کہتے ہیں ثقافتیں خطے کے اندر معروضی حالات کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ جوں جوں رابطہ سازی کے ذرائع بہتر ہوئے اور مختلف خطوں کے لوگوں نے ایک دوسرے سے ملنا جلنا شروع کیا تو مقامی ثقافتوں کے رنگوں کو عالمگیریت کاچوغا پہنا دیا گیا۔
عالمگیریت کی ہوا انیسویں صدی کے آغاز سے چلی تو اس نے مقامی رنگوں کو اپنے اندر ضم کرنا شروع کر دیا تو آہستہ آہستہ اس کا دائرہ سرمائے کی طرح پھیلتا گیا۔ جاگیر دارانہ سماج سے سرمایہ دارانہ سماج کی نمو ہوئی تو سرمایہ دار نے اپنی مارکیٹ کو مضبوط کرنے کیلئے بہت سے مقامی رویوں اور سوچ کے دھاروں کو اپنی منڈی کے تقاضوں کے مطابق بدلنے کی سعی کی جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوا۔
انڈسٹریلسٹ طبقہ جس کا زیادہ تر تعلق مغربی ممالک کے خطے سے تھا اس کوانڈسٹری کی بقا کیلئے ایسا نظریہ دینا بھی ضروری تھا جس کے تحت انسانی اور مادی وسائل کو بنا کسی خاص رکاوٹ کے اپنے کاروباری مفادات کو تحفظ دینے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کیا جا سکتا۔ اس مقصد کے حصول کیلئے اس نے روایتی ماڈلز کو سائنٹیفک ماڈلز میں بدلا تو پوری دنیا کے اندر روز گار سے متعلق مقامی ڈھانچے بھی بدل گئے۔ مثال کے طور پر زراعت کے شعبے سے وابستہ کسان کا علم جسمیں بیل کا استعمال، کنوئیں کے پانی کو نکالنے سے جُڑا سازوسامان، مقامی برتنوں اور بیجوں کا استعمال یہ سب کچھ ٹریکٹر کے آ جانے سے تیزی سے ختم ہو گیا۔ جس کے باعث بیل، کنوئیں اور مقامی بیج و ذائقے سے جُڑی لوک دانش، ثقافتی بندھن اور لوک گیت بھی ختم ہو گئے۔
میں جدت اور سائنٹفک اپروچ کی مخالفت ہرگز نہیں کر رہا اور نہ ہی مجھے اس کی اہمیت سے انکار ہے مگر ٹیکنالوجی کے استعمال اور اس سے جُڑی استحصال کی شکلوں کا میں شدید مخالف ہوں کیونکہ ٹیکنالوجی کو لے کر آنے والے طبقے نے اخلاقی، سماجی اور انسانی اقدار کو پس پشت ڈال کر صرف اپنے سرمائے اور منافع کو مقدم رکھا۔ مثلا ٹیکنالوجی کے استعمال سے قبل جو روایتی ڈھانچہ تھا اس کو ڈھا دینے سے قبل کوئی ریسکیو پلان بنایا جاتا جسمیں مقامی وسائل اور مقامی سرمائے سے جُڑے اوزار کے خاتمے سے پہلے وہاں کی آبادی کو ٹرینڈ کر کے کھپایا جاتا اور اُن کے روزگار کو نقصان پہنچائے بغیر متبادل ڈھانچہ کھڑا کیا جاتا تو دُنیا کو موجودہ صورتحال سے بچایا جا سکتا تھا اور فطرت سے ہم آھنگ رویوں اور سوچ کے دھاروں کو محفوط کر کے ثقافتی اور سماجی بحران سے بچا جا سکتا تھا۔
مگر بد قسمتی سے ایسا نہ ہوا اور نہ ہی مستقبل میں ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کیونکہ ٹیکنالوجی نت نئی جدت کے ساتھ اپنی وسعت کو پھیلاتی جا رہی ہے اور اس ٹیکنالوجی کو بنانے اور استعمال کرنے والا طبقہ “پیٹنڈ” حقوق کے نام پر وسیع عوام کے حقوق کو پائمال کرتا جا رہا ہے۔ جس کے اثرات اُن قوموں اور خطوں پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں جو ٹیکنالوجی کے لحاظ سے پسماندہ ہیں اور اُن کی پسماندگی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
اپنی اپنی مٹی سے جُڑے مقامی قبائل اور اقوام کے افراد اس ساری گیم سے خود بخود باہر ہوتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ وہ اس گیم کا حصہ ہی نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں کبھی حصہ دار یا سٹیک ہولڈر سمجھا گیا ہے۔ اس عفریت کے نتیجے میں سرمائے کو مرکزی اہمیت حاصل ہو گئی جس کی وجہ سے مقامی ثقافتوں کے رنگ دن بدن ماند پڑتے گئے اور سرمائے کی بنیاد پر سماجی حیثیت اور اقدار کا تعین کیا جانے لگا۔ یوں کہیے اب سوچ، اقدار اور ثقافت کے ہمہ جہتی دھارے اجتماعیت کی تیر کمان سے نکل کر ایک خاص طبقے کی پکڑ میں آ گئے۔ یہ طبقہ عرف عام میں نو دولتیا طبقہ کہلایا جس کا سماجی دانش، تہذیبی ارتقا اور فطری رجحانات و میلانات سے کوئی لگاو نہیں تھا کیونکہ ان کیلئے سرمایہ سب سے مقدم تھا۔ اب اس طبقے نے سرمائے کی بنیاد پر لوگوں کو اپنا ملازم رکھا، ایک نقطے پر مرتکز اپنی سرمایہ دارانہ سوچ کو پوری دنیا میں پھیلایا اور لوگوں کو دن رات ایسا انگیج کیا کہ وہ فرصت کے دنوں کو بھول گئے اور حصول زر کی ریس میں ایسا بھاگے کہ اپنا سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔
مجھے یاد ہے اس دوڑ سے پہلے میرے علاقے کے لوگ سال بھر کسی نہ کسی تہوار میں مصروف رہتے کبھی بیساکھی منائی جاتی، کبھی بہار کے میلوں میں جھومریں ڈالیں جاتی، کبھی عیدوں پر مقامی کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا، کبھی دنگل رکھے جاتے تو کبھی شادی کی تیاریوں میں مہینہ بھر خوشیاں منائی جاتیں، جس میں کھانے پینے سے لیکر کھیل کود ، موسیقی، جھومر اور چھوٹے چھوٹے فنکشن سے پورا علاقہ شریک رہتا اور کھلی کھلی حویلیوں میں خوب جشن کا سماں رہتا
گرمیوں میں میرے بزرگ کیکر یا ٹاھلی کی چھاوں میں سارا سارا دن سوئے رہتے اور ایک دوسرے سے خوب گپیں لگاتے۔ ارد گرد ایک عجیب سا اپنا پن، پیار، دھرتا اور سانجھ کا احساس ہوتا۔ اس وقت گورے رنگ کا زمانہ نہیں تھا بلکہ سانولا رنگ پسند کیا جاتا تھا ایک ماہیا پورے وسیب میں مشہور تھا کہ ” گورے دے ہن 5 روپئے سانول دا ہزار وائے” اسی طرح وہ لوگ گورے رنگ کی کریموں اور کاسمیٹکس کے چُنگل سے بھی آزاد تھے۔ وہ لوگ تہواروں اور خوشیوں میں اتنا مصروف رہتے کہ ان کو ہماری طرح سال میں کسی مخصوص دن کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔ میری دادی بُڑھاپے میں بھی میرے دادا کا انتظار کرتی اور اس سے گپیں لگا کے خوب لطف اندوز ہوتی رہتی۔ وہ روزانہ ایک ان چھوئی خوشی کی لذت سے اپنے آپ کو مسرور کرتے اور یہ سرور معاشرے کے اندر ایک اجتماعی خوبی کے طور پر موجود رہتا۔ یوں سال بھر اپنے اپنے عذابوں میں غرق ہم لوگ ویلنٹائن ڈے منا کے کونسا تیر مار لیں گے۔ یہ دن بھی ایک اور فرسٹریشن دے کر رخصت ہو جائیگا۔ اگر ہمیں واقعی ویلنٹائن دن کی جینوئین خوشیاں درکار ہیں تو ہمیں اپنے مقامی رنگوں کو اپنے اوپر چڑھانا ہوگا جسمیں باجرے کے کھیت، ٹیلوں کی اوٹ، راستوں کی پگڈنڈئیاں، ترچھی نظروں کی جھانک تانک، خالہ کا گھر، ٹیوب ویل کا تالاب، میلے کا بہانہ اور میل ملاپ کا موقع دینے والے کھیل “لُک چھپ” ، “کانگا” ، “چادر ونجائی” ، گُڈی دی شادی” جیسے مواقع دستیاب ہیں جو ہمارے ویلنٹائن کو ہم سے ملانے میں بڑے کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ویلنٹائن ڈے کو ضرور آزمائیے مگر اس کا تعلق کسی اندرونی خوشی کا سبب ہرگز نہیں بن سکتا کیونکہ اس کا تعلق ہماری ثقافتی اقدار سے نہیں ہے اور نہ ہی یہ ہماری مٹی سے جُڑا کوئی تہوار ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر