ گلزار احمد

آپ حیران ہونگے کہ اردو میں لُوٹنے کا لفظ صرف منفی کاموں کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ مثبت اور رومینٹک کاروائیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

ویسے تو اردو میں لٹیرے وہ لوگ کہلاتے ہیں جو سادہ لوح عوام کو لوٹ لیتے ہیں اور پتہ بھی چلنے نہیں دیتے مگر میں آج ان لٹیروں کا ذکر بالکل نہیں کر رہا اگر آپ ان لٹیروں کو جاننا چاہتے ہیں تو شام سات بجے سے رات گیارہ بجے تک ہمارے ملک کے ٹی وی چینل کھول کے بیٹھ جائیں آپ کو ملک کے کونے کونے سے تعلق رکھنے والے لٹیروں کا پتہ چل جاۓ گا۔

آپ حیران ہونگے کہ اردو میں لُوٹنے کا لفظ صرف منفی کاموں کے لیے استعمال نہیں ہوتا بلکہ مثبت اور رومینٹک کاروائیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

میرا آج کا کالم منفی قسم کی مخلوق کے لیے نہیں ہے کہ وہ کیا کیا چیز لوٹ لیتے ہیں بلکہ میں تو آج ان جَگ لُٹیروں کی بات کرونگا جن سے لُٹ کر عوام الٹا مرزا غالب کی طرح دعا دیتے ہیں۔ غالب نے کہا تھا؎ نہ لُٹتا دن کو تو یوں کیوں رات کو بے خبر سوتا۔۔

رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو ۔۔۔۔ میں نے اوپر جو جگ لٹیرے عنوان رکھا ہے سرائیکی کی شاعری اور گیتوں کی ایک صنف بَگڑو سے لیا ہے۔ بگڑو ویسے تو اس زبان میں پھولوں کے ہار کو کہتے ہیں لیکن ایسی شاعری جس کا ایک بند تو بے معنی ہو اور دوسرا بہت اعلی درجہ کا مطلب رکھتا ہو بگڑو کہلاتا ہے۔

جگ لٹیرے کچھ اس طرح استعمال ہوا ہے؎

تیڈے کُھو تے آئی ہاں ساوے کریلے

تساں لٹیا ساکوں اَساں جگ لٹیرے

مطلب یہ ہے کہ لڑکی کہ رہی ہے کہ میں تمھارے کنویں کی زمینوں پر سبز تازہ کریلے لینے آئی تھی مگر اے محبوب تمھاری وجاہت اور خوبصورتی کے ہاتھوں دل دے بیٹھی اور لٹ گئی حالانکہ میرا اپنا حُسن اتنا زیادہ ہے کہ پورے جگ یعنی دنیا کو میں حسن کی چمک سے لُوٹ لیتی ہوں۔

بگڑو میں پہلا بند بس یونہی توجہ کے لیے ہوتا ہے؎

تیڈے کھوہ تے آئی ہاں ساوا تماخوں

اساں جگ لٹیرے تساں لٹیا ساکوں

خیر میں نے آج اپنے دوست اور بین الاقوامی شاعر رحمت اللہ عامر کی بات کرنی ہے جو اسی ہفتے خصوصی طور پر کراچی ایک بڑے مشاعرے میں بلاے گیے اور وہ مشاعرہ لُوٹ کر واپس ڈیرہ لوٹ آے۔

رحمت اللہ عامر صاحب زیادہ طور مزاحیہ شاعری کرتے ہیں جو سماجی برائیوں پر ایک نشتر کا کام کرتی ہے۔ ان کے کراچی کے مشاعرے میں پڑھے گیے اشعار آپ کو پیش کرتا ہوں ۔؎

جوانی میں حَسینہ مانگتا ہے ۔۔۔میسر ہو تو پینا مانگتا ہے

اترتا ہے نشہ جب آدمی کا۔۔بڑھاپے میں مدینہ مانگتا ہے

پھر کہا ؎

تھی جوانی تو پاپ سنگر تھے۔اب بمشکل قدم اٹھاتے ہیں

لے کے باجا کباڑخانے سے۔۔صوفیانہ کلام گاتے ہیں

اگلا قطعہ ہے؎

رضائی میں بھی جن کے چہرے نور سے چمکتے ہیں

ہمارے ملک میں وہ صاحب ایمان ہوتے ہیں

ہماری بات سن کر اہل دانش نے یہ فرمایا

کہاں کا نور چہرے کا موبائیل آن ہوتے ہیں

رحمت اللہ عامر نے کراچی کی خواتین سے معذرت کرتے ہوے یہ اشعار کہے؎

وہ میک اپ کرنے سے اتنی فائین لگتی ہے

کہ ففٹی ایٹ58 ہو کر بھی ٹوینٹی نائین 29لگتی ہے

بھلی لگتی تو ہوگی تاڑنے والوں کو اے عامر

مگر بیوی تو شوھر کو عموما” ڈائین لگتی ہے

چونکہ کراچی کا یہ مشاعرہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے ہوا تھا تو سب سے پہلے انہوں نے کشمیر کے حوالے سے یہ اشعار پڑھے ؎

روز اول سے دم تحریر تک ۔۔سب کے سب محدود ہیں تقریر تک

ظلم کے ہیں سلسلے محو سفر ۔۔ کربلا سے وادی کشمیر تک

یہ جو کشمیر ڈے منایا ہے۔۔سچ بتاو کہ کتنا کھایا ہے؟

ایک مدت سے صرف باتیں ہیں ۔۔ایک مدت سے کون آیا ہے؟

اُس طرف کشمیر میں بچے لہو سے تر بتر اور ہم گفتار کے غازی آدھے اِدھر آدھے اُدھر ۔بھنگ پی کر سو رہے ہیں وارثان قبلہ تین۔۔ نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر۔ تو جناب ہم رحمت اللہ عامر صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کراچی میں ڈیرہ اسماعیل خان کا نام روشن کیا ۔شاباش

About The Author