ہم مڈل کلاسیوں کی بھی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ ساری زندگی اپر مڈل، مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے پنڈولم میں جھولتے رہتے ہیں۔
غریبوں کو غربت کا رونا رونے کی عیاشی نصیب ہوتی ہے۔ ہم مڈل کلاسیے اپنے احباب میں یہ جتاتے جتاتے مر جاتے ہیں کہ ہم لگ بھگ امیر ہی ہیں بس آج کل حالات ذرا ٹائٹ ہیں۔
غریب غربت سے تنگ آتا ہے تو دو کام کرتا ہے۔ یا خود کشی کر کے زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے یا پھر ہاتھ پھیلا دیتا ہے۔ مڈل کلاسیے بیچارے کے نصیب میں موت بھی نہیں ہوتی۔ مڈل کلاسیے اگر غربت کے ہاتھوں مرتے بھی ہوں گے تو گھر والے یہی کہہ کر جگ ہنسائی کا ڈھکن ڈھک دیتے ہوں گے کہ ’ہارٹ اٹیک ہوگیا تھا‘۔
غریب کو بھوک ستائے تو لنگر خانے پر کھانے کی تھالی میں جا بیٹھتا ہے، بڑے گھر کا بچا کھچا کھانا غریب کی جھونپڑ پٹی میں خوب مزے لے لے کر کھا لیا جاتا ہے۔ مہنگائی اصل امتحان ہوتی ہے مڈل کلاسیے کا، جو سیلانی کے لنگر خانے سے کھانا کھا نہیں سکتا کیونکہ کسی رشتے دار نے دیکھ لیا توسارے خاندان کی عزت خاک ہو جائے گی۔
غریب کے مکان میں ٹی وی، فریج، صوفے، بائیسکل نہیں ہے تو نہیں ہے وہ ان سب کے بغیر جینا جانتا ہے۔ ادھر مڈل کلاسیا ’مفلسی میں فالسے کا شربت‘ کی طرح ہوتا ہے جو قسطوں پر ایک ایک کر کے عزت کی چیزیں جمع کیے جاتا ہے چاہے جیب میں ڈھیلا پائی نہ ہو۔
اردو زبان نے بھی ہم جیسوں کے لیے کیسے کیسے ظالم محاورے بنا رکھے ہیں جیسے کہ ’جیب میں نہیں ہیں دانے، بڑھیا چلی بھنانے۔‘
غریب کلاس کی عورتیں گھروں میں کام کر کے چار پیسے جوڑ لیتی ہیں، میڈموں اور باجیوں کے دیے پرانے کپڑے پہن لیتی ہیں۔ مڈل کلاسیوں کی بیچاری عورتیں بھی عجیب کشمکش کا شکار ہیں، یہ گھروں میں کام نہیں کر سکتیں، دفتروں میں یہاں مردوں کو نوکریاں نہیں مل رہیں انھیں کوئی کاہے کو رکھے گا۔
آپ کو ایک راز کی بات بتاوں! ہم مڈل کلاسیوں کی اسی جھوٹی انا کا سب سے بڑا فائدہ گلی محلے میں کھلے پرائیوٹ سکول اٹھاتے ہیں جہاں گھروں میں کام کرنے والی ماسیوں سے بھی کم تنخواہ پر بطور استانی مڈل کلاس کی عورتیں ’بخوشی‘ کام کرنے پر ’مجبور‘ ہیں۔
ایک تو اس ماہانہ تنخواہ کے فریب نے بھی ہم مڈل کلاسیوں کی بڑی تباہی پھیری ہے۔ مڈل کلاسیا کوئی بڑا ہی بے جگرا ہوگا جو ساری جمع پونجی داؤ پر لگا کر کوئی کاروبار شروع کرے۔ مہنگائی کے اس دور میں دیہاڑی دار کے مقابلے میں ماہانہ تنخواہ دار ہونا شاید محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
سخی سیاں تو خوب ہی کمات ہے
مہنگائی ڈائن کھائے جات ہے
ہم میں سے بہت سوں کے منہ کو رتی برابر تنخواہ کا خون لگا ہوا ہے جسے سارے مہینے چلانا ہم کوئی آرٹ سمجھتے ہیں۔
غریب پھٹا ہوا کپڑا پہنے تو غربت، امیر پہنے تو فیشن اور مڈل کلاسیا پہنے تو عزت نفس کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے تنخواہ دار طبقہ اپنی جھوٹ موٹ کی عزت کو جگ دکھاوا کر کے بڑھاوا دیتا ہے۔ سارا سال تنخواہ سے بچا کر، کمیٹی ڈال کر جو تنکا تنکا جوڑا جاتا ہے اسے شادی یا موت کے موقعے پر بھرم رکھنے کی خاطر ایک منٹ میں جلا کر بھسم کر دیا جاتا ہے۔
اجتماعی شادیوں کی بابرکت محفلوں کی تشہیر ٹی وی اخبار پر اکثر دیکھی ہوگی۔ سماجی تنظیموں کی جانب سے رچائی یہ اجتماعی شادیاں غریب کی بیٹی کے لیے کسی نعمت سے کم تو نہیں۔ ہاں مگر یہ سہولت بھی مڈل کلاسیوں کے لیے شجر ممنوعہ ہے۔ اجی ساری عمر کا طعنہ ہے جیتے جی مر جانے جیسا ہے۔ مڈل کلاسیا بیٹی کو گھر بٹھا رکھے گا مگر ہاتھ نہیں پھیلائے گا۔
غریب اس جملے کی کاٹ سے بےخبر ہوتا ہے کہ ’آئے ہائے لوگ کیا کہیں گے۔‘ غریب پھٹے کپڑے سے بے پرواہ ہوتا ہے لیکن مڈل کلاس کی عورت کو نہ کسی میڈم کی اترن نصیب ہوتی ہے نہ ہی وہ پھٹے پرانے کپڑے پہن سکتی ہے۔ اور تو اور ہم مڈل کلاسیے اپنی اوقات ماننے سے اتنے انکاری ہیں کہ ہم کھل کر یہ بھی نہیں بتاتے کہ کپڑوں کی شاپنگ لنڈا بازار سے کی ہے۔
وہ ایک دکھی فلمی ڈائیلاگ تو بڑے زور و شور سے سنا ہوگا ’سفید پوشی کا بھرم۔‘ ہم مڈل کلاسیوں کے ساتھ اس ایک جملے نے بڑا ظلم کیا ہے۔ اس سفید پوشی کے بھرم ورم کے چکر میں کتنے ہی مڈل کلاسیے چکرا گئے۔
ہم مڈل کلاسیوں کو ایک اور چیز جو لڑی ہے وہ ہے خاندان کا نام، عزت و ناموس۔ ایسا لگتا ہے ہمارے اجداد کی دور کی نگاہ اتنی کمزور تھی کہ وہ یہ دیکھ نہ سکے کہ آنے والے وقتوں میں کتنی مہنگائی ہوگی۔ کسی کا نام رئیس ہے اور وہ قرضوں میں جکڑا ہے۔ کوئی شہزادہ ہے جس کے گھر کی چھت ٹپک رہی ہے۔ کوئی نواب ہے جن کی اب ٹافیوں کی دکان ہے اور کوئی امیر بیگم ہیں جو دو روپے کا ایک تکیہ غلاف سی کر سارے دن کے ڈیڑھ سو روپے کما لیتی ہیں۔
مرے کو مارے شاہ مدار۔ ہم مڈل کلاسیوں کے ساتھ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ڈاکو بھی کم بخت ہم ہی کو نشانے پر رکھتے ہیں۔ اکثر ڈکیتیاں تنخواہ دار کے گھر ہوتی ہیں۔ راہ چلتے فقروں سے چائنا کا موبائل چھینا جاتا ہے، قسطوں پر لے گئی گاڑی اٹھا لی جاتی ہے، کمیٹیاں ڈال ڈال کر جو پیسے بیٹی کی شادی کے لیے جوڑے ہوتے ہیں وہ ایک گھنٹے کی واردات میں لوٹ لیے جاتے ہیں۔
آئے روز کوئی مسافر بس لوٹ لی جاتی ہے، کبھی بائیک پر بیٹھے کسی ٹی ٹی لہراتے ڈاکو کو کسی ویگو یا لینڈ کروزر کو روکتے دیکھا؟ نہیں۔ ڈاکو بھی جانتے ہیں جو کروڑوں کی گاڑی رکھ سکتا ہے وہ چند ہزار کا اسلحہ لینا اور چلانا بھی جانتا ہوگا۔
ہم مڈل کلاسیوں کی اس ان کہی کو شاید میں کبھی نہ سناتی مگر صرف لاہور میں گیارہ دنوں میں خودکشی کے چار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ وجہ بیروزگاری، مہنگائی اور غربت ہے۔
وزیر اعظم صاحب! مہنگائی کے اس ماتم میں جو ایک طبقہ تقیہ کیے بیٹھا ہے وہ مڈل کلاسیا ہے۔ مڈل کلاسیا مہنگائی کے ہاتھوں خاموشی سے مرتے مرتے مر جائے گا۔ کچھ کیجیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر