غیرملکی سفیروں کے دورے کے خلاف احتجاج، چار نوجوان حراست میں
سرینگر ،
مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس نے سرینگر میں ڈل جھیل کے کنارے غیر ملکی سفیروں کے دورے کے خلاف احتجاج کرنے پر چار نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔
گزشتہ روز غیر ملکی سفیروں کی جانب سے شہرہ آفاق ڈل جھیل کی سیر کرتے وقت چار نوجوانوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھاکر احتجاج کیا ،جن پر ‘ وی کشمیر یوتھ پاور ٹیم’ لکھا ہوا تھا۔ بعد میں پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔
گرفتاری سے قبل انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی سفیروں کا دورہ بے معنی ہے اور کشمیر میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کوششیں کرنی ہونگی۔
پچیس اراکین پر مشتمل غیر ملکی سفیروں کا وفد اس وقت جموں و کشمیر کے دورہ پر ہے۔اس وفد میں فرانس، جرمنی، کینیڈا، افغانستان کے سفارتکاروں کے علاوہ یورپی یونین کے اراکین پارلیمان شامل ہیں۔
سفارتکاروں کا دورہ کشمیر ، بھارتی پارلیمنٹ کی تضحیک کی کوشش
بھارت نے خود ہی مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنلائز کردیا
سرینگر ،
مقبوضہ کشمیر کی تازہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے بدھ کے روز سرینگر پہنچے 25 غیر ملکی سفارتکاروں پر مشتمل وفد کے دورے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے کہا کہ یہ ملک کے پارلیمنٹ اور اراکین پارلیمان کی تضحیک کرنے کی ایک کوشش ہے۔
غیر ملکی وفود کشمیر کے لئے کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں، اگر کچھ ہونا ہے تو وہ اپنے ملک کی پارلیمنٹ اور ارکان پارلیمان کرسکتے ہیں۔
غلام احمد میر نے کہا کہ غیر ملکی وفود کو یہاں لایا جارہا ہے
جبکہ ملک کے پارلیمانی نمائندوں کو اجازت نہیں دی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جب دیکھو غیر ملکی وفود کو یہاں لاکر گھمایا جارہا ہے، جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے آواز اٹھی ہے تو پھر مقامی پارلیمنٹ کے نمائندوں خاص کر حزب اختلاف کے رہنماوں کو یہاں آنے کی اجازت کیوں نہیں دی جارہی ہے جن ایشوز پر وہ بات کرسکتے ہیں ان پر غیر ملکی سفارتکار تھوڑی بات کرسکتے ہیں۔
صدر نے سوالیہ انداز میں کہا کہ غیر ملکی سفارتکار کشمیر کے لئے کیا بہتر کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ باہر کے لوگ کشمیر کے لئے کیا بہتر کریں گے، یہ انڈین پارلیمنٹ کی تضحیک کرنے کی مودی کی ایک کوشش ہے۔
انہوں نے کہاکہ اس وفد کا دورہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوگا اگر کوئی کوشش نتیجہ خیز ثابت ہوگی تو وہ ملک کے ارکان پارلیمان کا دورہ کشمیر ہوگا، یہاں جو کچھ بھی ہونا ہے ملک کی پارلیمنٹ سے ہونا ہے۔
غلام احمد میر نے کہا کہ یہاں وہی غیر ملکی نمائندے آتے ہیں جو ان کی بات مانتے ہیں۔
معتبر ممالک کے معتبر نمائندے یہاں نہیں آتے۔ کئی غیر ملکی وفود نے یہاں آنے سے انکار کر دیا۔وہ کہتے ہیں کہ اگرہم آئیں گے تو حکومت کی ہم پر کسی قسم کی پابندیاں نہیں ہونی چاہئے، یہاں وہی نمائندے آتے ہیں جو ان کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں اور پھر ہوٹلوں میں ان سے وہی لوگ ملتے ہیں جو ان کی اپنی پیداوار ہوتے ہیں۔
صدر نے کہا کہ یورپی یونین کے ارکان پارلیمان نے کشمیر معاملے کو انٹرنیشنلائز کردیا۔ یورپی یونین کے ارکان پارلیمان نے اس مسئلے کو انٹرنیشنلائز کردیا،
انہوں نے یہاں مودی کے سامنے ایک بات کی اور وہاں اپنے اپنے ممالک میں دوسرے بیانات دے دیے۔ میر نے کہا کہ ایک طرف کہا جارہا ہے کہ کشمیر اندرونی معاملہ ہے جب کہ دوسری طرف خود ہی اس کو انٹرنیشنلائز کیا جارہا ہے۔
سید علی شاہ گیلانی اور ان کی تحریک کو جیتے جی مار دیا گیا
سرینگر
بدھ کے روز تحریک آزادی کشمیر کے لیجنڈری رہنما، مقبوضہ کشمیر کے بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی کے بیٹے نسیم گیلانی نے ان کے والد کے انتقال کی خبریں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کافی بیمار ہیں لیکن اللہ کے فضل سے باحیات ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی کے انتقال کی خبروں کے پیش نظر ایک بار پھر انٹرنیٹ معطل کر دیا گیا ۔
نسیم گیلانی کا کہنا تھا کہ ان کے والد کی صحت گزشتہ 6 مہینے سے کافی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ وہ کافی کمزور ہیں لیکن ابھی باحیات ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ
حال ہی میں وہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ میں سینے کی تکلیف کی وجہ سے داخل کیے گئے تھے۔ گیلانی کی صحت لگاتار نازک ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے
کل جماعتِ حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے مظفرآباد آزاد کشمیر میں نمائندے سید عبداللہ گیلانی نے عوام سے سید علی گیلانی کی صحت کے لیے دعائیں کرنے کی اپیل کی ۔
جبکہ حریت کانفرنس کی طرف سے جاری بیان میں سیدعبداللہ گیلانی نے سید علی گیلانی کے انتقال پر ان کے جنازے پر عوام الناس کی آمد کے پیش نظر رہنمائی کے لئے نقشہ اور روڈ پلان بھی پیش کیا۔ان کا کہنا تھا کہ گیلانی کی وفات پر ان کو ان کی وصیت کے مطابق مزار شہدا میں دفن کیا جائے گا اور نماز جنازہ وفات کے دوسرے روز ہوگی۔
اس پریس ریلیز سے میڈیا اور کشمیری عوام اور دنیا بھر میں یہ تاثر پھیل گیا کہ سید علی گیلانی انتقال کرگئے۔
سرینگر میں ایک سینیئر پولیس افسر کے مطابق گیلانی کی طبیعت کافی عرصے سے خراب ہے۔ وہ علیل ضرور ہیں لیکن ابھی باحیات ہیں۔ ان کی وفات کے تعلق سے تمام خبریں غلط ہیں۔
پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ حریت کے مظفرآباد دفتر سے جاری کیے گئے بیان کے بارے میں ان کو کوئی علم نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے علاقے سے ہم نے کسی بھی حریت کارکن کو حراست میں نہیں لیا ہے۔ ایسی تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔
واضح رہے کہ91 برس کے گیلانی گزشتہ 10 برسوں سے اپنے ہی گھر میں نظربند ہیں۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے بدھ کے روز اس بات کی تصدیق کی ہے کہ علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کی صحت مستحکم ہے اور لوگوں کو ان کے بارے میں غلط افواہوں پر توجہ نہیں دینی چاہئے۔
کشمیر کے ڈویژنل کمشنر بصیر احمد خان نے کہا کہ گیلانی کی صحت کے بارے میں افواہیں پھیلانے کی کوشش کی جاری ہے۔ ان کی صحت کی صورتحال کے بارے میں جو افواہیں پھیلائی جارہی ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ان کے اہل خانہ سے بات کی ہے اور اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ افواہ پھلانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ایس کے آئی ایم ایس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جی این آہنگر نے کہا کہ
میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ شیر کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس کے آئی ایم ایس) سے گیلانی کی صحت سے متعلق کسی بھی طرح کی معلومات کی تصدیق کریں۔
ماہر ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کو سید علی شاہ گیلانی کے گھر بھیجا تھا۔ مکمل چیک اپ کیا گیا تھا۔ ایک روز قبل ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی لیکن آج ان کی طبیعت بہتر ہے اور ان کی دیکھ بھال بہترین انداز میں کی جا رہی ہے۔
انہوں نے عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ افواہوں پر توجہ نہ دیں۔ اگر وہ سید علی شاہ گیلانی کے بارے میں کسی بھی معلومات کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں تو انہیں پولیس کنٹرول روم سے رابطہ کرنا چاہئے۔
چند دن قبل سید علی گیلانی ان کی ایک ویڈیو جاری کی گئی تھی جس میں ان کو کافی علیل اور کمزور دکھایا گیا ۔ جبکہ عموماًانقلابی لیڈرز کی بیماری اور وفات کے متعلق خبریں اس طرح نہیں پھیلائی جاتیں۔ سید علی گیلانی کے مظفرآباد میںنمائندے نے کل جماعتی حریت کانفرنس کی طرف سے بیان جاری کرکے ان کی زندگی میں ہی ان کے جنازے کا روڈ پلان بھی جاری کر دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے حکومتی اداروں کو اندازہ ہے کہ تحریک آزادی کشمیر میں اس مرد نحیف سید علی گیلانی کی کیا اہمیت ہے۔ اور موجودہ حالات میں اگر ان کا انتقال ہوتا تو عوام کی طرف سے حکومت اور اس کے اداروں کے لئے کیا مشکلات پیدا ہوتیں ، چنانچہ اس کے تدارک کے لئے بھارتی اداروں نے نفسیاتی حربے کے ذریعے اس مشکل کو بخوبی حل کر لیا۔
اننت ناگ اور بڈگام میں آٹھ افراد گرفتار
سرینگر ،
مقبوضہ جموں و کشمیر پولیس نے ضلع بڈگام میں عسکریت پسندوں کی ایک پناہ گاہ کو تباہ کرکے بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد کرنے کا دعوی کیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق بڈگام پولیس نے عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ کو تباہ کیا اور ان کے5 معاون کو گرفتار کرلیا۔
گرفتار شدگان شاہنواز احمد وانی، ناصح احمد وانی، بلال احمد خان، عرفان احمد پٹھان اور علی محمد بٹ میں سے تین کا تعلق گنڈی پورہ بیروہ سے ہے جبکہ دوافرادواریہامہ بیروہ کے رہنے والے ہیں۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہے۔
دوسری طرف اننت ناگ پولیس کے دعویٰ کے مطابق عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ افراد عادل احمد، عاقب فیاض اور اعجاز احمدکو گرفتار کیا۔
کیا آپ جانتے ہیں ریڈیو خریدنے کے لیے لائسنس بھی ضروری تھا؟
ورلڈ ریڈیو ڈے کے موقع پر خصوصی رپورٹ
احمد آباد ،
ہر برس 13 فروری کو عالمی یوم ریڈیو کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ کسی زمانے میں ریڈیو خریدنے کے لیے لائسنس کا ہونا بھی ضروری تھا۔
بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمدآباد کے غلام محمد انصاری کے پاس آج بھی ریڈیو لائسنس بک موجود ہے جس آج بھی پوسٹ آفس کی ٹکٹیں چسپاں ہیں۔آج ہم ریڈیو، ٹیلی ویژن اور موبائل فونز دکانوں سے خرید تے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں کسی لائسنس کی ضرورت پیش نہیں آتی۔اگر یہ کہا جائے کہ ایک زمانے میں یا آج سے چالیس برس قبل ریڈیو خریدنے کے لیے پوسٹ آفس سے اس کا لائسنس لینا پڑتا تھا تو لوگ حیران ہوجائیں گے۔
غلام محمد انصاری نے بتایا کہ آج سے 40 برس قبل ریڈیو خریدنے کے لیے سب سے پہلے ریڈیو خریدنے کی رسید پوسٹ آفس سے حاصل کرنی پڑتی تھی، اس کے بعد ایک لائسنس بک دی جاتی تھی جس پر ریڈیو، ٹیلی ویژن لائسنس چھپا ہوتا تھا۔
نیز اس کے سرورق پر ریڈیو کا ٹاور اور ریڈیائی شعاعیں نظر آتی تھی۔اس لائسنس کو انڈین پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کے ذریعے جاری کیا جاتا تھا اور اس ادارے کا لوگو بھی اسی سرورق کے نیچے بائیں جانب چھپا ہوتا تھا جو ایک دائرے میں اپنی ماتحتی کا ثبوت پیش کرتا تھا۔
اس لائسنس بک یا کتابچے کے دوسرے صفحے پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو دکھائی دیتا ہے کہ ریڈیو جاری رکھنے کے لیے زر سالانہ کے طور پر ڈاک گھر کی مخصوص ٹکٹ لگائی جاتی ہے اور اس پر لائسنس یافتہ کے ذریعے سالانہ فیس ادا کرنے پر پوسٹ آفس کی مہر بھی لگائی گئی ہیں۔
اس زمانے اور آج کے زمانے کے اقتصادی حالات اور مہنگائی سے موازنہ کیا جائے تو 1978 میں ریڈیو کی سالانہ فیس17 روپے بہت زیادہ ہوتی تھی اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں ریڈیو جاری رکھنے کی سالانہ فیس ایک عام آدمی کے بس سے باہر تھی۔
غلام محمد انصاری کے والد صاحب نے ایک ریڈیو خریدا تھا، ریڈیو کے لائسنس بک میں ریڈیو کے آئین اور اصول و ضوابط لکھے ہوتے تھے۔ غلام محمد انصاری نے کہا کہ اس لائسنس بک میں کل 16 اصول و ضوابط درج ہوتے تھے۔
اس کے علاوہ اگر ریڈیو کو فروخت کرنا چاہتے تھے تو اس تعلق سے ایک عرضی متعلقہ دفتر کو دینی ہوتی تھی اور فریقین کی رضامندی پر مبنی عرضداشت پیش کرنے کے بعد ہی کسی دوسرے شخص کے نام پر یہ لائسنس منتقل کیا جا تا تھا۔
حالاںکہ آج کے دور میں ہم بغیر لائسنس کے ریڈیو خرید تو سکتے ہیں لیکن موجودہ دور میں ریڈیو کی اہمیت ختم ہو رہی ہے۔
اے وی پڑھو
پاک بھارت آبی تنازعات پر بات چیت کے لیے پاکستانی وفد بھارت روانہ
لتا منگیشکر بلبل ہند
بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایمرجنسی الرٹ جاری